عالم کبیر اور تقسیم شخصیت
انسان کے اندر کیا کیا ہے، اس کا اندازہ لگانا قریب قریب ناممکن ہے۔ انسان کے اندر خدا ہے، کائنات ہے،
FAISALABAD:
دوربینوں میں یہ طاقت موجود ہے کہ ہم کیمرے کی آنکھوں کے ذریعے خلا کے اندر دس بارہ ارب نوری سال کے فاصلے تک جھانک سکیں۔ دس بارہ ارب نوری سال کیا؟ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ چاند سے جو روشنی کی کرن چلتی ہے وہ ڈیڑھ سیکنڈ میں زمین پر پہنچتی ہے، سورج کا فاصلہ نو کروڑ میل سے زیادہ ہے، سورج کی روشنی چند منٹ کے اندر زمین پر پہنچ جاتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ شعاع نور ایک سال میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے اسے سال نوری کہتے ہیں۔
ایک سال نوری، ساٹھ کھرب میل کے مساوی ہوتا ہے، اجمالاً کہنا یہ ہے کہ ہم معلوم کائنات کو اس کے آخری کونے تک جھانک سکتے ہیں لیکن کیسی ستم ظریفی ہے کہ خود اپنے اندر جھانکنا، یہ دیکھنا کہ پانچ فٹ کے جسم کے اندر، انچاس اونس کے دماغ میں کیا کچھ ہورہا ہے، تقریباً ناممکن ہے۔ علم اور معرفت رکھنے والے لوگ اتنی بڑی کائنات کو جس میں ہمارا نظام شمسی ذرے کی حیثیت رکھتا ہے، عالم صغیر (چھوٹی دنیا) اور مشت خاک آدمی کو عالم کبریا (بڑی دنیا) کہتے ہیں۔ آخر کوئی تو بات ہے کہ انسان کو عالم کبیر کہا جاتا ہے۔
انسان کے اندر کیا کیا ہے، اس کا اندازہ لگانا قریب قریب ناممکن ہے۔ انسان کے اندر خدا ہے، کائنات ہے، تخلیق ہے، قیامت ہے، حشر ہے اور دنیا و آخرت ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اور اس کی ذات کے درمیان جو پردہ حائل ہے، وہ اٹھ جاتا ہے اور ہم کو ایک ایسی دنیا نظر آجاتی ہے کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔ درحقیقت یہ ہمارا شعور ہے جو ہمیں پانچ حسوں (آنکھ، ناک، کان، زبان اور دست و پا) کے اندر محبوس رکھے ہوئے ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ شعور معطل ہوجائے تو پتہ چلے کہ ہم کتنی بڑی کائناتیں اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں۔
قارئین کی جانب سے خطوط ملنے کا سلسلہ برقرار ہے۔ اکثر قارئین مابعد نفسیات یا ماورائی علوم سے متعلق اپنی الجھنوں اور تجربات کا تذکرہ خاص کر خواب کی حالت میں عجیب محسوسات کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان کے خوابوں کا مظہر ماورائی نہیں بلکہ خالصتاً نفسیات سے تعلق رکھتا ہے۔ ابتدائی تمہید کا مقصد بھی یہی تھا کہ آپ کو بتایا جاسکے انسانی ذہن کس قدر پیچیدہ ہے۔
یہاں دو اور دو، چار کا فارمولا کارگر نہیں ہوتا بلکہ دو اور دو پانچ ہی نہیں دس بھی ہوسکتے ہیں، خلاصہ یہ کہ ہم پیشگی یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر ایک شخص کے محسوسات کا محرک کچھ ماورائی معاملات ہیں تو کوئی دوسرا شخص ان ہی محسوسات کے ساتھ مابعدالنفسیات معاملات سے دوچار ہوگا بلکہ اس کے محسوسات کا محرک خالصتاً نفسیات سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص خواب کی حالت میں خود کو ہوا میں پرواز کرتا محسوس کرتا ہے اور دور دراز کی سیر کرکے وہاں کے حالات جان لیتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس کے جسم مثالی کی پرواز ہو لیکن یہی کیفیات دوسرے شخص کے ساتھ پیش آتی ہیں تو ضروری نہیں کہ یہ بھی جسم مثالی کی پرواز ہو بلکہ یہ اس شخص کا نفسیاتی عارضہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک ماہر علم ہی دونوں اشخاص کی کیفیات کا صحیح تجزیہ کرسکتا ہے۔
خواب نفس انسانی کا بہت خاص عمل ہے، جب ہم پر بیداری میں لاشعوری کیفیت طاری ہوتی ہے تو تخیل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور جب سوتے ہوئے نفس میں شعری حالات کا ظہور ہوتا ہے تو عجیب و غریب خواب نظر آنے لگتے ہیں۔ ہر خواب کسی نہ کسی جذبے کا مظہر اور کسی نہ کسی خواہش کا ترجمان ہوا کرتا ہے۔ خواب جس قدر گہرا، پیچیدہ، الجھا ہوا اور بظاہر مہمل ہوگا، اس کے معنی اتنے ہی گہرے اور اس کے اندر لپٹے ہوئے جذبے اتنے ہی شدید اور پیچیدہ ہوں گے۔ انسان کی کوئی جسمانی یا نفسانی حرکت بے مقصد اور بے معنی نہیں ہوتی بلکہ ہر حرکت کے اندر ذات کی کوئی نہ کوئی پیچیدگی کارفرما ہوتی ہے۔ یہی حال پاگلوں کا ہے، وہ جتنی حرکتیں کرتے ہیں (بڑبڑانے سے لے کر تھرکنے تک) لوگوں کی نظر میں وہ کتنی ہی مہمل، فضول اور بے معنی کیوں نہ ہو، مگر نفسیات داں اور نفس داں کی نظر میں ہر حرکت کے ساتھ ایک مقصدیت اور ہر مقصدیت کے ساتھ ایک حرکت وابستہ ہوتی ہے۔
خواب مہمل اور بے معنی نہیں ہوتے، ہر خواب کے ایک معنی، مفہوم اور ایک پیام ہوتا ہے۔ خواب نفس انسانی کی بے مقصد نہیں بامقصد سرگرمی ہے۔ ہمارا مطمع نظر اس وقت خوابوں کا سچا یا جھوٹا ہونا یا خوابوں کی تعبیر نہیں بلکہ خوابوں کا نفسیاتی مظہر بیان کرنا ہے۔ یہ اور بات کہ خوابوں کی تعبیر بتانے والے بھی خواب دیکھنے والے کی نفسیاتی کیفیت اور مظہر کو مدنظر رکھتے ہیں۔
تقسیم شخصیت یا ذہنی بٹوارے کے موضوع پر ان ہی کالموں میں کئی بار لکھ چکا ہوں۔ لوگوں کو توجہ دلائی جائے کہ اگر وہ اپنی گہری جذباتی کشاکش کو سمجھنا چاہتے ہیں تو انھیں خود اپنے ذہنی اعمال کا جائزہ لینا اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ وہ کیوں ایسی دو ذاتوں میں بٹ کر رہ گئے جو ایک دوسرے سے پرخاش رکھتی ہیں۔ بچے کی شخصیت میں کوئی تضاد نہیں ہوتا، وہ ایک مشین کی طرح زندگی کے وظائف بجالاتا ہے۔ شخصیت میں تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم میں یہ شعور پیدا ہوجائے کہ ہر کام کے قاعدے مقرر ہیں اور اگر ان قاعدوں کی پابندی نہ کی جائے گی تو سماج سزا دے گا۔ یہ ایک بہت معمولی مثال ہے لیکن اس معمولی مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ شعور کی ترقی کے ساتھ ہی شخصیت کی تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
آدم و حوا کے ہر بچے اور بچی کو اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ کم حساس یعنی حقیقت پسند ہوتے ہیں وہ تو تقسیم شخصیت کے اس مرحلے سے گزرنے کے باوجود اپنے آپ کو سنبھالے رہتے ہیں اور بیرونی دنیا کے ضابطوں، طریقوں، پیمانوں اور معیاروں سے مطابقت پیدا کرلیتے ہیں، مگر تخیل پرست لوگ اس کشمکش میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
بارہ، تیرہ، چودہ سال کی عمر میں ہر لڑکے اور لڑکی کے اندر نئی قوتیں جاگتی ہیں، یہ قوتیں ایک مہینے یا ایک سال کے بچے میں بھی موجود ہوتی ہیں لیکن ان کا بھرپور اظہار سات سال کے بعد رفتہ رفتہ ہوتا ہے، پھر یہ قوت پورے انسانی وجود کو اندر اور باہر سے بدل دیتی ہے۔ یہ قوت جنسی بھی ہے اور نفسی بھی۔ قوت ایک ہی ہے، اس کے مظاہر مختلف ہیں، جس طرح بجلی کہ بجلی روشنی بھی کرتی ہے، پنکھا بھی چلاتی ہے، کمرے کو گرم یا سرد بھی کرتی ہے، استری بھی کرتی ہے۔ اس قوت کا جب ظہور ہوتا ہے تو انسانی نفس ڈر جاتا ہے اور یہیں سے انسان کی حقیقی شخصیت کے اندر سے ایک نئی شخصیت جنم لینے لگتی ہے اور انسان دہرا ہوجاتا ہے... دو تہوں کا آدمی۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)