زمین پر لوہا کہاں سے آیا
ایٹم کے نیوکلس میں پروٹان کو جمع کرنے کے لیے بہت زیادہ درجۂ حرارت درکار ہوتا ہے
چند دن پہلے ایک سوشل میڈیا گروپ سے قرآنِ مجید کی سورۃ الحدید کی روشنی میں لوہے کے بارے میں بہت ہی مفید معلومات ملیں۔ان معلومات کو ذرا زیادہ بہتر بنا کر پیش کرنے کا دل چاہا۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ لوہا اس زمین اور نظامِ شمسی کا حصہ نہیں ہے،کیونکہ لوہے کے پیدا ہونے،بننے کے لیے ایک خاص درجۂ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے نظامِ شمسی کے اندر موجود نہیں۔اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سوائے دو عناصر ہائیڈروجن اور ہیلیم کے زمین پر پائے جانے والے تمام عناصر ہمارے نظامِ شمسی کے اندر بننے والے عناصر نہیں ہیں۔
کائنات کے ابتدائی لمحات میںجب ایک دفعہ ایٹم کے اجزائے ترکیبی یعنی پروٹان،نیوٹران اور الیکٹران نے وجود حاصل کر لیا تو اس کے بعد صرف پروٹان کو اپنے جیسے مزید پروٹانز کے ساتھ جڑ کر دوسرے عناصر کو جنم دینا تھا۔کائنات میں سادہ ترین عنصر ہائیڈروجن کا ہے،اس کے مرکز یعنی نیوکلس میں صرف ایک پروٹان ہوتا ہے۔ہائیڈروجن کے ایک پروٹان کے ساتھ جتنے مزید پروٹانز جڑتے چلے جائیں گے،اتنا ہی پیچیدہ اور بھاری عنصر وجود میں آتا چلا جائے گا۔بظاہر تو پروٹانز کا آپس میں جڑنا بہت آسان دکھائی دیتا ہے لیکن یہ کائنات کا ایک مشکل ترین عمل ہے۔
ایٹم کے نیوکلس میں پروٹان کو جمع کرنے کے لیے بہت زیادہ درجۂ حرارت درکار ہوتا ہے،اتنا زیادہ جو ہمارے نظامِ شمسی میں کہیں بھی نہیں کیونکہ اس عمل کے لیے درکار درجۂ حرارت صرف بہت ہی بڑی جسامت والے ستاروں میں پایا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ درجہء حرارت سورج سے کم از کم 9گنابڑے ستارے کے قلب Coreمیں ہی ممکن ہے۔سورج کی سطح پر عمومی درجہء حرارت 16000ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے جب کہ سورج کے قلب میں ٹمپریچر ڈیڑھ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔
سورج کے قلب میں ٹمپریچر کی موجودگی میں سادہ ترین عنصر ہائیڈروجن جلتے ہوئے صرف ایک پروٹان کو جوڑ کر ہیلیم میں تبدیل کرتا ہے۔ سورج ہر ایک سیکنڈ میں680ٹن ہائیڈروجن جلاتا ہے۔آپ دیکھئے کہ سورج جیسا گرم ستارہ اپنے مرکز کے درجہ حرارت سے صرف ایک اور عنصر پیدا کر سکتا ہے تو لوہا جس کا اٹامک نمبر 26ہے وہ کہاں بنتا ہو گا،اور یہ زمین پر کیسے آ موجود ہوا۔
ہائیڈروجن اور ہیلیم سے زیادہ بھاری عناصر بننے کے لیے زیادہ بڑے حجم والے ستارے اور بہت زیادہ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے لیکن کوئی ستارہ چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اپنی زندگی میں صرف ہائیڈروجن کو ہیلیم میں ہی تبدیل کر پاتا ہے،البتہ سورج سے کم از کم نو گنا بڑے ستاروں میں جب جلنے کے لیے ایندھن ختم ہونے پر موت واقع ہونے لگتی ہے تو تب اپنے وجود کے بقا کی جنگ میں وہ تیزی سے جلتا ہے۔تیزی سے جلتے ہوئے اس کا درجۂ حرارت اتنا بڑھ جاتا ہے کہ پروٹانز جڑنے کا عمل نیوکلئر فیوژن ممکن ہو کر زیادہ پیچیدہ اور بھاری عناصر تشکیل پاتے ہیں۔جب تک کسی ستارے کے پاس اپنے حجم کے لحاظ سے جلتے رہنے کے لیے ہائیڈروجن موجود ہے،وہ ستارہ زندہ ہے۔
ایندھن ختم ہونے لگتا ہے تو ستارے کی فنا کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔فنا کا یہ عمل خاموشی سے نہیں ہوتا۔ایندھن کی کمی سے ٹھنڈا ہونے کی بجائے وہ زیادہ زور اور تیزی سے جلتا ہے جس سے اس کا درجہ حرارت پہلے سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ایسے میں اس کا حجم پھول کر بڑھ جاتا ہے۔بڑھے ہوئے حجم کو قائم رکھنے کے لیے زیادہ ایندھن اور درجۂ حرارت درکار ہوتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتا۔ستارہ فنا ہونے کی یہ پہلی اسٹیج ہوتی ہے۔
ستارہ اپنی کشش ثقل کے خلاف ایک مشکل جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔کششِ ثقل حاوی ہونے پرستارے کا پورا ڈھانچہ سارے بوجھ کے ساتھ ستارے کی Coreپر دھڑام سے گرتا ہے۔فنا کی دوسری اسٹیج پر انرجی کا اخراج رکنے سے کور کولیپس کرے گی،درجہء حرارت کئی سو ملین ڈگری تک پہنچ جائے گا اور عناصر وجود پذیر ہوں گے۔ستارے کے حجم کے مطابق نیوکلر فیوژن کا یہ عمل کئی بار دہرایا جا سکتا ہے۔ہر اسٹیج پہلی اسٹیج سے کم تر وقت کے لیے ہوتی ہے۔
لوہا صرف بہت ہی بڑے ستارے یعنی سوپر نووا میں ہی بن سکتا ہے۔جب ایسا کوئی سوپر نووا مکمل طور پر فنا ہوکربکھر جائے تو اس کے اندر مادہ شہابِ ثاقب Meteoriteکی شکل میں اپنے مادی عناصر دوسرے سیارے پر پہنچا دیتا ہے۔سائنسدانوں کے خیال میں اربوں سال پہلے اسی طرح شہابِ ثاقب نے لوہا زمین پر پہنچایا۔اﷲ سبحان و تعالیٰ نے یہی بات قرآن میں بیان فرمائی ہے۔قرآن کی سورۃ الحدید57ویں سورۃ ہے۔الحدید کا مطلب لوہا ہے۔اسی سورۃ کی آیت نمبر 25میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے لوہے کو اتارا،اس میں سخت قوت اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔اﷲ کی کتاب میں اس حقیقت کا بیان ایک ایسی سچائی ہے جو ڈیڑھ ہزار سال پہلے کسی کے علم میں نہیں تھی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ لوہا زمین کی Coreمیں مائع شکل میں پایا جاتا ہے اور لوہے کی بدولت زمین کے گرد مقناطیسی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ان مقناطیسی لہروں کی وجہ سے سورج کی الٹرا وائیلٹ شعائیں زمین پر منفی اثرات نہیں ڈال سکتیں۔یہی لہریں وائرلیس کیمونیکیشن میں مددگار ہوتی ہیں۔قرآن میں کل 114سورتیں ہیں، جن کا نصف 57بنتا ہے،اور قرآن کی سورۃ الحدید اس کے بالکل درمیان میں سورۃ نمبر 57ہے۔یہ بھی ایک مانی ہوئی بات ہے کہ لوہے کے بغیر زمین پر زندگی شاید نا ممکن ہوتی۔بلند و بالا عمارتوں کو مضبوط بنانے،غرضیکہ تقریباً ہر چیز کی مضبوطی کے لیے لوہے کا استعمال کیا جاتا ہے۔
لوہا انسانی زندگی میں یوں اہم ہے کہ یہ خون کا جزو ہے جسے ہیموگلوبین کہتے ہیں۔ ہیموگلوبین خون میں آکسیجن کو پورے جسم میں پہنچانے کا کام کرتی ہے۔ موت سے ہمکنار ایک ستارے کو لوہا بنانے کے لیے نیوکلر فیوژن ری ایکشن کے عمل سے ایک سے زیادہ بار گزرنا پڑتا ہے۔ دوسری بار اس عمل سے آکسیجن اور کاربن جیسے عناصر تشکیل پاتے ہیں۔ یہ دونوں عناصر زندگی کے لیے بہت اہم ہیں،اس لیے یہ دوسری اسٹیج بہت ضروری ہوتی ہے۔تیسری اسٹیج پر میگنیشیم،،سوڈیم، نیوآن اور ایلومینیم جیسے عناصر تشکیل پاتے ہیں۔ یہ پراسیس جاری رہتا ہے اور ہر اسٹیج پہلی اسٹیج کے مقابلے میں مختصر دورانیئے کی ہوتی جاتی ہے جس میں بہت ہی بلند درجہ حرارت ،پیچیدہ کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پروٹانز کو نیوکلس میں اکٹھا کر کے عناصر کو جنم دیتے ہیں۔تیسری اسٹیج سے آگے بڑھ کرفنا سے دوچار ستارہ آخری مراحل میں داخل ہوتا ہے۔ستارے کا قلب بے انتہا ٹمپریچر اور انرجی کے اخراج کی وجہ سے ٹھوس لوہے میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔کیا ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ فنا سے دوچار ستارہ لوہے کو بنانے کے لیے جانکنی کے کن مراحل سے گزرتا ہے۔
عربی زبان کی ابجد 28 حروف پر مشتمل ہے۔ علم الاعداد کے مطابق ہر حرف کی ایک قیمت ہے۔ لفظ الحدید کا جائزہ لیں تو کچھ یوں ہے کہ اس میں ا ل ح د ی د کے نمبر کچھ اس طرح ہیں 1+30+8+4+10+4=57.اگر لفظ حدید کی طرف آئیں تو ح د ی د کا نمبر 8+4+10+4=26 یہ 26نمبر لوہے )آئرن( کا اٹامک نمبر ہے۔سورۃ الحدید میں 4رکوع ہیں جب کہ آئرن آئیسوٹوپس کی تعداد بھی 4ہی ہے۔ان آئیسوٹوپس کا ماس نمبر بھی 57 ہے۔یہ محیرالعقول معلومات قرآن میں تقریباً ڈیڑھ ہزار سال سے موجود تھیں لیکن ہم نے قرآن کو سمجھنے کی سعی نہیں کی۔یہ معلومات صرف ایک بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اﷲ کے کلام کو بہت غور سے ،توجہ کے ساتھ پڑھنا چاہیے کیونکہ اس کے اندر علم کے خزینے دفن ہیں ،جیسے کہ لفظِ حدید کے اندر لوہے کا اٹامک نمبر اور دوسری بے شمار معلومات دی گئی ہیں۔خدا کرے قرآن پر نہایت غور و فکر سے ہم علم کی نئی راہیں تلاش کر کے دنیا کو مستفید کر سکیں۔