انور حسین سے آرزو لکھنوی تک آخری حصہ
آرزو لکھنوی کو موسیقی کی بڑی گہری سمجھ تھی وہ دھنوں پر بھی بڑی آسانی کے ساتھ گیت لکھتے تھے
یہ ان کے لیے بڑا سہل کام تھا مگر ان کی بے چینی کسی طرح کم ہونے میں نہیں آتی تھی، انھیں تو فلموں میں گیت لکھنے کا ارمان تھا۔ پھر وقت گزرتا رہا اور یہ اپنے اچھے وقت کا انتظار کرنے لگے۔ پھر ایک دن وہ وقت بھی آگیا کہ انھیں فلموں میں گیت لکھنے کی آفر آنے لگیں اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک معروف فلمی گیت نگار ہوتے چلے گئے تھے انھوں نے بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھے۔
اس دورکی چند قابل ذکر فلمیں جن کے نام تھے اسٹریٹ سنگر، لگن، آندھی، نرتکی، دیوداس، مکتی، جوانی کی ریت، ڈاکٹر، لالہ جی، روٹی، یاد، فیشن، پرایا دھن، تصویر، پرکھ اور بہت سی فلمیں تھیں۔ انھوں نے نہ صرف فلموں کے لیے خوبصورت گیت لکھے بلکہ بعض فلموں کے لیے جاندار مکالمے بھی تحریرکیے۔ ان فلموں میں مشہور فلمیں بے قصور، فیشن، نئی زندگی، پرایا دھن اور پرکھ وغیرہ شامل تھیں۔
اس زمانے میں ایک اداکار اور ہدایت کار مظہر خان کا بڑا بول بالا تھا۔ آرزو لکھنوی کی شہرت سے متاثر ہوکر مظہر خان نے اپنی کئی فلموں کے گیت اور مکالمے بھی ان سے لکھوائے۔ ان فلموں میں ایک فلم جو ''یاد'' کے نام سے بنائی گئی تھی اس نے سارے ہندوستان میں لازوال کامیابی حاصل کی تھی۔ آرزو لکھنوی کا لکھا ہوا ہرگیت ہٹ ہوتا تھا اور فلم بینوں کی زبانوں پر آ جاتا تھا وہ گیت گلی گلی گایا جاتا تھا۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے اس دور کے چند مقبول گیتوں کے مکھڑے درج ذیل ہیں۔
٭ یہ کون آیا سویرے سویرے
٭ ترے دیے میں کتنا تیل
٭ مدھ بھری رُت جوانی کی
٭ مہک رہی ہے پھلواری
٭ غریبوں پر دیا کرو
٭ میں سوئے بھاگ جگا دوں
اور بھی بے شمارگیت جو اس زمانے میں زبان زد خاص و عام تھے۔
ایک طویل عرصے تک وہ بحیثیت گیت نگار فلمی دنیا سے وابستہ رہے۔ یہ وہ دور تھا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نہ آسکا تھا وہ ابتدائی دور سے فلمی دنیا کے ترقی پذیر دور تک اپنے قلم کا جادو جگاتے رہے۔ انھی کے ایک گیت سے فلمی دنیا کے نامور اور عظیم گلوکار محمد رفیع کی شہرت کا آغاز ہوا تھا۔ اس کے بول تھے۔
جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے
کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
یہ گیت فلم رات کی رانی کا تھا اور اس فلم کی موسیقی ہنس راج بہل نے دی تھی آرزو لکھنوی فلمی دنیا میں ایک دور کا نام تھا۔
آرزو لکھنوی کو موسیقی کی بڑی گہری سمجھ تھی وہ دھنوں پر بھی بڑی آسانی کے ساتھ گیت لکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کے گیتوں میں نغمگی اور گہری موسیقیت ہوتی تھی۔ وہ اپنے دور کے ڈرامہ نگار بھی تھے اور انھوں نے کئی اسٹیج ڈرامے لکھ کر بھی بڑی شہرت کمائی تھی، آغا حشر کی طرح آرزو لکھنوی کو بھی اسٹیج ڈراموں کی بڑی سوجھ بوجھ تھی وہ خود بھی بہت اچھا بولتے تھے انھیں انگوٹھیوں سے بھی بڑی دلچسپی تھی اور وہ اپنی انگلیوں میں عقیق اور فیروزے پہنتے رہتے تھے۔
جو شہرت آرزو لکھنوی کے حصے میں آئی تھی ایسی شہرت بہت کم شاعروں کو نصیب ہوتی ہے۔ انھوں نے ایک طویل عرصہ فلمی دنیا میں گزارا اور خوبصورت گیت تخلیق کیے۔ انھیں ستارہ شناسی سے بھی بڑی دلچسپی تھی علم نجوم پر انھیں دسترس حاصل تھی 1950 میں آرزو لکھنوی ایک انڈو پاک مشاعرے میں شرکت کرنے کی غرض سے پاکستان آئے تھے وہ ہندوستان واپس جانا چاہتے تھے مگر پاکستان کی مٹی انھیں یہاں سے واپس جانے نہیں دے رہی تھی وہ یہاں بیمار ہوگئے وہ کراچی ہی میں پی آئی بی کالونی میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ پھر بیماری ہی کی وجہ سے اسپتال چلے گئے پھر وہ اسپتال ہی کے بستر پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)