یوم آزادی ہماری معاشی ناکامی اور بنگلہ دیش

دونوں حصوں کے عوام نے سوچا بھی نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟



ملک میں یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ متحدہ پاکستان کے وقت بھی یہ دن انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ مشرقی پاکستان میں 1969 تک یہ دن بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا تھا۔ 16 دسمبر 1971 کو یوم سقوط ڈھاکا کے بعد پانچ عشرے جب گزرگئے تو عوامی لیگ کی کشتی کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا۔ اس طرح گزشتہ 77 برسوں میں اہل بنگال نے یہ تیسری آزادی حاصل کی۔


اس لحاظ سے پہلی یوم آزادی ان کے لیے 14 اگست کی بنتی ہے، جب انھوں نے اکثریتی فیصلے اور اکثریتی مسلم آبادی کی بنا پر انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ ہم اب جس موقع پر آزادی کا جشن منا رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ معاشی غلامی کی جانب غیر محسوس طریقے سے دھکیلے جا رہے ہیں، جس کے آثار اب آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں، جیسے آئی پی پیز کا معاہدہ ہوا۔ آئی ایم ایف سے قرض اب سود ادا کرنے کے لیے لے رہے ہیں اور اپنی مرضی کے برعکس پاکستانی عوام کی مشکلات میں اضافے کی شرطیں تسلیم کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔


آج سے ساٹھ برس قبل کی بات ہے جب دنیا ہماری ترقی کی شرح دیکھ کر حیران و پریشان تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب مشرقی بازو اور مغربی بازو کے درمیان ایک ہزار میل سے زائد کا فاصلہ ہونے کے باوجود آپس میں متحد تھے، شیر و شکر تھے، دونوں حصوں کے مابین باہمی تجارت زوروں پر تھی۔ اس دور میں ایک طرف ملک میں سرمایہ داری نظام پنپ رہا تھا، اس کے ساتھ ہی کاٹیج انڈسٹری، چھوٹی چھوٹی صنعتوں کا جال بچھ رہا تھا۔


ایک طرف سنہری ریشے پٹ سن کی پیداوارکے انبار لگ رہے تھے، دوسری طرف روپہلی ریشے کپاس کی پیداوار سے گودام بھرے جا رہے تھے۔ جننگ فیکٹریاں قائم کی جا رہی تھیں،کاٹن انڈسٹری کو عروج حاصل ہو رہا تھا، ٹیکسٹائل ملیں لگ رہی تھیں، مزدوروں،کاریگروں، مستریوں، فورمینوں، سپروائزروں، انجینئروں، منیجروں کی مانگ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ یہ باتیں نہیں حقیقت ہے۔ ذرا اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں۔ پاکستان کی معاشی شرح افزائش میں ہر اس سال تیزی سے اضافہ ہوتا رہا جب زرعی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ایسا اس لیے ہو رہا تھا کہ پہلے تین معاشی منصوبہ بندیوں میں جی ڈی پی میں اضافے کی خاطر زراعت کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ زرعی مسائل حل کرنے پر زور دیا گیا۔


اب ہم جی ڈی پی کی شرح افزائش اور زرعی پیداوارکی شرح افزائش دونوں کو ملا کر دیکھتے ہیں اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا زوال کب سے شروع ہوا؟ مغربی پاکستان کے چند افراد کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان سے علیحدگی میں بہتری ہے۔ جب کہ اہل بنگال کے زیادہ لوگوں کا خیال تھا کہ مغربی پاکستان ان پر بوجھ ہے۔ حالانکہ دونوں ایک دوسرے کے معاون تھے، شریک تھے، باہمی تجارتی شراکت دار تھے۔


ایک طرف پٹ سن، چاول، لیچی،کٹھل، مچھلی اور بہت سی نوع و اقسام کی اشیا کی فاضل پیداوارکے باعث برآمدات کی مالیت بڑھ رہی تھی، دوسری طرف انگریزوں کی قائم کردہ ریلوے لائنوں پر چلنے والی مال گاڑیوں کے علاوہ ٹرک بھر بھرکرکپاس، چاول،آم، مالٹے،گرم مسالہ جات، جڑی بوٹیاں،کپڑے، لیدر گارمنٹس، جوتے، چپل، ٹینٹ، ترپالیں، دریاں اورکیا کیا بتاؤں خوب تجارت ہوتی۔ برآمدات ہو رہی تھی، کیونکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے تو زراعت پر مبنی صنعت بھی ترقی کرتی ہے اور فاضل زرعی پیداوارکی فروخت بھی کردی جاتی ہے۔ کچھ ایسے ممالک تھے جوکہ ہمارا معاشی ماڈل اپنانے کے خواہاں تھے اورکچھ کو یہ شرح افزائش ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ چلیے،آئیے! دونوں مدوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔


جی ڈی پی کی شرح اور زرعی پیداوار میں اضافے کی شرح۔ آج سے ستر سال قبل کی بات ہے آپ حیران ہوں گے پاکستان کی جی ڈی پی افزائش 1022 فی صد اور ایگریکلچر گروتھ 1953-54 کی تھی۔ دراصل ہم پر 6 ستمبر 1965 کی رات اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کرکے پاکستان کی شرح ترقی کو زک پہنچائی گئی۔ 17 روزہ جنگ الحمد للہ ہم جیت گئے لیکن پھر بھی معاشی میدان کی بازی ابھی تک ہارے نہیں تھے،کیونکہ 1965-66 کی شرح ترقی 7.56 فی صد رہی۔ اگرچہ زرعی پیداوار خاصی کم رہی تھی۔ 1967-68 میں پھر ہم سنبھل گئے۔ جب زرعی پیداوارکی شرح افزائش 11.73 فی صد اور شرح افزائش 6.79 فی صد رہی۔ لوگ چھوٹے اور بڑے پیمانے کی صنعتیں لگا رہے تھے۔


دونوں حصوں کے عوام نے سوچا بھی نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟ 1969-70 میں معاشی ترقی کی شرح 9.79 فی صد اور زرعی پیداوار کی شرح ترقی 9.55 فی صد رہی، اب اگلے سال مشرقی پاکستان میں سیلاب بھی آگیا اور ملک بھر میں ہنگامے بھی ہوتے رہے۔


قصہ مختصر زرعی پیداوار منفی 3.7 فی صد اور شرح افزائش محض1.23 فی صد رہ گئی۔ بس اب آپ سمجھ جائیں پھر سقوط ڈھاکا ہوا اور پاکستان کی شرح افزائش کو شدید دھچکا لگا۔ آخرکار پاکستان قرضوں کے دام میں آ ہی گیا اور پھر 50 سال قبل 1974 کے بعد نہ کوئی بڑا ڈیم بنا اور 1994 کے بعد آئی پی پیز مسلط کردی گئی جس نے اب ہمارا برا حال کردیا ہے۔ حوصلہ رکھیں، بس برا وقت آ کر گزر جائے گا اور اچھا وقت جلد آئے گا انشا اللہ۔ ضرورت اس امرکی بھی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ہر میدان میں خاص طور پر باہمی تجارت اور بین الاقوامی امور میں اپنی ہم آہنگی کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔