نوید کو بھی بہت سے پاکستانیوں کی طرح جاپان میں بغرض معاش رہنا پڑتا ہے۔ کئی دنوں سے ان کی کمپنی کے ملازمین کے ساتھ کشیدگی جاری ہے، جس کی وجہ سے وہ بہت اداس اور پریشان ہے۔
ہمارے بیرون ملک مقیم پاکستانی بہن بھائی جو حقیقی معنوں میں ہمارے ملک کے سفیر ہوتے ہیں، فکرِ معاش اور ہماری بے جا خواہشات پوری کرنے کے چکر میں اکثر اوقات اضطراب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دیارِ غیر میں سب مشکلات کا سامنا کرنا آسان بات نہیں۔
وہاں کے قوانین کے مطابق خود کو ڈھالنا بھی ایک اہم ٹاسک ہے۔ جب کوئی مشکل خصوصاً نوکری میں ہو تو امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں، اپنے پیاروں کی عدم موجودگی کے بہت برے اثرات انسان پر ہوتے ہیں۔ لہٰذا نوید کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں۔ آج چلتے چلتے جب وہ بس اسٹاپ پر پہنچا تو تھوڑی فرصت سے وہاں انتظار گاہ میں بیٹھ گیا، اس کی نظر سامنے لکھی عبارت پر پڑی جہاں یہ تحریر تھا کہ یہ بس اسٹاپ صرف اس لیے ہے کہ یہاں بسیں رکتی ہیں وقت نہیں، لہٰذا آپ اپنی زندگی کا سفر جاری رکھیے۔
جدید نفسیات یہ کہتی ہے کہ جب ہمارے رویے مثبت ہوتے ہیں تو ہماری شخصیت میں ایک نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔ شخصیت انسان کی ظاہری اور باطنی خوبیوں کا ایک مرکب ہوتا ہے۔ آپ کے دل میں اگر رحمدلی، محبت، ہمدردری اور سچائی کے جذبات ہوں گے تو آپ کے اندر کی خوبصورتی آپ کے چہرے پر جھلکنے لگے گی۔
جب تک آپ بے حس و حرکت رہتے ہیں معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، کیونکہ چلتی کا نام ہی گاڑی ہے۔ یہ شکایت کردینا بہت آسان ہے کہ ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ہے، رشوت ستانی، اور ذخیرہ اندوزی اور کرپشن ہے، لیکن ان سب کو ٹھیک کرنا ایک مشکل امر ہے۔
جیسا آپ اپنا ایک ذہن بنا لیں گے سب چیزیں ویسی ہی ہوتی چلی جائیں گی۔ اگر آپ اپنی سوچ بنا لیں کہ کوئی بھی چیز ناممکن نہیں تو کامیابی کی منزل دور نہیں ہوتی لیکن جب ہم خود کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ نہیں ہوسکتا تو اصل میں ہم ہار مان چکے ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اچھی سوچ رکھنے والوں کا ایک کارواں بنائیں کیونکہ انسان تو اس فانی دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس کے اچھے کام اور مثبت سوچ ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہتی ہے۔
مشہور شعر ہے
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
تو ہم سا ہونے کےلیے بھی تو ضروری ہے کہ ہم کوئی اچھی مثال قائم کریں، اپنے حصے کا کام اور اپنی ذمے داری پوری کریں۔ دوسروں کو نصیحت کریں لیکن پہلے خود تو عمل کریں۔ کسی بھی کامیاب انسان کو دیکھ کر ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص بہت کامیاب ہے یا اس کی قسمت نے اس کا بہت ساتھ دیا ہے، لیکن ہم اس کی جدوجہد اور ناموافق حالات میں اس کی بہتری کےلیے کیے گئے اقدامات کو بھلا دیتے ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو زندگی بغیر مقصد کے زندگی ہی نہیں، زندگی کو گزارنا نہیں بلکہ جینا چاہیے اور ہمیشہ سے ہی چند ترجیحات مرتب کرلینی چاہئیں تاکہ ہم بہتری کی طرف بڑھ سکیں۔
انسان کا دماغ ہی پورے جسم میں ایک واحد ایسا حصہ ہے جو ایک قیمتی تجوری کی مانند ہے، جس میں آپ کوشش سے چاہیں تو ہیرے جواہرت بھر دیں اور اگر نہ چاہیں تو اسے کوڑے دان کی شکل دے کر گندگی سے بھر دیں۔ پرمسرت زندگی کےلیے لوگوں سے بہتر تعلقات کےلیے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کےلیے بھی معنویت اور مقصدیت کی ضرورت ہے۔
انسان کی تخلیق کا بھی مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال فن کا عروج پورے عالم کو دکھانا تھا کہ میری یہ تخلیق بشر اشرف المخلوقات ہے، اس میں ذہنی بالیدگی اور صلاحیتیں ہیں، اس میں کوشش اور جستجو کی معنویت ہے تو آپ اپنی تخلیق کے مقصد سے کیوں غافل ہیں؟
زندگی میں ناکامیاں کس کا مقدر نہیں بنیں۔ امیر تیمور نے مکڑی کو آٹھ دفعہ دیوار پر چڑھتے اور اترتے دیکھا۔ مغل بادشاہوں نے کتنی مرتبہ شکست کھائی لیکن ہمت تک نہ ہاری۔ کئی لیڈر بچپن میں بہت ذہین نہیں تھے لیکن بعد میں انھوں نے بڑے کارنامے سرانجام دیے۔
آپ کا ماضی آپ کےلیے اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ آپ کا حال جس میں آپ زندہ رہ رہے ہیں وہ زندہ اور واقعی حال ہو۔ اگر آپ حال سنوارنے کی کوشش نہیں کر رہے اور ماضی کی بھول بھلیوں میں ہی گم ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ ابھی تک ماضی میں ہی جی رہے ہیں۔ حال میں جینے کا فن سیکھنے کےلیے ضروری ہے کہ آپ اپنی ذات میں عفو و درگزر کو سب سے پہلے اہمیت دیں۔ جتنے بھی ہمارے رشتے ہیں ان کو نبھانا سیکھیں اور لوگوں کے ساتھ ہونے والی تلخیوں کو بھلا دیں۔ کیونکہ جب تک آپ لوگوں کے تکلیف دہ رویوں کو نہیں بھولیں گے آپ اپنی زندگی کا بامقصد سفر کبھی شروع نہیں کرسکتے۔
بطور انسان ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ہمیشہ دعاگو رہنا چاہیے کیونکہ دعا ایک ایسی چیز ہے جس کی انسان کو زندگی اور پھر موت کے بعد بھی ضرورت رہتی ہے۔ تو چلیے آج سے ایک نئے دن کا آغاز کریں، ایک نئی امید کے ساتھ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔