انٹر سٹی بین الصوبائی ٹرانسپورٹ میں میڈیکل ایمرجنسی کی سہولیات ناپید
بس مالکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں میں فرسٹ ایڈ باکس رکھیں اور ہنگامی نمبرز آویزاں کریں، محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ
بین الصوبائی اور انٹرسٹی بس ٹرانسپورٹ میں میڈیکل ایمرجنسی کی سہولت ناپید ہے—فوٹو: اے آئی
ملک میں آمدورفت کا ایک بڑا ذریعہ انٹر سٹی اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹیشن ہے اور کراچی سے ملک کے مختلف اضلاع اور ان اضلاع سے کراچی روزانہ 450 سے 500 بسیں اور کوچز کی آمدورفت ہوتی ہے لیکن ان بسوں اور کوچز میں ہنگامی طبی امداد کی فراہمی کی سہولیات موجود نہیں ہیں اور نہ ہی بیشتر بس اڈوں پر کوئی میڈیکل ایمرجنسی یا ریسکیو اینڈ ریلیف سینٹر موجود ہے۔
ملک کی بیشتر شاہراہوں اور موٹرویز پر بھی میڈیکل ایمرجنسی کی سہولیات کا فقدان ہے، اگر کسی مسافر کو دوران سفر کوئی میڈیکل ایمرجنسی پیش آئے تو بس اور کوچ کے ڈرائیورز انہیں کوئی طبی امداد نہیں دے سکتے کیونکہ وہ میڈیکل ایمرجنسی کی تربیت سے واقف نہیں ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے وہ ریسکیو ادارے یا موٹروے پولیس کا تعاون حاصل کرتے ہیں۔
بس یونین کے صدر کا دعویٰ ہے کہ 80 فیصد جدید بسوں اور کوچز میں فرسٹ ایڈ بکس ہوتا ہے، محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ کے حکام کا کہنا ہے کہ تمام کوچز، بس مالکان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ لازمی اپنی گاڑیوں میں فرسٹ ایڈ باکس رکھیں جبکہ بس عملے کو طبی اور ریسکیو تربیت کے لیے جلد اقدامات کیے جائیں گے۔
ایکسپریس نیوز کو رپورٹ کی تیاری کے لیے کراچی سے فیصل آباد جانے والی ایک خاتون صبا یعقوب نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ بین الصوبائی بس ٹرمینل سہراب گوٹھ سے روانہ ہوئیں، انہیں بخار کی کیفیت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ بخار کے سبب ان کے جسم میں درد ہو رہا تھا، ان کے پاس بخار یا درد کی کوئی گولی موجود نہیں تھی، ٹکٹ چیکر سے درد یا بخار کے لیے گولی طلب کی تو اس نے حیران کن انداز میں کہا کہ بس میں کوئی اسپتال نہیں ہے، بسوں میں ہنگامی طبی امداد کے لیے کوئی میڈیکل باکس یا سہولت موجود نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام مسافر اپنے ہمراہ ادویات لے کر سفر کرتے ہیں، بڑی مشکل سے جب بس حیدر آباد پر رکی تو وہاں پر ایک میڈیکل اسٹور سے بخار اور درد کے لیے گولیاں خریدیں، جس کو کھانے کے بعد کچھ آرام محسوس ہوا اور باقی سفر مکمل کیا۔
'بچی کو معمولی تکلیف کی وجہ سے راستے میں اتر کر ہسپتال جانا پڑا اور ایک دن کی تاخیر ہوئی'
کراچی سے مانسہرہ جانے والے ایک مسافر یاسر نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں اور اہلیہ کے ہمراہ کراچی صدر بس ٹرمینل سے بین الصوبائی کوچ میں روانہ ہوئے اور ابھی بس نے سفر شروع ہی کیا تھا کہ ان کی 13 سالہ بیٹی اریبہ کے پیٹ میں تکلیف ہو گئی۔
یاسر کا کہنا تھا کہ انہوں نے ٹکٹ چیکر سے پیٹ کے درد کی گولی طلب کی تو اس نے بتایا کہ اس کے بعد کوئی دوا موجود نہیں ہے، پیٹ میں تکلیف زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ سہراب گوٹھ بس ٹرمینل پر اتر گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ سہراب گوٹھ بس ٹرمینل پر معلوم کیا کہ کوئی دواخانہ موجود ہے تو پتا چلا کہ یہاں کوئی ایمرجنسی کی سہولت موجود نہیں ہے، اسی لیے بچی کو قریبی اسپتال لے گئے، جہاں اسے علاج فراہم کیا گیا مگر اس بس میں سفر منسوخ کر دیا اور پھر ایک دن قیام کے بعد اگلے روز اپنی منزل مقصود پر روانہ ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اس صورت حال پر حیرت ہوئی کہ بس اڈوں اور انٹر سٹی یا بین الصوبائی بسوں میں طبی امداد کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے، اگر کسی مسافر کو دل کا دورہ یا کوئی سنگین طبی مسئلہ ہو جائے تو پھر اس کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا، اس کے بارے میں تو وہ شخص یا اس کے اہل خانہ ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔
کراچی سے کوٹ ادو جانے والی ایک خاتون سعدیہ افشین نے بتایا کہ وہ بچپن سے پولیو میں مبتلا ہیں، نقل و حرکت کے لیے خصوصی جوتا اور وہیل چیئر استعمال کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ کزن کی شادی میں شرکت کے لیے بذریعہ ایئرکنڈیشن کوچ صدر بس اڈے سے روانہ ہونے کے لیے پہنچی تو کوچ میں چڑھنے کے لیے کوئی ریمپ یا اسپیشل سیڑھی موجود نہین تھی لہٰذا وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کی مدد سے بس میں سوار ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوچز یا بسوں میں چڑھنے اور اترنے کے لیے ریمپ یا سیڑھی نہ ہونا افسوس ناک عمل ہے، حکومت کو اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے۔
کراچی کے کسی بس اڈے پر میڈیکل ایمرجنسی کی سہولت موجود نہیں، ٹرانسپورٹر
ایک ٹرانسپورٹر عمران نیازی نے بتایا کہ کراچی میں لی مارکیٹ، اورنگی ٹاؤن، یوسف گوٹھ ٹرمینل، بلدیہ ٹاون، صدر، لیاقت آباد 10 نمبر، سہراب گوٹھ سمیت دیگر بس اڈوں پر میڈیکل ایمرجنسی کے لیے کوئی طبی سہولت موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹر سٹی یا بین الصوبائی بسوں یا کوچز کی مختلف اقسام ہیں، جس میں اے سی اور نان اے سی شامل ہے، چندبسوں میں مخصوص سیٹیں لگی ہوتی ہیں اور کچھ سلیپرز پر مشتمل ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 70 فیصد بسیں جدید سیٹوں پر مشتمل ہیں تاہم 60 فیصد سے زائد بسوں میں فرسٹ ایڈ باکس موجود نہیں ہوتا اور 40 فیصد جدید بسوں اور کوچز میں فرسٹ ایڈ بالکس کی سہولت ہے تاہم ڈرائیور یا کنڈیکٹر یا ٹکٹ چیکر کو ہنگامی طبی امداد کی فراہمی کی تربیت حاصل نہیں ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم بڑی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے تحت چلنے والی بسوں کے ڈرائیورز اور ٹکٹ چیکر فرسٹ ایڈ کی فراہمی کے حوالے سے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔
بسوں میں فرسٹ ایڈ کی سہولت نہیں ہوتی، ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی
ماہر صحت ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی نے بتایا کہ انٹر سٹی اور بین الصوبائی بسیں ٹرانسپورٹیشن کا اہم ذریعہ ہیں لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ملک کی اہم شاہراہوں اور موٹر ویز پر ہنگامی طبی امداد دینے کے لیے کوئی اسپتال یا ریسکیو ریلیف سینٹر موجود نہیں ہے اور اگر کسی آرام گاہ پر یہ سہولت چھوٹے پیمانے پر موجود ہے تو وہ زیادہ فعال نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی صورت حال بسوں اور کوچز میں بھی ہے کہ بیشتر بسوں اور کوچز میں ہنگامی طبی امداد دینے کے لیے ڈرائیور یا ٹکٹ چیکر میڈیکل ایمرجنسی کی تربیت سے ناواقف ہوتے ہیں اور اگر کسی مسافر کو ہنگامی طبی مسئلہ آجائے تو وہ ازخود کوئی دوا نہیں دے سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان بسوں میں فرسٹ ایڈ کی سہولت نہیں ہوتی اور نہ ہی بلڈ پریشر یا شوگر جانچنے کا آلہ موجود ہوتا ہے۔
ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی نے کہا کہ اگر کسی شاہراہ یا موٹر وے پر کوئی حادثہ ہوجائے یا میڈیکل ایمرجنسی ہو جائے تو پھر ریسکیو ادارے یا موٹر وے پولیس کی مدد لی جاتی ہے اور ان کے تعاون سے مطلوبہ فرد یا افراد کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے قریبی سرکاری اسپتال میں منتقل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے، موٹر ویز اور شاہراہوں پر ہر 50 یا 100 کلو میٹرز پر ریسکیو ریلیف میڈیکل سینٹر ہونا چاہیے اور تمام بسوں کے عملے کو میڈیکل ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے طبی امداد کی فراہمی کی تربیت حاصل کرنے کو لازم قرار دیا جائے جبکہ تمام بسوں میں لازمی فرسٹ ایڈ باکس رکھا جائے۔
پرانی بسوں میں فرسٹ ایڈ باکس کی سہولت نہیں ہوتی ہے، صدر سندھ انٹرسٹی بس اونر ایسوسی ایشن
سندھ انٹر سٹی بس اونرز ایسوسی ایشن کے صدر ملک ریاض اعوان نے بتایا کہ کراچی میں روزانہ 450 سے 500 بسیں ملک کے مختلف اضلاع کے لیے روانہ یا ان اضلاع سے کراچی آتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 80 فیصد جدید بسوں میں فرسٹ ایڈ باکس کی سہولت ہوتی ہے تاہم پرانی بسوں میں یہ سہولت نہیں ہے، اگر کسی مسافر کو دوران سفر کوئی میڈیکل ایمرجنسی ہو تو موٹر وے پولیس کے تعاون سے متعلقہ فرد کو اسپتال منتقل کیا جاتا ہے اور اس کے لیے موٹروے پولیس کی ہیلپ پر مدد لی جاتی ہے۔
موٹر وے پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ تمام موٹرویز اور قومی شاہراہوں پر موٹر وے پولیس پیٹرولنگ کرتی ہے اور موٹر وے پولیس کی ہیلپ لائن 130 ہے، دوران سفر کسی کوچ یا بس میں کسی مسافر کو کوئی میڈیکل ایمرجنسی ہو تو موٹر وے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال موصول ہوتے ہی فوراً ہمارے مطلوبہ مقام پر پہنچ جاتے ہیں اور مسافر کو طبی سہولت کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدام کرتے ہیں۔
تمام بس مالکان کو فرسٹ ایڈ باکس رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ
محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ کے حکام کا کہنا ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ سندھ نے تمام بس مالکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں میں فرسٹ ایڈ باکس رکھیں اور ہنگامی نمبرز آویزاں کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ محکمہ اور ریسکیو اداروں کے ساتھ مل کر بسوں کے عملے کو ہنگامی طبی امداد کی تربیت فراہم کی جائے۔
محکمہ ٹرانسپورٹ کی ٹیمیں مختلف اوقات میں صورت حال کو چیک کرتی ہیں اور اس معاملے میں غفلت برتنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوتی ہے۔