حسینہ واجد کا انجام
حسینہ واجد بنگلہ دیش سے بھاگ کر دہلی تو پہنچ چکی ہیں مگر کیا انھیں سیاسی پناہ مل سکتی ہے؟
بنگلہ دیش میں طلبا نے وہ کام کر دکھایا جو شاید فوج بھی نہ کر پاتی۔ آج بنگلہ دیش بھارتی چنگل سے آزاد ہو چکا ہے اور اسی لیے وہاں کے اخبارات اس تبدیلی کو انقلاب کا نام دے رہے ہیں۔ اگرچہ شیخ مجیب نے پاکستان سے علیحدگی کے وقت بنگلہ دیش کی آزادی کی بات کی تھی مگر اسے لوگ پاکستان سے علیحدگی ہی مانتے ہیں، اس لیے کہ وہ جوکچھ ہوا اس میں مجیب کی سازشیں اور بھارت کی پشت پناہی شامل تھی۔
بنگلہ دیش بن تو گیا مگر بھارت کا اسیر رہا اور اسی کے حکم پر چلتا رہا۔ خاص طور پر شیخ مجیب اور ان کی بیٹی حسینہ واجد نے تو بنگلہ دیش کو بھارت کی 29 ویں ریاست بنا دیا تھا۔ حسینہ واجد کو گزشتہ تین عام انتخابات میں بھارت نے ہی زور زبردستی اور دھاندلی سے کامیاب کرایا تھا۔ ''را'' کا سایہ ہر دم حسینہ واجد کے سر پر رہا۔
حزب اختلاف کی پارٹیاں اگرچہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے میدان میں اتریں مگر وہ انتخابات میں پہلے سے دھاندلی کرا کے حسینہ کو ہر قیمت پر جتوانے کے بھارتی منصوبے سے باخبر ہونے کے بعد انتخابات سے خود ہی دست بردار ہوتی رہیں۔ اس طرح گزشتہ تین عام انتخابات میں حزب اختلاف کی پارٹیوں نے انتخابات سے خود کو دورکر لیا تھا۔
اس سے عوام کے حق رائے دہی پر سراسر ضرب پڑی، وہ حسینہ واجد کے بھارت نواز جمہوریت مخالف رویے کی وجہ سے ان سے بدظن ہوتے گئے۔ حسینہ واجد نے بھارت کے احسانوں کو چکانے کے لیے بنگلہ دیش کی اندرونی اور بیرونی سرکاری پالیسیوں کو اس کی مرضی کے مطابق استوارکیا۔ بھارت کی مرضی کے مطابق پاکستان نواز اور دیگر اسلامی پارٹیوں کو حسینہ نے کرش کیا۔ ان کے رہنماؤں پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے کئی کو 1971 میں پاکستان کا فیور کرنے کی پاداش میں قتل کے جھوٹے مقدمات میں پھانسی دے دی گئی۔
اس طرح بھارت کے اشارے پر بنگلہ دیش کی سرزمین کو پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والوں سے پاک کرنے کیلئے بھرپور مہم چلائی گئی۔ اب 53 برس بعد 5 اگست کو بنگلہ دیش میں طلبا کا انقلاب کامیاب ہو گیا ہے گوکہ حسینہ پولیس اور فوج کو اپنے خلاف صف آرا طلبا اور عوام کیخلاف سخت ایکشن لینے کا حکم دیتی رہیں مگر دونوں نے ہی ان کا حکم ماننے سے انکارکردیا تھا پھر بھی پانچ سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جن کی ذمے دار سراسر حسینہ ہیں، وہ استعفیٰ نہ دینے پر بضد تھیں، اگر مظاہرین کے وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہونے سے صرف ایک گھنٹہ قبل استعفیٰ نہ دیتیں تو یقینا ان کا اور ان کے خاندان کا بھی وہی حشر ہوتا جو 1975 میں ان کے والد، والدہ اور بھائی بہنوں کا ہوا تھا۔
حسینہ واجد بنگلہ دیش سے بھاگ کر دہلی تو پہنچ چکی ہیں مگر کیا انھیں سیاسی پناہ مل سکتی ہے؟ اس سلسلے میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر دو ٹوک کہہ چکے ہیں کہ بھارت حسینہ کا آخری ٹھکانہ نہیں ہے، انھوں نے بھارت میں مختصر قیام کی اجازت مانگی تھی وہ انھیں دے دی گئی۔ حسینہ اب کتنے دن بھارت میں رہیں گی، ظاہر ہے وہ یہاں مستقل قیام نہیں کر سکتیں کیونکہ بھارت بنگلہ دیش کی نئی حکومت سے اپنے تعلقات خراب کرنا نہیں چاہے گا۔
اس سے پتا چلا کہ غیروں سے نمک حلالی کتنی مہنگی پڑتی ہے۔ ظاہر ہے اب بھارتی حکمران آنکھیں بدل چکے ہیں، انھیں جب تک حسینہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا کیا، اب انھیں ان کی کیا ضرورت ہوگی؟ وہ کوئی دلائی لامہ تو ہیں نہیں کہ ان کو بھارت میں رکھ کر مغربی ممالک کی آشیرباد حاصل کی جاتی رہے۔ امریکا سے بھی حسینہ کے خلاف بیان آ چکا ہے۔ حسینہ کی حکومت کے آخری دنوں میں پیش آنے والے خونی واقعات پر متعدد مغربی ممالک نے حسینہ سے وضاحت طلب کی تھی۔
امریکا سمیت تمام مغربی ممالک کو پرامن مظاہرین کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے ذریعے طاقت کے استعمال پر حسینہ سے شدید تحفظات ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی عوام کے خلاف حسینہ کی بربریت کے معاملے کو اٹھایا تھا مگر حسینہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ہر حد پارکرنے کو تیار تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بنگالیوں کو پاکستان کے خلاف بھڑکا کر اور پھر بھارت سے ساز باز کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے والے مجیب کے خاندان کا اب بنگلہ دیش سے صفایا ہوگیا ہے۔
کیا پہلے کوئی ایسا سوچ بھی سکتا تھا؟ حسینہ نے کہا ہے کہ '' وہ اب واپس بنگلہ دیش نہیں جائیں گی۔'' لگتا ہے اب انھیں احساس ہو گیا ہے کہ انھوں نے عوام پر جو مظالم ڈھائے ہیں، وہ ان کی فاش غلطی تھی۔ جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی پارٹیوں پرجو پابندیاں لگائیں ان کے رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور بعض کو پھانسی تک دے دی گئی یہ سب کچھ انھوں نے بھارتی فرمائش پر بنگلہ دیش سے پاکستان کا نام تک لینے والوں کا صفایا کرنے کے لیے کیا، مگرکیا وہاں کے عوام کے دلوں سے وہ پاکستان کی محبت ختم کر سکیں؟ حالات و واقعات سے لگتا ہے اب بنگلہ دیش ضرور پاکستان کے قریب آئے گا اور تمام گلے شکوے دور ہو جائیں گے جو دراصل بھارتی حکمرانوں کے پیدا کردہ تھے۔
طلبا تحریک شروع میں کوٹہ اصلاحات کے مسئلے پر شروع ہوئی تھی، بعد میں عام لوگ بھی حسینہ کے خلاف اس مہم میں شامل ہوگئے تھے۔ اس لیے کہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے جدا کرنے والے مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے لیے ملازمتوں میں بھاری بھرکم کوٹہ مقررکردیا گیا تھا اور یہی نہیں بلکہ ان کی اولادوں کے لیے بھی اسے جاری رکھا گیا تھا۔ یہ کوٹہ برسوں سے جاری تھا جس سے تعلیم سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے میں سخت دشواری تھی۔ طلبا نے پہلے اس زیادتی کو ختم کرنے کے لیے امن و آشتی سے کوشش کی مگر حسینہ نے ان کے مطالبے پر کان نہ دھرے۔
اس طرح طلبا اور ملازمتوں کے متلاشی نوجوانوں میں حسینہ کے خلاف غم و غصہ بڑھا۔ پھر آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی نے عام لوگوں کو حسینہ کے مزید خلاف کیا۔ معیشت کے بارے میں دنیا کو دھوکہ دیا جا رہا تھا کہ وہ بہت بلندی پر ہے جبکہ اصل صورتحال انتہائی تشویش ناک تھی۔ دراصل حسینہ کے دور میں حکومتی وزیروں مشیروں سے لے کر نچلے درجے کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ کرپشن نے ہر ایک کو مالا مال کر دیا۔ وزرا اور مشیروں پر میگا کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ حسینہ واجد کے 15 سالہ دور میں بنگلہ دیش سے تقریباً دس لاکھ کروڑ ٹکے کی اسمگلنگ ہوئی۔
ادھر سیاسی پارٹیوں کو دیوار سے لگا دیا گیا، ان پر مختلف پابندیاں عائد کردی گئیں، ان کے سیکڑوں کارکنوں کو غائب کردیا گیا یا پھر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ حکومت کے خلاف بولنا جرم سمجھا جاتا تھا اور ایسے لوگوں کے عوامی لیگ کے غنڈے گھر تک جلا ڈالتے تھے۔ حسینہ کا بھارت پر انحصار بڑھتا جا رہا تھا، اسے ہر طرح کی سہولت فراہم کی جا رہی تھی حتیٰ کہ حال ہی میں حسینہ نے بھارت کو بنگلہ دیش سے اس کی مشرقی ریاستوں تک راہ داری کی سہولت بھی دے دی تھی جس پر عوام نے سخت احتجاج کیا تھا اس نے ''انڈیا آؤٹ'' تحریک کو مزید تقویت بخشی۔ حسینہ بھارت کو خوش کرنے میں تو لگی رہیں لیکن اپنے عوام کے جذبات کا ذرا خیال نہ کیا اور اسی لیے برسوں سے عوام میں ان کے خلاف پکنے والا لاوا طلبا تحریک کے ذریعے انھیں بہا کر لے گیا اور اب شاید کبھی مجیب کے خاندان کی بنگلہ دیش میں حکمرانی قائم نہ ہو سکے۔