یوم آزادی اور پاکستان کی تنزلی
قائد اعظم نے کہا تھا کہ ’’ میں اپنا کام کرچکا ہوں، قوم کو جس چیزکی ضرورت تھی وہ اسے مل گئی ہے
یوم آزادی منایا گیا، روایتی انداز، تقاریر و شاعری ، ملی نغموں کی گونج اور پھر ایسے ہی شام و سحرگزریں گے۔ جھوٹ ، منافقت، ہوس زر اور طاقت کا کھیل گویا جو ہم ہر سال صرف ایک دن کی آزادی کی خوشی میں پنڈال سجاتے اور پورا دن اکابرین کے کارناموں کو یاد کرتے ہیں اور پھر سورج غروب ہوتے ہی بھول جاتے ہیں، یہ کیسا جشن آزادی ہے؟ جو صرف جشن تک محدود ہے،کسی کو اس بات کا ہرگز احساس نہیں ہے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان وجود میں آیا تھا ، وہ تو فوت ہوگیا اور قوم بھی بکھرگئی، جس کے آباؤ اجداد نے خون کے نذرانے پیش کیے تھے اور مستقبل کے حسین خواب دیکھے تھے، ان کی تعبیر تو بھیانک نکلی، اب کوئی جائے پناہ نہیں جہاں کا رخ کریں، زخمی یادیں اور خیالات کی یلغار جاری تھی۔
فون آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہم حکم حاکم مرگ مفاجات کے تحت آرٹس کونسل کی طرف روانہ ہوگئے، یہاں پر محمود شام کی کتاب میں ''مال گاڑی امانتیں'' کی تقریب اجرا تھی۔ 14اگست کے حوالے سے گفتگو جاری تھی ، صدارت جسٹس (ر) انور ظہیر جمالی کی تھی، اکابرین مجلس آنکھوں دیکھا حال سنا رہے تھے، بلکہ وہ حالات بھی جب انہوں نے قتل و غارت اور مسلمانوں کی شہادت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور جدوجہد آزادی کے لیے کام کیا تھا۔ واپسی تقریبا 11بجے ہوئی گھر میں چھوٹے موٹے کام انجام دینے کے بعد دیکھتے دیکھتے ہی بارہ بج گئے۔
حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس بار چند پٹاخوں کی آوازوں کے علاوہ کوئی اور شور شرابہ سننے کو نہیں ملا، نوجوانوں کا جوش و خروش اور ملی نغموں سے بھی محرومی رہی، جشن آزادی کے نعرے، پھلجڑیوں کا دلکش رقص نہ جانے کہاں کھو گیا جیسے کسی کو آزادی کی کوئی خوشی ہی نہ ہو۔ ایک گہری خاموشی تھی اس کی وجہ پاکستان کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات تھے، بے شمار نوجوان بے روزگار اور ہزاروں بیرون ملک چلے گئے کہ حفاظت اور تحفظ سے محروم کردیے گئے ہیں، ہر روز راہزنی کی وارداتیں ہوتی ہے، چوروں لٹیروں کو تمام آزادیاں ہیں وہ قانون کی گرفت سے آزاد ہیں، لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ کے لیے صرف موت ہے اور عدم تحفظ کا احساس، حق بات کہنے اور آئین کے تحت اپنا حق استعمال کرنے کی آزادی کو چھین لیا گیا اور موجودہ حکومت نے اپنے عوام کو مسائل اور افلاس کے نذر کردیا ہے۔ ان حالات میں بہت سے دانا و بینا یہ بات کہنے کے لیے مجبور ہوگئے ہیں کہ آزادی کی قیمت کتنی بار ادا کرنا پڑے گی؟ آزاد ہوتے ہوئے بھی قیدکی صعوبتیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں، اپنوں کے جنازے اٹھاتے اٹھاتے دل لہو لہو ہوگیا ہے۔
پاکستانی عوام سالہا سال سے ہر روز ایک نیا صدمہ سہتے ہیں، ارباب اختیار دوسرے ملکوں کے دورے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرنے نکل جاتے ہیں۔ اس سفر پرکروڑوں کا خرچہ آتا ہے لیکن انہیں مزدوروں اور متوسط طبقے کی قطعی فکر نہیں، اپنے پاکستانی عوام کی حالت سے بے خبر ہیں اور ان کے حقوق کا خون کر رہے ہیں، یہ ملک قائد اعظم اور مسلمان قوم نے اپنی جان و مال کی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا اور انہیں تو پلیٹ میں رکھا ہوا دلکش اور مضبوط پاکستان مل گیا۔ دشمن اس کی بنیادوں میں دراڑیں ڈال رہے ہیں، پاکستان کے بہت سے اہم ادارے گروی یا پھر فروخت کردیے ہیں، اس طرح معیشت کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔
قائد اعظم نے کہا تھا کہ '' میں اپنا کام کرچکا ہوں، قوم کو جس چیزکی ضرورت تھی وہ اسے مل گئی ہے۔ اب قوم کا یہ کام ہے کہ اسے تعمیرکرے، پاکستان کی تعمیر و تخریب میں بڑے درد ناک موڑ آئے ہیں بہت سے لوگوں نے جانیں گنوائیں اور اب تو تشدد کے نئے نئے طریقے سامنے آگئے ہیں، لوگوں کو ان کے گھروں، راستوں اور محلوں سے اٹھالیا جاتا ہے اور پھر تاوان کی رقم نہ دینے کی وجہ سے اذیت دے دے کر موت کے گھاٹ اتارنا معمول کا کام بن چکا ہے۔ ظلم و جبرکی فضا بہت تیزی سے پروان چڑھی ہے۔ انسانیت اور شرافت کا لبادہ انسان کے دل و دماغ سے اترچکا ہے،کوئی پرسان حال نہیں، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے، علامہ نے کئی عشروں پہلے انسانی کردار کی پستی کی منظر کشی کردی تھی۔
ایسا نہیں نفس کا شیطان مر گیا
شیطان تو ہے زندہ ہاں انسان مرگیا
مسجدوں میں سر جھکانے کی فرصت نہیں رہی
مومن کی روح میں بسا مسلمان مر گیا
مسجد تو پکی بن گئی اور شاندار بھی
کچی ہیں رب سے چاہتیں اور ایمان مرگیا
قائد اعظم محمد علی جناح نے جس دو قومی نظریے کے تحت پاکستان کی بنیاد رکھی تھی اور اس کی تکمیل کے لیے قتل و غارت کا بازار سجا دیا گیا تھا ، اس کی لاج بھی پاکستان کے حکمرانوں نے نہیں رکھی، جب اسلامی قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے تب ہی ایسے حالات جنم لیتے ہیں۔ اسلامی معاشرہ تو غریب و امیرکی تفریق کو مٹا دیتا ہے، حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں کوئی بھوکا اور بھکاری نہیں تھا، زکوۃ لینے والے دور دور تک نظر نہیں آتے تھے، لیکن قائد اعظم کے پاکستان میں زکوۃ وخیرات کی وہ رقم جو اسلامی ملکوں سے آتی ہے وہ بھی مقتدر حضرات کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ گاؤں گوٹھ کے سیلاب متاثرین آج تک پناہ کی تلاش میں ہیں اور غرباء و مساکین خودکشی کو ترجیح دے رہے ہیں، حکومت کو ان کی پرواہ نہیں ہے۔
قائد اعظم نے کہا تھا کہ '' مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کا تعین کرنے والا کون ہوتا ہے، مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔'' ہمارے حکمران اللہ کے احکام اور قائد اعظم ؒ کے اقوال کو فراموش کر بیٹھے ہیں، جس مقصد کے لیے 14اگست کو پاکستان وجود میں آیا تھا، اس کی توکم از کم لاج رکھ لیں،کل انہیں بھی اللہ رب العزت کے آگے جواب دینا ہوگا کہ انہوں نے اپنی حکومت کو کفرکے اصولوں اور قواعد و ضوابط کے مطابق لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے کیوں دور رکھا، بے حیائی اور بے ایمانی کو فروغ دیا گیا اور ایمان کے تقاضوں کے تحت جن اداروں کو مستحکم ہونا تھا، انہی اداروں میں نا انصافی، جھوٹ کو پروان چڑھایا گیا محض اقتدارکو طول دینے کے لیے علم و فہم، دین و دانش سے مالامال حضرات کو جیل میں ڈال کر پاکستان کو کمزور ترین کرنے میں اپنا کردار ادا کیا جا رہا ہے۔
آج پاکستان کی اکثریت سچ بولتے ہوئے خوف محسوس کرتی ہے کہ انہیں بھی حق کی راہ چلنے پر سخت سزا سے دوچار ہونا پڑے گا، حکومتی سطح پر 14اگست کو جشن تو منا لیا جاتا ہے لیکن اس کے استحکام اور رعایا کی خوشی اور خوشحالی کے بارے میں کچھ کام کرنا تو درکنار سوچا بھی نہیں جاتا ہے، بس یوں ہی وقت گزرتا جا رہا ہے، کئی نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں۔ تعلیم و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے تنزلی و نحوست کے گڑھے میں گرتی جارہی ہیں اور پاکستان کی بنیادیں ہلانے کے لیے تخریب کار سرگرم ہیں۔ اہم اداروں کو چاہیے کہ وہ سمجھ داری سے آگے آئیں اور اپنے بڑے ہونے کا ثبوت اس ہی طرح دیں جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کی تربیت کے لیے انا کے خول سے باہر آجاتے ہیں اور ان کی کوتاہیوں کو در گزرکر کے محبت و شفقت کے ساتھ ان کی جائز خواہشات کو تکمیل کے مرحلے میں پہنچانے کے لیے اپنی ذمے داریوں کو نبھاتے ہیں۔