تجربہ کار قیادت کی حکمرانی اورعوامی توقعات
اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اتحادی ہیں
جدیدیت کی بنیاد پر دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو بنیاد بنا کر حکمرانی کے اعلیٰ معیارات کو قائم کرنا ترقی کا پہلا زینہ ہے ۔اسی بنیاد پر ریاست و حکومت اپنی ساکھ کو نظام کی سطح پر قائم کرتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ منطق دی جاتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جو اقتدار کی سیاست کا حصہ رہتی ہیں وہ اپنے تجربوں اور صلاحیت کی بنیاد پرسیکھ کر آگے بڑھتی ہیں وہ کوشش کرتی ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھا جائے تاکہ ریاستی نظام کی سمت درست انداز میں آگے بڑھ سکے ۔سیاسی جماعتیں عوامی محاذ پر یہ ہی دعوی کرتی ہیں کہ ان کے پاس قومی مسائل کا نہ صرف حل ہے بلکہ ان کو عملی طور حکمرانی کے نظام کا وسیع تجربہ بھی ہے ۔ ان کے بقول حکمرانی کے نظا م میں ایسے لوگوں کو لانے سے گریز کرنا چاہیے جو اپنی ناتجربہ کی بنیاد پر ریاستی و حکومتی نظام میں بگاڑ پیدا کریں ۔
پاکستان میںمسلم لیگ ن کا ہمیشہ سے یہ دعوی رہا ہے کہ اسے باقی دیگر سیاسی جماعتوں یا سیاسی مخالفین پر یہ برتری رہی ہے کہ اس کے پاس سیاسی ، سماجی ،معاشی ، قانونی اور خارجہ پالیسی کے تناظر میں ایک مضبوط سیاسی قیادت، سیاسی بصیرت، دور اندیشی ، مسائل کے حل سے جڑا روڈ میپ، عالمی اور علاقائی سطح پر سفارت کاری اور بالخصوص معاشی معاملات کا حل موجود ہے ۔ اسی بنیاد پر وہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے مقابلے میں خود کو ایک برتری کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بارے میں تو مسلم لیگ ن کا ردعمل سخت ہے اوران کے بقول عمران خان کی سیاسی ناتجربہ کاری ، سیاسی پختگی کی کمی اور جذباتیت پر مبنی عمل قومی سیاست کے لیے ایک بڑے خطرے سے کم نہیں ۔مسلم لیگ ن کو حکمرانی کے نظام میں کافی شرکت کا موقع ملا اور دو تہائی اکثریت بھی ان کو تواتر سے ملی ۔اگرچہ ان کی حکمرانی کا نظام بھی سول ملٹری تعلقات کی بنیاد پر سیاسی ہچکولے کھاتا رہا ہے مگر مجموعی طور پر ان کی حکمرانی کا نظام بھی لوگوں کی مشکلات کو کم نہیں کرسکا ۔
اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اتحادی ہیں ۔ ایک مرکز ا ور پنجاب کی سطح پر اور دوسری سندھ اور بلوچستان میں براہ راست حکمران ہے ۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کی حکومت میں اتحادی جماعت ہے ۔ پنجاب ، خیبر پختونخواہ اوربلوچستان میں ان کے صوبائی گورنرزہیں جب کہ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بھی ان ہی کے ہیں ۔دونوں جماعتیںوسیع حکومتی تجربہ رکھتی ہیں اور کئی دہائیوں سے ماضی میں ایک دوسرے کی شدید مخالف یہ جماعتیں اب ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی رومانس کا حصہ ہیں۔18ویں ترمیم کے بعد وفاق کے مقابلے میں صوبائی حکومتوں کو کافی سیاسی ،انتظامی اور مالی خودمختاری بھی حاصل ہے اور تین صوبوں میں براہ راست ان کی حکمرانی کا نظام قائم ہے ۔ مسلم لیگ ن یہ منطق بھی پیش کرتی رہی ہے کہ اس کی قیادت کے عالمی ممالک اور حکمرانوں سے تعلقات بھی مثالی ہیں او راسی بنیاد پر ہم غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں برتری رکھتے ہیں ۔
لیکن آج پاکستان کے جو حالات ہیں اور ہم جہاں سیاسی ، سماجی ،معاشی بنیادوں پر کھڑے ہیں وہاں ان دونوںبڑی جماعتوں کی حکومتیں عوامی مسائل اور مشکلات کو کم کرنے کے بجائے اس میں مزید اضافہ کررہی ہیں ۔مہنگائی ، معاشی بدحالی، اقرباپروری ، اور بدعنوانی کم نہیں ہوسکی ہے۔ مختلف قسم کے طاقت ور مافیاز اسی طرح سرگرم ہیں، جیسے ماضی میں تھے، داخلی و خارجی سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہورہا ، عالمی اور علاقائی تعلقات میں تنہائی موجود ہے ،لوگوں میں مایوسی اور غیر یقینی کی کیفیت ہے۔
ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ، سیکیورٹی کی خراب صورتحال ، ادارہ جاتی سطح پر اصلاحاتی عمل سے گریز ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ، سیاسی عمل کی کمزوری، حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی پیدا کردہ ہے ۔پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کا انداز زیادہ غیر سیاسی ہے اور سیاسی اختلافات یا سیاسی خلیج میں اضافے کی حکمت عملی کو فوقیت دیتے ہیں یا سیاسی مخالفین کی کردار کشی پر مبنی مہم چلاتے ہیں۔
دونوں بڑی جماعتوں کا مجموعی طور پر حکمرانی کا نظام خاندانی نظام میں چلتا ہے اور عملی طور پر یہ جماعتیں سیاسی طور پر نہیں بلکہ خاندانی بنیادوں پر زیادہ آپریٹ کرتی ہیں ۔مسلم لیگ ن کا المیہ یہ بھی ہے کہ اس کی سیاسی طاقت سیاسی جماعت، منتخب عوامی نمایندے نہیں بلکہ یہ بنیادی طور پر بیوروکریسی ، میڈیا ، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سمیت کچھ بڑے کاروباری افراد کو بنیاد بنا کراپنا حکمرانی کا نظام چلاتے ہیں ۔مسلم لیگ ن میں ہمیشہ سے عوامی نمایندے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں بیوروکریسی کو زیادہ فوقیت حاصل ہے۔
خاص طور پر شہباز شریف کا ماڈل عدم مرکزیت اور بیوروکریسی کی مرہون منت ہے ۔اسی طرح ان کی ترقی کا عمل بڑے شہروں میں چند شہروں تک محدود ہے اور دیہی علاقے ان کی ترجیحات میں کم ہیں ۔ان دونوں بڑی جماعتوں کی تجربہ کاری اور صلاحیت کے باوجود ہمیں ملک میںکسی بھی شعبوں میں اصلاحات کے عمل کا فقدان نظر آتا ہے۔پولیس ، عدلیہ ،بیوروکریسی ، ایف بی آر، تعلیم صحت او رمعیشت سمیت سیاسی سطح پر اصلاحات کا عمل کہیں بھی بالادست نہیں ہوسکا۔
البتہ ان دونوں جماعتوں کی حکمرانی کے نظام میں ہمیں چیرٹی اور خیراتی بنیادوں پر منصوبوں کوفوقیت دی جاتی ہے اور لوگوںکو اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے کے بجائے ان کولائن میںلگا کر خیرات دی جاتی ہے ۔ انسانی ترقی کے بجائے محض انتظامی ڈھانچوں پر توجہ دی جاتی ہے اور انسانی ترقی کا عمل بہت پیچھے چلاگیا ہے ۔ اسٹیبلیشمنٹ مخالفت ہونے کا تاثر دینا محض خوشنما نعروںتک محدو د ہے۔طاقت کے مراکز کے ساتھ مل کر اقتدار کے کھیل کو یقینی بنانا اور مخالفین کو گرانے کے کھیل میں ان دونوں جماعتوں اوربالخصوص مسلم لیگ ن اس صف میں سب سے آگے کھڑی نظرآتی ہے ۔
نیا روزگار پیدا کرنا ، نئی چھوٹی اور بڑی صنعتوں کا قیام، مہنگائی کا خاتمہ، لوگوںکی معاشی آمدنی میںاضافہ ، ٹیکسوںکی بھرمار، بجلی ،پٹرول ، گیس سمیت روزمرہ کی اشیا یا ادویات کی قیمتوںمیں بے تحاشہ اضافہ ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ،ریگولیٹری پر مبنی عدم شفافیت کا نظام ،تعلیم اور صحت میں نجکاری کا عمل کہیںبھی حالات بہتری کی طرف نہیں جارہے۔
البتہ ان مشکلات حالات میں جہاں عوام کی حالت کمزورہے وہاں ہمیں ان دونوں جماعتوں کے دور اقتدار میں اشرافیہ کی دولت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہی دو خاندانی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں حکومت میں بھی ہوتے ہیں۔جب دونوں جماعتیں حکمرانی کے نظام کو مارکیٹ اکانومی کی بنیاد پر چلائیں گی تو پھر شہریو ں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
ان ہی جماعتوں میں جمہوری افراد کو دیوار سے لگادیا گیا ہے یا وہ پارٹی میں اپنی اہمیت کھوچکے ہیں یا وہ بھی حالات کی وجہ سے سمجھوتو ں کی سیاست کا شکار ہوگئے ہیں ۔ یہ سوال تو بنتا ہے کہ ہماری دو بڑی سیاسی جماعتوں میں موجود اعلیٰ دماغ یا سیاسی ارسطوراپنی جماعت کے اقتدار کی سیاست میں وہ سب کچھ کیوں نہیں کرسکے جن کا اظہار بڑے بڑے نعروں کی صورت میں کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح وہ روڈ میپ کدھر ہے جو مختلف شعبوں میں مثبت تبدیلی کے لیے بنایا گیا تھا اور کیونکر اسے سیاسی برتری اقتدار کی سیاست میں نہیں مل سکی۔
اس لیے ملک میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو بھی احتساب کے عمل سے گزرنا چاہیے لیکن زیادہ احتساب کا عمل ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے ۔ ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اوران کے ذمے داران سے پوچھا جانا چاہیے کہ آپ کی تجربہ کاری ،صلاحیت اور سمجھ بوجھ سے اس قوم کی حالت کوبدلنے کے تناظر میں کیا ملا اور ان جماعتوں کی ترجیحات میں عوامی مفادات محض لفظوں ، تقریروں اور کتابوں سمیت سیاسی منشور تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔