سسلین مافیا
جب چند لوگوں نے اقتدار پر قبضہ کیا، اس قبضے کے بقا کے لیے پاکستان کی حقیقی تاریخ کو مسخ کیا گیا
اس بات پر اب دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ جس طرح سے ایک عدالتی ججمنٹ میں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو سسلین مافیا قرار دیا گیا تھا،یہ بھی حدود سے تجاوز ہی تھا۔ نواز شریف جو بھی تھے، وہ اس ملک کے وزیراعظم رہے اور پالولر سیاسی رہنما تھے، کیا انھیں سسلین مافیا سے تعبیر کیا جانا چاہیے تھا؟ اب جنرل فیض حمید اور عمران خان کے حوالے سے جو کچھ سامنے آرہا ہے ، اسے کیا نام دیا جانا چاہیے ۔
ساؤتھ ایشیا کی تاریخ کا یہ ایک بہت بڑا اور منفرد چین آف ایونٹس ہے جو جسٹس ثاقب نثار کے چیف جسٹس بننے سے شروع ہوتا ہے اور جسٹس عمر عطا بندیال کے جانے کے بعد بھی بند نہیں ہو پاتا اور یہ کہنا کہ 12-08-2024کو جنرل فیض حمید جوہ اس پورے پروجیکٹ کے سب سے اہم کرتا دھرتا تھے، کیا یہ اس طاقتور اور بااختیار گروہ کا سورج غروب ہونے کا عندیہ تھا؟ نو مئی تک جو ہوا، سو ہوا، اس کے بعد ان لوگوں نے اتنے شواہد چھوڑے ہیں جس سے خود نو مئی کے شواہد ثانوی ٹھہر جاتے ہیں۔ اس پوری روداد پر مجھے فیض کی کہی، ایک سطر یاد آجاتی ہے۔
عشق آباد کے نیلے افق پر
غارت ہوگئی شام
فیض احمد فیض کا جو پس منظر ہوگا وہ ان کا، مگر 12-08-2024 نے وہ لکیر کھینچ لی جس سے ایسے گروہ کی ساری کارروائیوں پر سقوط اب کہ ٹھہرا ۔ کتنے سارے لوگ جڑے تھے اس نیٹ ورک سے، کتنے ساروں کا روزگار لگا تھا، کچھ تو خان صاحب کی محبت میں گرفتار تھے، کچھ پاکستان مخالف بھی اس میں شامل تھے، کچھ یہودی لابی، کچھ مودی اور کچھ کو پاکستان سے ایٹم بم چھیننے کا شوق تھا۔ یہ ایک پوری تحریک تھی انارکی، انتشار اور گھیراؤ چلاؤ کی، یہاں تک کہ افغان طالبان بھی اس سے محبت کرتے تھے۔
یہ حادثہ جو ہوا یا ہے اس نے اچانک جنم نہیں لیا، دہائیوں نے پرورش کی ہے اس کی۔ اس کی بنیاد پڑی تھی قرارداد مقاصد 1949 سے، جب ہم نے جمہوریت پر نظریاتی قفل لگا دیے۔ جب ہم نے آئین دینے سے انکار کیا۔ جب ہم نے 11 اگست کی جناح کی تقریر ریڈیو پاکستان سے غائب کر دی۔
جب چند لوگوں نے اقتدار پر قبضہ کیا، اس قبضے کے بقا کے لیے پاکستان کی حقیقی تاریخ کو مسخ کیا گیا، اس اقتدار کے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا، یوں لگتا تھا کہ مذہب اور جمہوریت کا آپس میں کوئی تصادم ہے۔ اس موجودہ پروجیکٹ کے پیرو مرشد تھے جنرل ضیا الحق۔ لیکن اس کے بانی ایوب خان اور ان کے حواری ایک دو فوجی اور سول افسر تھے۔ یہ سب باتیں ہمیں تاریخ کی درستگی کے لیے کھل کے کہنی چاہیے۔
پاکستان کی تاریخ 04-04-1979کو ایک ایسے موڑ پے کھڑی ہوگئی جس میں قبر ایک تھی اور بندے دو تھے ایک تھا آمر، آمریت کا علمبردار جنرل ضیا الحق اور دوسرا تھا پاکستان کے عوام کا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو۔ لیکن اس کا سارا سہرا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاتا ہے جس نے بھٹو کو انصاف دینے کی کوشش کی، وہ سچی نیت رکھتے تھے، ورنہ یہ ریفرنس 2011 میں جسٹس افتخار چوہدری کے زمانے میں صدر پاکستان آصف زرداری نے آرٹیکل186کے ذریعے بھیجا تھا، اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہ ہوتے تو یہ ریفرنس ابھی تک التواء میں ہوتا۔ چار اپریل 1979 ہو یا پانچ جولائی 1977پاکستان کے لیے انتہائی بدبخت دن گزرے۔ چھوٹا موٹا ہی سہی ان دنوں کے تناظر میں تیسرا بڑا بد بخت دن تھا جب اقامہ کا فیصلہ آیا۔ اس دن سپریم کورٹ کے چند ججوں نے سازش کر کے جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔
کچھ اس طرح سے یہ چھرے گھونپے گئے کہ عوام کہ یہ احساس نہ ہوا کہ کب شام ہوئی اور کب صبح، کون آیا اور کون گیا۔ اشرافیہ تھی کہ جو اقتدار کو لگ جائے اس کے پیچھے لگ جاتی تھے، مال بنانے کے لیے۔ یوں کہیے کہ سیدھے راستے سے آگے نکلنے کے سب راستے مقفل ہوئے۔ چور بازاری عام ہوئی کیونکہ جمہوریت تو اس ملک میں آنی نہیں تھی سب نے چاہا جنرلوں، ججز اور بیوروکریٹس سے دعا سلام بڑھائی جائے۔ پھر اس میں سب آگئے اور اتنی ساری بھیڑ ہوئی کہ سب نے اس کلب کو جوائن کیا جس کو عمران پروجیکٹ کہا جاتا ہے۔
اب اس طرح بھی نہیں کہ سارا ملبہ ان پر پھینکا جائے، خود ذوالفقار علی بھٹو ہو یا نواز شریف سب آمریت کی بیساکھیوں پر اقتدار میں آئے۔ پھر انھوں نے یہ سچ ہے کہ بیساکھیاں توڑ دیں اور جب عوام سے ناتا جوڑا تو جو ان کا حشر ہوا وہ بھی آپ نے دیکھا۔
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سر بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرگوشہ منبر
کڑکے ہیں بہت اہل حکم برسر دربار
(فیض احمد فیض)
اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں قصور ہم سب کا ہے، جنھوں نے عوام کے حق حکومت کی پاسداری نہیں کی۔ نظریہ ضرورت ایک شکل تھی جو کمزور سماج میں جنم لیتی ہے۔ خود شب خون وہ شب خون جو کامیاب ہو وہ نہیں جو نو مئی کی طرح ناکام ہو۔ وہ ناکام ہو اس لیے کہ لوگ اب پاسداری کرسکتے تھے، اب کے زمانہ بدل گیا ہے، اب آمریت لانا ناممکن ہے، اب یہ وقت ہے اعتراف کا۔ جب تک اعتراف نہ ہوگا ہم اس بھنور سے نہیں نکل سکتے۔ یہ کہنا کہ یہ ملک اس وقت آئین پر چل رہا ہے سرا سر غلط ہوگا۔
ہمیں آئین کی طرف لوٹنا ہوگا اس سارے تناظر میں آئین سپریم نہیں ہے، پارلیمنٹ سپریم ہے جب تک آئین مضبوطی سے اپنی جڑیں نہیں بناتا تب تک اگر ہم یہ کہیں کہ آئین سپریم ہے تو آئین کی تشریح کون کرے گا؟ کیا چیف جسٹس ثاقب نثار کریں گے، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کریں گے؟ جسٹس عمر عطا بندیال کریں گے؟ تشریح کرنے کے لیے ہمیں جج چاہیے جسٹس دراب پٹیل جیسے اور اگر کسی کو گمان ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکڑ لے لی ہے، وہ اس غلط فہمی سے نکل آئیں۔ عمران خان کو صرف اقتدار چاہیے، وہ کسی جنرل کی مدد سے ملے، ججز کی مدد سے ملے ،لوگوں کی مدد سے ملے یا کسی بیرونی آقا کی مدد سے ملے۔ جمہوریت پسند لوگ اسمبلی کو نہیں توڑا کرتے، جمہوریت پسند لوگ عدم اعتماد کو غیرآئینی طریقے سے ختم نہیں کرتے۔
اس پروجیکٹ کی جو سب سے کامیاب چیز تھی وہ تھی عام لوگوں کی ذہن سازی کرنا، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنا اور بلآخر وہ ایک بند گلی میں پھنس گئے۔ ہم ایک ایسی انتہا تک پہنچ گئے کہ یا سچ نے اپنی جگہ بنانی تھی یا جھوٹ نے۔جمہوری قوتوں نے آگے جانا تھا یا ان قوتوں نے آگے جانا تھا جس سے خود پاکستان اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا تھا، جو عمران خان نے مسلسل اقتدار گنوانے کے بعد ایک خانہ جنگی قائم رکھی ہوئی تھی، اس سے سول حکمرانی بہت کمزور ہوئی۔
اتنی جنگ تیزکر دی، پارلیمنٹ کے خلاف کہ خود شہباز شریف، آصف زرداری یا پی ڈی ایم حکومت بہت کمزور نظر آنے لگی اور یوں لگا کہ مقابلہ پی ٹی آئی بہ مقابلہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمزور نظر آنے لگے۔ کوئی بھی ذمے دار سیاستدان اس طرح کی حرکت نہیں کرسکتا جو عمران خان نے خود کی۔ جس سے سول حکمرانی کمزور ہوئی اور اسٹیبلشمنٹ مضبوط۔
بے نظیر، نواز شریف نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ نہ نواز شریف نے ایسی حرکت کی کہ جس سے سول حکمرانی کمزور ہو اور نہ بے نظیر بھٹو نے ایسی حرکت کی جس سے سول حکمرانی کمزور ہو اور اگر تھوڑی بہت غیر ذمے داری کی بھی تو چارٹرڈ آف ڈیموکریسی سے ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوگئے جس کا مقصد تھا کہ ہم آپس میں کتنے بھی اختلاف رکھیں، سول حکمرانی کے اصول سے باہر نہیں جائیں گے اور اس مرتبہ مجھے یقین ہے دہائیوں کے بعد بڑی ذمے دار فوجی قیادت سامنے آئی ہے جو چاہے تو سول حکمرانی کو کمزور کر بھی سکتی ہے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا لیکن یہ وقت ہے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کا۔
یہ وقت ہے سول حکمرانی کو مضبوط کرنے کا۔ جو بھی عوام کا فیصلہ ہو اسے سرخم تسلیم کرنا ہوگا۔ یہ ملک اور کوئی بھی ملک ایک نظریے پر نہیں چل سکتا، یہ غیر فطری سوچ ہے۔ کئی طرح کی سوچیں ہوتی ہیں۔ مذاہب ہوتے ہیں، کلچر ہوتے ہیں، زبانیں ہوتی ہیں، تاریخ ہوتی ہے، یہ سب آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت برابر کے شہری ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو آزادی ہے بولنے کی، ووٹ دینے کی، اپنے مذہب پر چلنے کی، اپنی ثقافت پر چلنے کی۔ ہم ایک نئے موڑ پر آگئے جہاں سے نئی صبح نظر آتی ہے مگر کہیں نہ کہیں داغ اس سحر پے لگے ہوتے ہیں۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں