خوابوں کا شہر ویانا
آسٹریا نے گزشتہ دو سو سالوں کے درمیاں تاریخ کے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے
میں ان دنوں مشرقی یورپ کے مطالعاتی دورے پر ہوں۔اس ہفتے مشرقی یورپ کے ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا اور کچھ دوسرے علاقوں میں جانے کا موقعہ ملا۔ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا جانے کے لیے ہم نے ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ سے انٹرنیشنل ریلوے کے ذریعے سفر کیا۔ پڈاپسٹ سے ویانا تک 300کلو میٹر مسافت یہ تیز رفتار ٹرین اڑھائی گھنٹے میں طے کرتی ہے۔ ایک فرد کا دو طرفہ کرایہ صرف 38یورو ہے جو پاکستانی روپے میں تقریباً4400روپے بنتا ہے۔سیاحت کے لیے دو افراد کے لیے متوسط رہائش چھ سے سات ہزار پاکستانی روپے فی کمرہ ہے۔ پورے شہر میں میٹرو ریل، بس اور ٹرام پر ایک ہی ٹکٹ یا پاس استعمال ہوتا ہے۔ جس کی یومیہ لاگت چھ ہزار پاکستانی روپے ہے۔ویانا کے میوزیم، محلات اور پارک سیاحوں کے لیے خصوصی دلچسپی کے حامل ہیں۔
ویانا آسٹریا کا دارالحکومت اور ملک کی 9 ریاستوں میں سے ایک ہے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی اٹھارہ لاکھ ہے اور یہاں کا سماجی،سیاسی اور اقتصادی مرکز ہے۔ یورپی یونین کے ممالک میں یہ آٹھواں بڑا شہر ہے۔پہلی جنگ عظیم سے قبل ہنگری اور آسٹریا ایک ہی مملکت شمارکیے جاتے تھے۔برلن کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ جرمن زبان یہاں بولی جاتی ہے۔
آسٹریا نے گزشتہ دو سو سالوں کے درمیاں تاریخ کے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔گزشتہ صدی کے دوران اسے دو عالمی جنگوں(پہلی اور دوسری جنگ عظیم) کا سامنا بھی رہا۔یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس پر بیک وقت امریکا،برطانیہ، سوویت یونین اور فرانس کا قبضہ رہا۔جمہوریہ آسٹریا برِ اعظم یورپ کے وسط میں واقع خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے۔
اس کی کل آبادی تقریباً87لاکھ ہے۔ آسٹریاکے شمال میں جرمنی اورجمہوریہ چیک ، مشرق میں سلواکیا اور ہنگری، جنوب میں سلوانیا اور اٹلی جب کہ مغرب میں سوئٹزرلینڈ واقع ہے۔ آبادی کی اکثریت جرمن زبان بولتی ہے اور اسے ملک کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ دیگر مقامی زبانوں میں کروشین، ہنگری اور سلوین ہیں۔آسٹریا کو فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کا 12واں امیر ترین ملک مانا جاتا ہے۔ یہاں معیارِ زندگی بہت بلند ہے۔ آسٹریا 1955 سے اقوامِ متحدہ کا رکن ہے۔
1995 میں یہ یورپی یونین کا رکن بنا۔ عالمی منظر نامے میں ویانا کا تذکرہ ہمہ وقت رہتا ہے۔ یہ شہر دنیا بھر کا مقبول ترین کانفرنس سینٹر بھی ہے۔ اقوام متحدہ اور اوپیک تنظیم کے اہم دفاتر بھی یہاں ہیں۔ یہاں کی ثقافتی اہمیت کی بناء پر ویانا کو2001میں اقوام متحدہ نے عالمی وراثت قرار دیا ہے۔اس خوبصورت شہر کی عمارتوں اور ٹرانسپورٹ کا نظام مثالی اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اس شہر کو خوابوں اور میوزک کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ آسٹریا کے زیادہ تر حصے کا موسم سرد رہتا ہے اور اس پر مغربی مرطوب ہواؤں کا اثر رہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ساٹھ سے ستر لاکھ سیاح سالانہ ویانا آتے ہیں۔ اس شہر کو دنیا کا اسمارٹ ترین شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے میوزیم اور Operasکو دیکھے بغیر اس شہر کو سمجھنا مشکل ہے۔شہر میں چودہ یونیورسٹیاں اور درجنوں پارک ہیں۔ رہائش،خوراک اور سیاحت کے اعتبار سے یہ شہر قطعی طور پر مہنگا نہیں۔ایک مناسب بجٹ میں اس شہر کی پر لطف سیاحت کی جا سکتی ہے۔
دنیا کے پہلے ماہر نفسیات Sigmund Freud بھی اسی شہر سے تھا۔ یہ شہر دریائے ڈینیوب کے کنارے آباد ہے۔ رومن دور میںبھی اس شہر کو ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔20ویں صدی کے آغاز میں یہ آسٹرو، ہنگرین سلطنت کا دارالحکومت تھا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد ویانا جرمنی اور آسٹرین ری پبلک کا دارالحکومت بھی رہا۔1919 میں یہ شہر آزاد ملک آسٹریا کا دارالحکومت قرار پایا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران 1945میں سوویت یونین نے ویانا پر حملہ کر کے شہر کا محاصرہ لر لیا۔ سوویت قبضہ چھڑانے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے یہاں ہوائی حملے کیے جن سے بڑی تبائی ہوئی۔ گیارہ روزہ جنگ کے بعد بھی سوویت قبضہ قائم رہا۔ آسٹریا کو جرمنی سے الگ کر کے ری پبلک کا درجہ دیا گیا۔ آسٹریا1955تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔
دنیا کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ آسٹریا بیک وقت چار ممالک کے قبضے میں رہا۔ویانا شہر اور آسٹریا کے مختلف حصوں پر سوویت یونین، امریکا، برطانیہ اور فرانس قابض رہے۔اسی بناء پر Four soldiers in a jeep کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ بالآخر1955 میں ایک معاہدے کے تحت آسٹریا کو آزادجمہوریہ قرار دیا گیا۔