مون سون اور حفاظتی اقدامات

یہی وجہ ہے کہ حکمران اور دانشور قدرتی آفات کو عذاب الہی قرار دے کر تمام گناہ غریبوں پر ڈال دیتے ہیں


Editorial August 19, 2024
(فوٹو: فائل)

ملک بھر میں جاری شدید بارشوں کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہے، چھتیں گرنے اور ڈوبنے کے باعث دو خواتین سمیت آٹھ افراد جاں بحق جب کہ متعدد زخمی ہوگئے۔ جنوبی پنجاب میں سیلاب کے خطرات کے پیش نظر آبادی کا انخلاء وسیع پیمانے پر ہوسکتا ہے، دوسری جانب بھارت کی آبی دہشت گردی جاری ہے، بھارت نے خبردار کیے بغیر دریائے راوی اور دریائے چناب کے اسپل اوورز کھول دیے، بھارت کی جانب سے دریائے چناب میں پانی چھوڑے جانے پر پانی کی سطح دو لاکھ کیوسک سے بڑھ کر دو لاکھ پچاس ہزار ہوگئی ہے۔

گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر اور خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں اور اب ایک مرتبہ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بارشوں اور بڑے پیمانے پر سیلاب کے خطرات کو محسوس کیا جا رہا ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممکنہ حالات سے بچاؤ کے لیے حکومت نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے؟ موسمیاتی تبدیلی کا کسی بھی ملک کی معیشت پر براہ راست اثر ہوتا ہے 2022 میں ہمیں جی ڈی پی کے 10 فیصد کا نقصان پہنچا تھا اور30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا جب کہ 2010 کے سیلاب سے 10 ارب ڈالر کے نقصانات ہوئے تھے۔

درحقیقت معیشت کو نقصان مختلف سیکٹرز میں ہوتا ہے، جن میں فصل کو نقصان سمیت فوڈ سیکیورٹی کا خدشہ پیدا ہونا شامل ہیں۔ سڑکیں، مکانات اور دیگر انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کا اثر معیشت پر ہوتا ہے۔2010 کے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی 10 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہوئی تھی یعنی 48 فیصد سے بڑھ کر 58 فیصد آبادی کو فوڈ ان سیکیورٹی کا مسئلہ پیش ہو گیا۔ بارشوں سے فصلوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور جب فصل میں کمی آجاتی ہے تو اس سے پروڈکشن کم ہو کر ملکی معیشت کو اثر انداز کرتی ہے اور اسی کا اثر فوڈ سیکیورٹی پر بھی پڑتا ہے۔

اسی طرح حالیہ مہینوں میں بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جب کہ عوام کے لیے بجلی کے بلوں کی ادائیگی ممکن نہیں رہی تھی، ان ہی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صوبے کے بجٹ سے پینتالیس ارب ادا کرتے ہوئے دو سو سے پانچ سو یونٹ بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کو دوماہ کے لیے چودہ روپے فی یونٹ کا ریلیف فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ ان کا انتہائی مستحسن اقدام ہے، جس کی پیروی ہماری تمام صوبائی حکومتوں کو کرنی چاہیے، بالخصوص صوبہ خیبرپختون خوا کو جو بجلی کی پیداوارکی مد میں وفاق سے بڑی سبسڈی باقاعدگی سے وصول کرتا ہے، اسے اپنے صوبے کے عوام کو بھی ریلیف فراہم کرنا چاہیے، اسی طرح صوبہ سندھ کی خوشحال حکومت کو بھی بجلی کے بلوں میں کمی کرنی چاہیے تاکہ کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے۔

اس کی صنعتیں اور عوام ملکی کی معاشی واقتصادی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ ہر سیلاب کے بعد دیہی علاقوں میں متاثرین کو مالی امداد دے کر اپنی ذمے داری سے دامن چھڑانے کے بجائے حکومتی سطح پر رسک ٹرانسفر اور انشورنس اسکیموں پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ پالیسی شہری علاقوں میں غیر رسمی بستیوں اورکچی آبادیوں کے لیے بھی اپنائی جا سکتی ہے۔ محکمہ موسمیات مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی واضح پیش گوئی اور ہدایات دیتا رہتا ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درجنوں محکموں کے ہزاروں ملازمین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہر سال جب مون سون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو صوبہ خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع بالخصوص پشاور، چارسدہ، مردان، نوشہرہ کے عوام میں تشویش و خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے کیونکہ پانی کا ریلا جب بے قابو ہو کر بپھرے ہوئے انداز میں ان علاقوں میں داخل ہوتا ہے تو سامنے آنے والی ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہیے کہ تباہی پھیلنے کے بعد ہی حکومت حرکت میں آتی ہے۔ جب غریب و لاچار عوام کا سب کچھ لُٹ چکا ہوتا ہے۔

پون صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ہماری کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں کی کہ یہ جو ہر سال موسم برسات میں خستہ مکان ڈھے جاتے ہیں اور شکستہ چھتیں گر پڑتی ہیں، جن سے قیمتی انسانی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں پھر اس کے علاوہ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں اور شہروں میں نظام زندگی ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے اس کا کوئی مستقل اور پائیدار حل تلاش کیا جائے۔ مون سون سیزن میں ذرا سی بارش کی وجہ سے کوئٹہ شہر میں سیوریج کا نظام درہم برہم ہونا اٹل ہے۔ جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پشین، بولان اور دکی میں سیلابی ریلے گھروں کو بھی بہا کر لے جاتے ہیں۔

بلوچستان میں کئی دیہات ایسے ہیں جہاں خواتین بچے اپنے قیمتی اثاثے اور مال و متاع چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں جانیں بچانے کے لیے شہر کی سڑکوں پر پیدل، گاڑیوں، رکشوں، ریڑھیوں پر دیوانہ وار محفوظ مقامات کی جانب بھاگ رہے ہوتے ہیں گزشتہ سالوں کے دوران متعدد حفاظتی بند ٹوٹنے سے پرانے تاریخی، ثقافتی، سماجی، بلوچی اقدار کے حامل کئی علاقوں کا اکیسویں صدی میں بھی صفحہ ہستی سے مٹ جانا ایِک سوالیہ نشان ہے۔ پتہ نہیں اس معاملے میں انکوائری تاخیر کا شکار کیوں ہوتی ہے؟ دوسری جانب سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کے اخراج کے متعلق بھارت اطلاعات شیئر کرنے کا پابند ہے مگر بسا اوقات کشیدہ تعلقات کی وجہ سے انڈیا کسی بھی قسم کی تفصیلات کا تبادلہ نہیں کرتا۔ جس کے باعث پنجاب کے مشرقی دریاؤں ستلج اور راوی میں طغیانی اور سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبھی واقف ہیں۔ پاکستان میںدنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر بھی موجود ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ قدرتی آفات کی صورت میں آنے والا دباؤ اور اس مشکل سے نبٹنے کے طریقہ اور نظریے کی نشان دہی کرتا ہے آفات کا کنٹرولنگ سسٹم طبقہ اشرافیہ تک محدود ہے یا تمام لوگوں کی حفاظت کا یکساں نظام ہے، اگر وہ نظام ایک مخصوص طبقے کو فائدہ دے رہا ہے تو یہ کمزور دفاعی صلاحیت کا اظہار ہے جس کے نتیجے میں کمزور طبقہ ہمیشہ غربت، بیروزگاری، جرائم اور قدرتی آفات کا شکار رہتے ہیں جس کے سبب انفرادی، اجتماعی، قومی ساکھ کمزور ہوتی ہے جو انسانی مثبت رویوں کو پست کردیتے ہیں، یوں آفات کی صورت میں آنے والا دباؤ انفرادی، اجتماعی دفاعی صلاحیت کمزور ہونے کے سبب مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حکمران اور دانشور قدرتی آفات کو عذاب الہی قرار دے کر تمام گناہ غریبوں پر ڈال دیتے ہیں، جس سے وہ اپنی نااہلی اور ملکی وسائل پر اجتماعی حقوق سے گمراہ کردیتے ہیں، یوں ایک غلط نظریے پر قائم نظام کو تحفظ مل جاتا ہے۔ قدرتی آفات کو ٹالا تو نہیں جا سکتا لیکن بہترین حکمتِ عملی تمام اسٹیک ہولڈرز کی باہمی ذہنی ہم آہنگی اور عوام میں شعوری آگاہی کے ذریعے ان آفات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی شدت کو ممکنہ حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ یہ اقدام اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہماری معیشت پہلے ہی بہت کمزور بنیادوں پر استوار ہے ایسے میں پاکستان ترقیاتی منصوبوں میں کمی کرکے یا عالمی برادری سے قرض اور امداد لے کر نقد رقوم کی تقسیم کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں عوام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لاپرواہی کے نتائج گزشتہ سالوں میں آنے والے سیلاب کے دوران قوم بھگت چکی ہے، جب کہ اگر پاک فوج، رفاہی اداروں اور علاقائی رضا کاروں کی طرح حکومتی ادارے اور متعلقہ حکام بھی عوام کے تحفظ کی خاطر مکمل سنجیدگی، دلچسپی، خلوص اور احساس ذمے داری سے کام لیں تو یقینا ممکنہ سیلاب کے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ برسات کے جملہ نقصانات سے بچاؤ کے بہت سے موثر طریقے ہیں۔ مثلا سب سے پہلے یہ کہ تمام دریاؤں کی گہرائی میں اضافہ کیا جائے۔ اس وقت دریائے راوی کی حالت یہ ہے کہ اگر برساتی پانی کے ساتھ لاکھ دو لاکھ کیوسک پانی بھارت چھوڑ دے تو دریائے راوی سے متصل تمام دیہی علاقے زیر آب آ جائیں گے اور لوگ جان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

اگر اس کو انتہائی گہرا کر دیا جائے تو پھر بھارت کی طرف سے آنے والا پانی ہمارے لیے تحفہ ایزدی ہو جائے جس سے ہم اپنی فصلوں کی آبیاری کر سکیں گے اور سیلاب کے خطرات سے بھی ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں گے۔ دوسرا کام شہروں کے لیے ہے کہ سیوریج سسٹم کو جدید خطوط پر تعمیر کیا جائے۔جاپان کا سیوریج سسٹم دنیا کا جدید ترین سسٹم ہے۔ کسی بھی جاپانی فرم کے ساتھ سیوریج سسٹم کو ''اپ ڈیٹ'' کرنے کے لیے معاہدہ کر کے ملک کے تمام بڑے شہروں کو برسات کے عذاب سے بچایا جا سکتا ہے، جس سے ہمیشہ کا آرام اور سکھ جو عوام کو نصیب ہو گا تو وہ حکمرانوں کو دعائیں دیں گے۔

پالیسی سازوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درپیش خطرات بنیادی طور پر مقامی مسئلہ ہیں۔ اس لیے ان کا حل فعال مقامی حکومتوں اور مقامی اداروں کے بغیر ممکن نہیں ہے، اگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مقامی حکومتیں فعال ہوں تو نہ صرف سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو محدود کیا جاسکتا تھا بلکہ ریلیف کی سرگرمیاں شروع کرنے میں ہونے والی غیر ضروری تاخیر سے بھی بچا جا سکتا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں