موت تو محلات میں بھی آ کر رہے گی
فوج اور قوم رزم میں… حکمراں اور سیاست داں بزم میں…فو ج اور قوم کو گزشتہ ایک ماہ سے وقت کے سب سے بڑے’’جہاد‘‘ کاسامناہے
فوج اور قوم رزم میں ... حکمراں اور سیاست داں بزم میں...فو ج اور قوم کو گزشتہ ایک ماہ سے وقت کے سب سے بڑے ''جہاد'' کا سامنا ہے جب کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو فساد سے فرصت نہیں...پولیس جس کی اصل ذمے داری دہشت گردوں کو شہروں اور بستیوں میں داخل ہونے سے روکنا ہے اُسے سیاسی مخالفین کے قتل عام اور طیارے سے آنے والے ایک سرکاری نا پسندیدہ شخصیت کو روکنے پر لگا دیا جاتا ہے...
ایک رانا ہٹائے اور دوسرے رانا لگائے لیے ہیں... گویا پنجاب کے عوام بے چارے ہمیشہ "دو رانوں" کے درمیان رہیں گے...ملک مسلسل جاری بحران سے گزرتے ہوئے جنگ کا میدان بنتا جا رہا ہے مگر کوئی ایک صفحے پر نہیں آ رہا ہے ...بے شک وزیر اطلاعات پرویز رشید جنھیں صحافی پیار سے ''پریس ریلیز'' کہتے ہیں، کافی دنوں سے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ شمالی وزیر ستان میں آپریشن ضرب عضب کے معاملے میں حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں مگر وہ صفحہ کون سا ہے اور کہاں ہے؟
یہ بتانے اور دکھانے کو ان کے پاس کچھ نہیں... ''پاکستان'' نامی کتاب کا ٹائٹل سے آخری صفحے تک مطالعہ کر ڈالیے ہر صفحہ پر پاک فوج کے افسروں و جوانوں اور 50 ہزار معصوم و بے گناہ شہداء کے خون میں ڈوبی ہوئی تصویر وں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ... مذاکرات کے نام پر کئی ماہ کی ''مذاق راتیں'' گزار کر بھی جب حکمران خواب ِ خرگوش سے بیدار نہ ہوئے تو تنگ آمد بجنگ آمد، فوج نے اپنا وہ قومی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کا حلف وردی پہنتے ہوئے ہر سپاہی اور افسر اٹھاتا اور آئینی اور اخلاقی طور پر اس کا پا بند ہوتا ہے کہ وہ وطن عزیز کے دفاع میں آخری سانس تک لڑے گا، اور کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لائے گا۔
نشانِ حیدر اور شہداء کے خاندان کے وارث جنرل راحیل شریف نے بھی اس حلف کی پاسداری کرتے ہوئے داخلی دشمنوں کو جڑوں سے اکھاڑ ہ پھینکنے کا اعلان ''آپریشن ضربِ عضب'' کی صورت میں کیا تو اقتدار کی غلام گر دشوں میں بیٹھے سارے حکم کے غلام یکدم گردش میں آ گئے... اُنہیں اور ان کے پروردہ دہشت گردوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اب کے ستارے گردش میں ہیں... ''بس بہت ہو گیا'' کے لفظ کے ساتھ جب جرنیل نے کور اور فارمیشن کمانڈروں کا اجلاس ختم کیا تو رائے ونڈ محل میں ''رائے'' دینے والے بھی ایک ایک کر کے کھسکنے لگے ... نثار و جاں نثار مشت ِ غبار بن کر اُ ڑ اور اَڑ گئے... کچھ کاسہ لیس بھی اکڑ گئے ... جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے... عسکری قیادت کو سیاسی قیادت پر روز اول سے بھروسہ نہیں تھا۔
چناچہ تلوار عضب سونتتے ہوئے اُس نے تمام ذمے داری اپنے کاندھوں پر لے لی ... تیز تر کارروائی میں افسروں اور جوانوں کی شہادتیں بھی ہو رہی ہیں لیکن یہ امر یقینی ہے کہ پاک فوج شمالی وزیر ستان کو ریاست کی رٹ میں واپس لے آئے گی یہ محض وقت کی بات ہے ... اب جب کہ فوج اور قوم ایک کھلی جنگ سے دوچار ہیں یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ وفاقی حکومت اور نہ ہی خیبر پختون خوا کی حکومت فوج اور قوم کے ساتھ نہیں...اگرچہ گزشتہ تین ہفتوں سے وفاقی حکومت یہ ظاہر کر رہی ہے کہ وہ ضرب عضب کے حق میں ہے لیکن اس کا عملی مظاہرہ نہیں کیا ...
کے پی کے حکومت کا طرز عمل بھی کچھ مختلف نہیں اُس نے بھی زبانی طور پر ہی ضرب عضب کی حمایت کی ہے... اپنی روح کے مطابق ضرب عضب دہشت گروں کے خلاف تین مراحل کا آپریشن ہے جو علاقے کو صاف کرنے، قدم جمانے اور تعمیر نو کرنے پر مشتمل ہے۔ صفائی کے مرحلے کے بھی تین ذیلی مراحل ہیں۔ دہشت گردوں کو تتر بتر کرو، جڑ سے اکھاڑو اور شکست فاش دے دو... صفائی کا مرحلہ پاک فوج کی 11 ویں کور کی ذمے داری ہے آئندہ مرحلہ قدم جمانے سے متعلق ہے یہاں سیاسی حکمرانی کا دخل آ جاتا ہے جس میں قانون کے نفاذ کے حوالے سے اصلاحات اور سو یلین انٹیلی جنس صلاحیت کو تقویت دینے کی بات آتی ہے...
تعمیر نو کے حوالے سے تیسرے مرحلے میں سیاسی کرداروں کی صلاحیتوں میں اضافے کی بات اہم ہے جس میں نجی ملیشیاز کی تحلیل اور انھیں قومی دھارے میں لانا، تعلیمی، عدالتی اور طرز حکمرانی میں اصلاحات شامل ہیں ... اب تک 6 لاکھ سے زائد افراد جنگ زدہ علاقے سے نقل مکانی کر کے امدادی کیمپوں میں رجسٹرڈ ہو چکے ہیں انھیں ٹرانسپورٹ، خوراک، پناہ اور طبی سہولتیں فراہم کرنا سویلین حکومتوں کی ذمے داری ہے ... نظریاتی اور عملی طور پر دیکھا جائے تو 33 فیصد ضرب عضب پا ک فو ج اور 67 فیصد وفاقی اور کے پی کے حکومتوں کی ذمے داری ہے مگر حالات صاف بتا رہے ہیں کہ یہ سو فیصد بوجھ پاک فوج پر آ گیا ہے، فوج چاہے نہ چاہے ذمے داری ہو نہ ہو اسے یہ سو فیصد بوجھ خود ہی اٹھانا ہے اور عسکری قیادت اِس کے لیے تیار بھی ہے۔
سیاست دانوں اور حکمرانوں کا تذبذب غزوۂ تبوک کی یاد دلا رہا ہے۔ تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے، مسلمانوں کو رومیوں سے بڑی جنگ درپیش تھی۔ رسول اللہ ﷺ جہاد کا اعلان کر چکے تھے مگر منافقین مدینہ رئیس المنافقین عبداللہ ابن ِ اُبی کے اشارے پر اپنے محلات اور باغات میں دبکے بیٹھے تھے ... وہ طرح طرح کے بہانوں سے جہاد کی رخصت مانگ رہے تھے... اُن کا خیال تھا کہ اگر مسلمان کامیاب لوٹے تو ہم اُن کے ساتھ شامل ہو جائیں گے، ورنہ مدینہ کی حکومت تو ہاتھ آ ہی جائے گی... دوسری جانب قرآن مسلمانوں کو اِس حقیقت سے آگاہ کر رہا تھا کہ اِن (منافقین ) کا تمہارے ساتھ نہ جانا ہی بہتر ہے ورنہ یہ دوران جہاد اور راہ جہاد میں ابتری اور بددلی پھیلا کر نفاق ڈالتے... ''موت تو انھیں آنی ہے وہ محلات میں بھی آ کر رہے گی ''...