آپریشن میں تاخیر کی بھاری قیمت
پاک فوج کے سابق ترجمان نے کہا ہے کہ فوج نے تین برس قبل شمالی وزیرستان میں کارروائی کا فیصلہ کر لیا تھا
DEOBAND:
پاک فوج کے سابق ترجمان نے کہا ہے کہ فوج نے تین برس قبل شمالی وزیرستان میں کارروائی کا فیصلہ کر لیا تھا تاہم اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث یہ کارروائی نہ کی گئی۔ جنرل کیانی آپریشن ٹالتے رہے جس کی وجہ سے ہم نے بہت وقت ضائع کیا اور نقصان اٹھایا۔ آپریشن میں تاخیر سے دہشت گردوں کے قدم مضبوط ہوئے اور ان کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ امریکا نے بھی شمالی وزیرستان آپریشن میں مشکلات پیدا کیں۔
انٹرویو میں سابق میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ فوجی قیادت نے 2010ء میں آپریشن کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا جس کے بعد ایک سال فوجی کارروائی کی تیاری کی گئی لیکن عین موقع پر آپریشن نہ ہو سکا۔ فوج میں یہ اصولی فیصلہ ہو چکا تھا کہ 2010ء سے 2011ء تک شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تیاری کی جائے گی اور اسی سال یہ آپریشن کر لیا جائے گا اور اس علاقے کو شدت پسندوں سے صاف کر دیا جائے گا۔ اس سوال پر کہ جنرل کیانی نے آپریشن کے حق میں حتمی فیصلہ کیوں نہیں دیا، کہا اس میں ان کی ذاتی کمزوریوں کا دخل تھا۔
سابق فوجی ترجمان نے کہا کہ یہ تاثر عمومی طور پر درست ہے ان میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے بارے میں ایک طرح کی ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی۔ وہ یہ فیصلہ کرنے میں بہت تامل کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے ان کی ذات کے بارے میں باتیں کی جائیں گی۔ کہا جائے گا کہ یہ جنرل کیانی کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اسی لیے وہ اس فیصلے کو ٹالتے رہے جس کی وجہ سے ہم نے بہت وقت ضائع کیا اور نقصان اٹھایا۔
اس تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے آپس میں رابطے بڑھ چکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہاں پر معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ سابق فوجی ترجمان کے مطابق فوج کی اعلیٰ قیادت نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا فیصلہ وہاں پر تعینات فوجی کمانڈروں کی رائے اور وہاں سے ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر کیا تھا۔ وہاں زمین پر موجود فوجی کمانڈروں کی متفقہ رائے تھی کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند اس علاقے میں جمع ہو چکے تھے۔
سابق فوجی ترجمان نے کہا کہ اس سے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں فوج کی اعلیٰ قیادت میں دو آرا پائی جاتی تھیں۔ ایک رائے اس کارروائی کے حق میں تھی جب کہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ اس کارروائی کو ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل تھا کہ انھیں کیسے ہینڈل کیا جائے۔ اس کے علاوہ فوجی کارروائی سے متاثرین کا بھی مسئلہ بہت اہم تھا۔ ان عوامل کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی تاخیر کا شکار ہوتی رہی اور اس کی ہم سب نے بھاری قیمت ادا کی۔
جنرل اطہر عباس کے مطابق امریکا نے بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کے معاملے میں فوج کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ امریکا سے ایسے ہر روز بیانات آتے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ امریکا شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے فوج پر دبائو ڈال رہا ہے اور ہم امریکیوں کو بتاتے رہے کہ اس طرح کے بیانات ہماری مدد نہیں کر رہے بلکہ ہمارے لیے فیصلہ کرنے میں مزید مشکل کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اگر ہم یہ فیصلہ کر لیتے تو اس سے یہ تاثر ملتا کہ یہ کارروائی امریکا کی خواہش پر کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں حالات آج بھی ایسے ہی ہیں جیسے 2010ء میں تھے۔ اس لیے اگر آج آپریشن کیا جا رہا ہے تو اس وقت بھی کیا جا سکتا تھا۔
یہ بات تو عام پاکستانی بھی جانتا ہے کہ آپریشن میں تاخیر سے دہشت گردوں کو فائدہ ہوا۔ جب کہ جنرل کیانی نے 2012ء کے شروع میں یہ پالیسی بیان دیا تھا کہ پاکستان کی سالمیت کو بہ نسبت بیرونی خطرے کے اندرونی خطرات زیادہ لاحق ہیں۔ یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ تھا کہ پاکستان کو بھارت سے اتنا خطرہ لاحق نہیں ہے جتنا دہشت گردوں سے ہے۔ اس بیان سے جنرل کیانی نے اسٹریٹجک اثاثے کے تصور پر بھی کاری ضرب لگائی جس میں بتایا کہ عسکریت پسند ہمارے لیے ناگزیر ہیں۔
جنرل کیانی کی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے ہچکچاہٹ اور تذبذب بلا وجہ نہیں تھی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نیز دیدہ نادیدہ قوتیں اس مائنڈسیٹ کے پیچھے تھیں اس کو تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے حوالے سے عوام کے بے پناہ دبائو کے باوجود اس پر عمل درآمد ناممکن نظر آ رہا تھا کیونکہ دہشت گردوں کی حمایتی قوتیں آج بھی بے انتہائی طاقتور ہیں۔ جو پاکستان کے ہر ادارے اور بیشتر مذہبی سیاسی جماعتوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ ان کی ہی حکمت عملی تھی کہ اول تو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہی نہ ہونے دیا جائے۔ دوسرا اگر اس کی نوبت آ بھی جائے تو اس میں حتی الامکان تاخیر کی جائے۔
آپ دیکھ لیں کہ دہشت گردوں کے پاکستانی حمایتیوں کی یہ حکمت عملی کتنی کامیاب رہی کہ اب وہ پہلے سے زیادہ مضبوط، منظم اور وسائل کے مالک ہو چکے ہیں اور ان کا خاتمہ اتنا آسان نہیں رہا۔ آج بھی بیشتر دہشت گرد ہمارے شہروں میں ہی زیر زمین چلے گئے ہیں اور یہ ان لوگوں کی حفاظت میں ہیں جو ان کے حمایتی ہیں کیونکہ گوریلا جنگ کا اصول ہے کہ جب مقابلہ نہ کر سکو تو چھپ جائو اور مناسب وقت کا انتظار کرو۔ اس سے بھی پہلے دہشت گرد قوتوں کی حمایتی قوتوں نے اس سے بھی بڑی یہ کامیابی حاصل کی کہ قوم کو گمراہ کرتے ہوئے نظریاتی طور پر تقسیم کر دیا وہ اس طرح کہ دہشت گردی بیرونی قوتیں کرا رہی ہیں۔
عام پاکستانی یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ دہشت گردوں کی حمایتی قوتیں کون سی ہیں۔ یہ حمایتی قوتیں وہی ہیں جنھوں نے قیام پاکستان کی ہر ممکن مخالفت کی اور روڑے اٹکائے۔ قائد اعظم کی ہر ممکن اہانت کی لیکن ان سب کے باوجود جب پاکستان بن گیا تو یہ پاکستان اور اسلام کے ٹھیکیدار بن گئے۔ ان پاکستان مخالف قوتوں نے آخر کار پاکستان کے ہر ادارے پر قبضہ کر لیا اور پاکستان کے آئین میں وہ ترامیم کروائیں جو ان کے ایجنڈے کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوں۔ اس طرح انھوں نے قیام پاکستان میں اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔
دہشت گرد اور ان کی حمایتی قوتیں ہر صورت پاکستان پر قبضہ چاہتی ہیں تا کہ وہ اپنا نظریہ نافذ کر سکیں۔ پاکستان پر قبضہ نہ ہونے کی صورت میں ان کی دوسری ترجیح پاکستان کو توڑنا ہے تا کہ ایک ایسا علاقہ ان کے قبضے میں آ جائے جہاں وہ اپنے خواب کی تعبیر پا سکیں۔۔۔باقی آئندہ
12-11-8-7 تا 14 جولائی پاک فوج کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوں گی۔
سیل فون: 0346-4527997