فیض نیازی گٹھ جوڑ
اگر وہ نو مئی کے واقعات کی پلاننگ میں بھی ملوث ہیں تو یہ بھی ریٹائر منٹ کے بعد کی سرگرمی ہے
سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لیا جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے کیونکہ وہ اعلیٰ عسکری عہدیدار رہے ہیں۔اِنکی حراست اِس بات کا عندیہ ہے کہ معاملات یہاں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اِس سلسلے میں مزید گرفتاریاں اور انکشافات کی توقع ہے۔فوج میں ایسے واقعات کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔صرف فوجی تحویل میں لینا زیادہ اہم نہیں بلکہ ان کا فیلڈ کورٹ مارشل شروع کرنے کی خبریں آئی ہیں اور اب تو بات مزید گرفتاریوں تک پہنچ گئی ہے۔ ان کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے ان کے قریبی افسران کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔
آئی ایس پی آر نے واضح کیا ہے کہ معاملہ صرف ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا نہیں ہے۔ بلکہ جنرل(ر) فیض حمید نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ میرے نزدیک بنیادی وجہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی ان کی سرگرمیاں ہیں۔ ورنہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا معاملہ تو 2017سے چل رہا تھا۔ اور وہ اس سے بچتے چلے آرہے تھے۔ سب کو اندازہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی سرگرمیوں پر پکڑ ہوئی ہے۔
اگر وہ نو مئی کے واقعات کی پلاننگ میں بھی ملوث ہیں تو یہ بھی ریٹائر منٹ کے بعد کی سرگرمی ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت دو سال تک ان پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے کھلے عام کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیانہ کوئی الیکشن نہیں لڑا ہے، کسی کی انتخابی مہم نہیں چلائی، کسی انتخابی و سیاسی جلسے سے خطاب نہیں کیا۔ اس لیے سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کاکیس بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہے۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریٹائرمنٹ کے بعد صحافیوں سے ملاقاتیں شروع کی تھیں۔ جن میں وہ عمران خان کی جانب سے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی بالواسطہ وضاحت دیتے تھے۔ لیکن پھر اطلاعات آئیں کہ ان کی صحافیوں سے ملاقاتیں روک دی گئیں۔ اور انھیں بتایا گیا کہ وہ آرمی ایکٹ کے تحت دو سال تک کوئی براہ راست اور بالواسطہ انٹرویو نہیں دے سکتے۔ لیکن بات صرف وارننگ تک ہی رہی۔ لیکن اس معاملہ میںتو بات کافی آگے بڑھ گئی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ معاملہ سنگین ہے اور فوج نے بہت برداشت کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔ یہ سوال بھی سامنے ہے کہ یہ قدم اتنی دیر سے کیوں اٹھایا گیا ہے۔یہ قدم پہلے ہی اٹھا لیا جانا چاہیے تھا۔
بہر حال اب بات واضح ہو گئی ہے کہ اصل کہانی بانی تحریک انصاف عمران خان اور جنرل (ر) فیض حمید کے گٹھ جوڑ کی ہے۔ اسی لیے جیل کے اہلکار بھی حراست میں لیے گئے ہیں جو مبینہ طور پر جنرل (ر) فیض حمید اور عمران خان کے درمیان رابطہ کار کا کام کر رہے تھے۔ جو دونوں کے پیغامات بھی ایک دوسرے تک پہنچاتے تھے اور اطلاعات کے مطابق دونوں کی بات بھی کروائی جاتی تھی۔ جنرل (ر) فیض حمید کی تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ ہمدردیاں کوئی راز کی بات نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے اور آج بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں۔لیکن اس قربت کی وجہ سے بھی اتنا سخت ایکشن نہیں ہو سکتا۔ یقیناً کچھ ایسے کام ہیں جو ناقابل برداشت ہوں گے۔
فیض حمید نے آرمی ڈسپلن میں رہ کر جو بھی کیا تھا۔ اس پر نہ تو ان کو آج پکڑا گیا ہے۔ اور نہ ہی پکڑ ا جا سکتا ہے۔ اس وقت انھوں نے جو بھی کیا وہ ادارے کے ڈسپلن میں کیا۔ جرم تب ہے جب آپ ادارے کی پالیسی سے انحراف کریں۔
شاید وہ اس بات کا خیال نہیں رکھ سکے کہ آئی ایس آئی، پولیس اور آئی بی میں بہت فرق ہے۔ آئی ایس آئی قومی سلامتی کے تناظر میں پاکستان کا انتہائی اہم ادارہ ہے۔اس لیے اس کا ڈسپلن بہت اہم ہے۔ اس کے افسران ادارے کی حساس نوعیت کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سخت مانیٹرنگ میں رہتے ہیں۔ ان سے غلطی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔لیکن اب اطلاعات ہیں کہ جنرل (ر) فیض حمید نے عمران کی مدد کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد اس ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسی لیے اب اس کو فیض نیازی گٹھ جوڑ کا نام دیا جا رہا ہے۔
فیض نیازی گٹھ جوڑ اور اِس کے نتیجے میں رچائے جانے والے سیاسی کھیل کی وجہ سے پاک فوج میں شدید بے چینی پائی گئی ہے۔ خبریں تو یہی ہیں کہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) قمر باجوہ نے بھی جنرل فیض اور عمران کے سیاسی گٹھ جوڑ کو پسند نہیں کیا تھا اور اندرونی ذرایع کے مطابق انھوں نے ہمیشہ اس کی حوصلہ شکنی کی۔ یہی ناپسندیدگی بعد میں جنرل فیض کی آئی ایس آئی سے ٹرانسفر اورجنرل باجوہ اور عمران کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنی۔
عمران کا فیض حمید کو اپنا اثاثہ قرار دینا اِس امر کی غمازی کرتا ہے کہ اس سے دونوں کے گہرے تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ریاست اور اداروں کے لیے کوئی فرد ِ واحد اثاثہ نہیں ہوتا بلکہ ادارے اثاثہ ہوتے ہیں۔ بلا شبہ آئی ایس آئی ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہے لیکن فیض حمید اور عمران اثاثہ نہیں ہو سکتے۔ یہ نہ صرف ادارے کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوا بلکہ یہ ادارے کے اُس وقت کے سربراہ جنرل باجوہ بھی اس سے متاثر ہوئے کیونکہ فیض حمید اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے متعدد بار ایسے اقدامات کے مرتکب ہوئے جس میں سربراہ پاک فوج کو بائی پاس کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق فیض حمید فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عمران کی سیاسی حمایت میں سرگرم رہے جو آرمی ایکٹ کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے اپنے بااعتماد ریٹائرڈ فوجی افسران کے ساتھ مل کے کئی ایسے اقدامات اٹھائے جو نا صرف غیر قانونی بلکہ ادارے کے پیشہ ورانہ تشخص کے منافی تھے۔