جدید ٹیکنالوجی اور معیشت

پاکستان میں ہمیشہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال میں رکاوٹوں کی داستان بڑی پرانی ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan August 21, 2024
[email protected]

انٹرنیٹ سروس کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں 15 ارب روپے تک نقصان ہوسکتا ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں زیرِ سمندرکیبل کٹنے سے دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی سروس بھی معطل ہوئی تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ خرابی دورکردی گئی اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ سروس معمول پر آگئی مگر پاکستان میں انٹرنیٹ سروس میں مسلسل خلل پڑنے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

فیس بک، واٹس اپ، انسٹاگرام اور دیگر پروگراموں کی سروس متاثر ہوئی ۔ اس وجہ سے فری لانس کاروبار کرنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں فری لانسرزکی تنظیم کے سربراہ کا مدعا ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے سے پاکستانی فری لانسرزکا کاروبار ختم ہوگیا ہے ، جب پروفیشنلز بیرونی ممالک کے کلائنٹس کے مقرر کردہ وقت کے مطابق کام مکمل نہ کر پائے اور انھوں نے اپنے کلائنٹ کو ملک میں انٹرنیٹ کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا تو حکومت نے ایسی خبروں کی تردید کردی، یوں فری لانسرز کی ساکھ کو نقصان پہنچا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے یا بار بار بند ہونے سے فری لانسرزکی سروس کوالٹی متاثر ہوئی ہے جس کی بناء پر ڈیجیٹل پروفیشنلز کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ تجارتی برادری کو بھی انٹرنیٹ سلو ہونے پر تشویش ہے۔

وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے ایک بیان میں اس امر کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں انٹرنیٹ کی اسپیڈ 30 سے 40 فیصد تک کم ہوئی ہے جس کی بناء پر آن لائن بزنس کو بھی نقصان ہوا ہے۔ خصوصاً کال سینٹر اور ای کامرس پروفیشنلز متاثر ہوئے ہیں۔ ای بینکنگ سروس اور فارن کرنسی کی خرید و فروخت کرنے والی ایجنسیاں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ اس تنظیم کے صدر کا کہنا ہے کہ ای کامرس کے بڑے ادارے پاکستان سے دبئی اور سنگاپور وغیرہ منتقل ہونے پر غور کررہے ہیں اور کچھ اداروں نے اس ضمن میں اقدامات بھی کیے ہیں۔ ایسا ہوا تو صرف بزنس ہی بیرون ممالک میں منتقل نہیں ہوگا بلکہ اس شعبے سے وابستہ ہزاروں افراد بھی روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کم ہونے سے پاکستان میں اسمارٹ فون یوزر متاثر ہوئے ہیں۔

ادھر پاکستان بزنس کونسل نے اپنے بیانیہ میں حکومت پر واضح کیا ہے کہ کئی عالمی کمپنیاں اپنے دفاتر پاکستان سے دیگر ممالک کو منتقل کرنے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ اس تنظیم کے ایک رکن نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ دبئی کے چیمبر آف کامرس میں اس سال جنوری سے جون کے درمیان پاکستانیوں کی 3968کمپنیاں رجسٹر ہوئی ہیں۔ اس ساری صورتحال کا واضح نتیجہ بے روزگاری کے بڑھنے اور زرِ مبادلہ کم ہونے کی صورت میں نکلے گا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دینے والے تعلیمی اداروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے سے آن لائن کلاسیں بے وقعت ہوگئی ہیں۔

پاکستان میں ہمیشہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال میں رکاوٹوں کی داستان بڑی پرانی ہے۔ ساری دنیا میں 70ء کی دہائی میں ٹیلی فون کا جدید نظام نافذ ہوگیا تھا ۔ امریکا کے مون مشن کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نظام تھا۔ ساری دنیا میں دستاویزات کی فوری ترسیل کے لیے فیکس مشین کا استعمال آیا ۔ پاکستان میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ اقتدار میں ڈیجیٹل ٹیلی فون کا استعمال شروع ہوا۔ دستاویزات کی فوری ترسیل کے لیے فیکس مشین کے استعمال کی اجازت ملی۔ بھارت میں 80 کی دہائی میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سلیکون ویلی کے قیام کے لیے بنیادی اقدامات کیے ہیں۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھی افغان پروجیکٹ کے ذریعے کروڑوں ڈالر کما رہے تھے۔ جب نئی صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سستی اور آسان ہوگئی تو مختلف نوعیت کی پابندیاں لگنے لگیں۔

YouTube جو تمام اقسام کی معلومات کا منبع ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے کسی ناخواندہ شخص کی عرضداشت پر اس پر پابندی لگادی تھی جو میاں شہباز شریف کے دورِ اقتدار میں ختم ہوئی۔ اس پابندی کی بناء پر معلومات کی سب سے بھرپور لائبریری سے عام آدمی محروم ہوگیا تھا۔ ابلاغیات کے ماہر ڈاکٹر محمد عرفان عزیز نے مبینہ فائر وال ایشو کو لے کر کہا ہے کہ اس سے شہریوں کی نجی زندگی متاثر ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی جانب سے وضح کیے گئے رہنما اصولوں پر عملدرآمد کرنا ریاست کا فرض ہے ۔

سوشل میڈیا کا استعمال بڑھا تو پیپکا قانون کے تحت نئی پابندیاں عائد کی گئیں۔ دستیاب اعدا د و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 120 ملین افراد انٹرنیٹ کا باقاعدہ استعمال کرتے ہیں، یہ تعداد کل آبادی کا 45 فیصد کے قریب ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے اور 90 فیصد افراد اپنے موبائل ٹیلی فون کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جب کہ 5 ملین افراد براڈ بینڈ استعمال کرتے ہیں جب کہ 70فیصد افراد سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور 50 فیصد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جب کہ پڑوسی ملک بھارت میں 830 ملین افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جو ملک کی آبادی کا 60 فیصد ہے جب کہ بنگلہ دیش میں 120 ملین افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جو بنگلہ دیش کی آبادی کا 70 فیصد بنتا ہے۔

پاکستان کا بھارت اور بنگلہ دیش سے اس تناظر میں موازنہ کیا جائے تو پاکستان نئی ٹیکنالوجی کے استعمال میں بنگلہ دیش اور بھارت سے پیچھے نظر آتا ہے۔ غربت کے خاتمہ، جدید گورننس اور ترقی کے تناظر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ استعمال سے مقاصد کا حصول آسان ہے۔ پاکستان شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں رکاوٹیں ڈالنے سے معیشت کا بحران اور تیز ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی سے کھلواڑ اچھی بات نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں