میاں نواز شریف ۔ عوام آپ کے منتظر ہیں
میاں نواز شریف قومی دھارے کے بڑے رہنماء ہیں ،ان کی شخصیت کسی صوبے کی محتاج نہیں
چند ہفتے بیرون ملک گزارنے کے بعد واپس گھر آگیا ہوں لیکن یہاں وہی پرانا منظرنامہ ہے۔ معاشی اور سیاسی حالات میں بہتری کی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ میرے جیسے متوسط طبقہ کے لوگوں کی ہر محفل میں موضوع بحث مہنگائی بن چکا ہے۔ہر کوئی پریشان ہے لیکن اس پریشانی کا حل کسی کے پاس بھی نہیں ہے ۔ ان مباحثوں میں ایک بات کا شدت سے ذکر کیا جارہا ہے کہ چونکہ حکومت عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہی ہے اور عوام اسے برداشت کرتے چلے جارہے ہیں تو حکومتی معیشت دانوں کا یہ خیال ہے کہ ابھی اس قوم میں اتنی سکت باقی ہے کہ وہ یہ بوجھ برداشت کر سکتی ہے۔
بازاروں کی رونقیں ، سڑکوں پر گاڑیوں کا اژدہام اور ریستورانوں میں عوام کا ہجوم دیکھ کر مثالیں دی جاتی ہیں کہ غربت کہاں ہے۔ لیکن یہ ہجوم جو دکھائی دیتا ہے، یہ وہ محدود طبقہ ہے جسے اشرافیہ کہتے ہیں اور یہ طبقہ ملک کے غریب اور درمیانے طبقے کے عوام کی نمایندگی نہیں کرتا۔ اشرافیائی طبقے کوکوئی پرواہ نہیں ہے کہ حالات ہیں۔ اگر یہ صرف اپنے ملازمین سے ہی ان کے مالی حالات پوچھ لیں تو شاید ان کے دل و دماغ میں کہیں رحم کی کوئی رمق جاگ پڑے۔ بجلی کے بے رحم بلوں پربہت بحث ہو چکی ہے اور ملک کا شاید اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ۔ ملک میں صنعتوں کے زوال کا سب سے بڑا سبب یہی مہنگی بجلی ہے ۔ بے روزگاری کا ایک اور سیلاب دستک دے رہا ہے۔
بجلی کی ہوشرباء مہنگائی کے خلاف جماعت اسلامی نے راولپنڈی میں دھرنا بھی دیے رکھا جس کا خاتمہ حکومتی وعدوں پر ہو تو گیا ہے لیکن کیا حکومت اپنے وعدوں کی پاسدار ی کر سکے گی، یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔ دوسری جانب میاں نواز شریف نے پنجاب حکومت کی نمایندگی کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں پنجاب کے صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں دو ماہ کے لیے کمی کا اعلان کر دیا ہے۔ ملک کے دوسرے صوبوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ حکومت پنجاب نے بجلی بلوں میں ریلیف پر واضح موقف اختیار کیا ہے کہ پنجاب نے اپنے بجٹ اور غیر ضروری اخراجات میں کٹوتی کر کے یہ قدم اٹھایا ہے جس کی دوسرے صوبوں کو بھی تقلید کرنی چاہیے،پنجاب حکومت کا یہ موقف درست ہے اور اس فیصلے سے عوام کو دو ماہ کا وقتی ریلیف بھی ہوگا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس فیصلے کا اعلان ہماری وزیر اعلیٰ خود کرتیں تو کسی فریق کو انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہوتی ۔
میاں نواز شریف قومی دھارے کے بڑے رہنماء ہیں ،ان کی شخصیت کسی صوبے کی محتاج نہیں، وہ پاکستان کے عوام کی نمایندگی کرتے ہیں، وہ اس ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہے ہیں، عوام ان سے ملکی سیاست کی توقع کرتے ہیں اور وہ جس پائے کے سیاسی لیڈر ہیں انھیں وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان کے عوام کو ریلیف دینے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے ۔ میاں نواز شریف کو خود اس کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ پاکستانی عوام ان کی جانب دیکھ رہی ہے اور شدت سے منتظر ہیں کہ جس شخص کو انھوں نے تین مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر بٹھایا وہ ان کے دکھوں کے مداوے کے لیے کھل کر بات کرے۔ میاں نواز شریف کی خاموشی سے جہاں پر ان کی پارٹی کاسیاسی نقصان ہورہا ہے وہیں پر پاکستان کا بھی نقصان ہو رہا ہے ۔ انھیں اب چپ کا روزہ توڑ دینا ہوگا اور عوام کو لیڈ کرنا ہوگا، اس وقت ملک کے سیاسی افق پر کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں ہے جوعوام کو لیڈ کر سکے ۔
اونچ نیچ سیاست کا لازمی حصہ ہے آج کے حکمران کل معتوب ٹھہرسکتے ہیں اور میاں صاحب کو اس کا وسیع تجربہ بھی ہے، ان کے واحد سیاسی حریف عمران خان اس وقت جیل میں ہیں لیکن وہ جیل میں بھی اپنے مخالفین کے اعصاب پر سوار ہیں۔ میاں نواز شریف واحد سیاسی رہنماء ہیں جو اس ملک کی معاشی سمت کو درست کر سکتے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ وہ کیوں خاموش ہیں ۔
عوام ان کی بات بغورسنتے ہیں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر موجودہ حالات سے نکلنے کی کوئی تدیبر کر سکتا ہے تو وہ میاں نواز شریف ہے جو اپنا بھر پور سیاسی بیانیہ بنا سکتے ہیں لیکن ان کے مشیر ان کو عمران خان کی ذات سے باہر ہی نہیں نکلنے دے رہے اور اس وقت نواز لیگ کی سیاست کا محور عمران خان مخالف بیانیہ پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے اس کوشش میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی بھی ماند پڑ رہی ہے حالانکہ وہ جس طرح پنجاب کی ترقی کے لیے عملی جد و جہد کر رہی ہیں۔
اس میں انھوں نے اپنے پیشتروؤں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، چاہے وہ میاں شہباز شریف ہوں یا ہمارے دوست محسن نقوی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میاں نواز شریف کھل کر میدان سیاست میں آکر اپنا بیانیہ دیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ملک کے عوام جس قدر پریشان اور مالی بحران کا شکار ہیں، میاں نواز شریف ہی ان کی پریشانیوں کا حل نکال سکتے ہیں۔ اس کے لیے میاں صاحب کو خاموشی توڑنی ہوگی اورعملی سیاسی جدو جہد سے پاکستانی عوام کی ترجمانی کرنا ہوبی، یہ ان کا فرض اور عوام کا حق ہے اور اس حق کی ادائیگی کے لیے وہ جتنی جلد باہر نکلیں گے، وہ ان کی سیاسی ساکھ کے لیے بہتر ہو گا۔ عوام ان کے منتظر ہیں۔