آپ نے دکاندار سے راشن نہ لیا ہو، اور وہ آپ کو ماہانہ راشن کا بل بھیج دے کہ آپ نے یہ دینا ہے تو آپ کا دل و دماغ اس دکاندار کو کیا کہے گا؟ کچھ ایسا ہی حال ہماری بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا ہے۔ اور راقم الحروف کے سامنے مثال اس وقت IESCO کے بارے میں ہے۔ کہنے کو یہ کمپنی بجلی کی تقسیم کے حوالے سے لوگوں کی سہولت کےلیے ہے لیکن حقیقی معنوں میں معاملہ بالکل اس کے اُلٹ ہے۔
آپ کو بجلی کے بل کا ایک قصہ سناتا ہوں۔ اس بل کے مطابق پورے مہینے بجلی کا ایک یونٹ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود بل کی واجب الادا رقم 791 روپے تھی۔ اب بندہ پوچھے کہ بھئی جب آپ کی پروڈکٹ استعمال نہیں ہوئی تو پھر کس چیز کے پیسے؟
اب تفصیل سنیے۔ 791 روپے میں سے 75 روپے بجلی کی قیمت مانگی گئی، اس بجلی کی قیمت جو استعمال ہی نہیں ہوئی۔ اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے عفریت کی مد میں 556.46 پیسے ادا کرنے کو کہا گیا۔ یہاں تک رقم ہوئی 631.46 روپے۔ نکتہ ضرور یاد رکھیے گا کہ یہ زیرو یونٹ کا بل اپنی دانست میں کمپنی کے ذمے داران نے بھیجا ہے۔ ٹیلی ویژن فیس 35 روپے، جی ایس ٹی 14 روپے. یہاں تک ہمارا موجودہ بل 124 روپے بن گیا۔ اور یہ بل ایک بھی یونٹ خرچ کیے بغیر بنا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ دکان میں جائیں اور جوتا لیں یا نہ لیں آپ کو قیمت ضرور کچھ نہ کچھ ادا کرنی ہے۔
جو اوپر رقم بیان ہوئی جی ایس ٹی کی، ذرا ٹھہریے، آپ نے اس پر بھی ٹیکس ادا کرنا ہے، یعنی پورے 102 روپے۔ اور ابھی غوروفکر روکیے گا نہیں کہ اسی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر آپ نے 8.35 روپے مزید محصول بجلی کے نام کا ایک اور ٹیکس بھی دینا ہے۔ اور آخر کار یہ کالم مکمل ہوتا ہے اور آپ بنا بجلی کا ایک بھی یونٹ استعمال کیے 159.35 روپے ٹیکس دیں گے اور پھر بھی آپ نان فائلر ہی تصور ہوں گے۔ جی ہاں آپ 791 روپے میں 159.35 روپے کے ٹیکسز جمع کروانے کے بعد بھی نان فائلر ہی رہیں گے۔ اور حکومت کی نظر میں آپ ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ یہ المیہ ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ جیسے منیر نیازی کا ایک شعر ہے کہ،
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ایسے ہی ایک اور المیہ آپ کا منتظر ہے۔ کیوں کہ آپ کو علم ہے کہ آپ نے بجلی استعمال نہیں کی اور بجلی کا زیرو یونٹ بل ادارے کی نااہلی کی وجہ سے آیا ہے۔ آپ کمر کس لیں کہ اس نااہلی کا خمیازہ بھی آپ کو ہی بھگتنا ہے۔ بے شک میٹر ریڈر، اس کے سپروائز، اسسٹنٹ منیجر، منیجر، جنرل منیجر، ڈائریکٹر، ریجنل ڈائریکٹر، کمپنی چیئرمین تک کی پوری چین اس کوتاہی کی ذمے دار ہے، لیکن اب بھاگ دوڑ، ان افراد کی غلطی سدھارنے کےلیے، آپ نے ہی کرنی ہے۔
آپ دفتر جائیں کہ صاحب آپ کی غلطی سے زیرو یونٹ کا بل آیا ہے اور ہم بیوقوف اس لیے خرچ نہ کیے گئے یونٹس کا بل ادا کرنا چاہتے ہیں کہ اگلے مہینے آپ مزید خنجر تیز کرلیں گے۔ تو اگر صاحب بہادر صبح 10 بجے تک آپ کے کام کا آغاز نہ کریں تو پریشان ہرگز نہیں ہونا۔ اور متعلقہ ایس ڈی او صاحب کا کمرہ جو کہ بند ہے اُسے کھولنے کی کوشش نہ کیجیے گا کیوں کہ اندر اے سی کی ٹھنڈک پر حرف آ گیا تو وہ غصے ہوں گے۔ جن کے ہاتھ میں ''اختیار'' ہے ان سے لڑنا بھڑنا تو بالکل نہیں۔ آپ ذمے دار شہری بن کر پیسے ہاتھ میں لیے جمع کروانے کو بیتاب ہیں۔ لیکن متعلقہ گرڈ اسٹیشن پر عملے کے بابو کچھ دیر قلم رگڑنے کے بعد اور آپ کو گرمی میں کھڑا رکھنے کے بعد ایک فارم دے دیں گے۔ جتنے یونٹس آپ کہیں اس میں بھر دیں گے کہ گھر سے میٹر ریڈنگ دیکھ کر آپ نے ہی تو آنی ہے۔ فارم بن گیا ایڈجسٹمنٹ کا۔ چلیے اب سکون ہوا پیسے جمع کروائیں اور اللہ اللہ خیر صلا؟ نہیں۔ یہ گرڈ اسٹیشن تو آپ کا سب ڈویژن ہے ناں۔ آپ نے متعلقہ ڈویژن بھی خود جانا ہے کہ اس تصحیح کا اندارج کروا کر نیا بل بھی بنوانا ہے۔ کیوں کہ آپ نے آواز کیوں اٹھائی ایک ذمے دار شہری ہوتے ہوئے کہ زیرو یونٹ نہیں ہے صاحب، ہمارے ذمے تو واجب الادا رقم ہے۔
گرمی ہے، سردی ہے، طوفان ہے یا آپ مریض ہیں۔ کفن ساتھ لیں اور متعلقہ ڈویژن پہنچ جائیے۔ یاد رکھیے کہ ایک لائن مین سے سب ڈویژن اور متعلقہ ڈویژن تک آپ کو رہنمائی کےلیے نہ کوئی کاؤنٹر ملے گا نہ ہی کوئی ایسا فون نمبر کہ جہاں سے کم از کم تمام مراحل کا آسانی سے علم ہوجائے۔ لیکن آسانی مہیا کرنے کا تو رواج ہی نہیں۔ ڈویژن میں بھی سابقہ آفس کی طرح کوئی رہنمائی بورڈ، یا کاؤنٹر ہو، ایسی امید عبث ہے۔ خدا خدا کرکے تیس منٹ بعد کوئی متعلقہ فرد ملنے پر راضی ہوجائے تو یہاں ایک فوٹو کاپی کی ضرورت پڑنے پر بھی پورے آفس کا چکر کاٹ کر باہر نکلیں اور مین روڈ پر کسی دکان کی خاک چھانیے کہ بابو جی کو فوٹو کاپی درکار ہے۔ یہاں دوبارہ قلم رگڑا گیا۔ اور مزید 15 منٹ انتظار کے بعد تصحیح کا اندارج ہوچکا ہے صاحب۔ کیا اب خوشی منا لیں؟
ذرا رکیے۔ تیسرا المیہ آپ کا منتظر ہے۔ بینک یہ تصحیح شدہ بل لینے کو تیار نہیں۔ اور اگر لے لیں گے تو اگلے مہینے پھر بل میں لگ کر آجائے گا۔ یہ اطلاع بھی دفتر کے ایک ہرکارے سے ملی۔ یعنی اتنی محنت کرلیں تو بھی آپ کو ڈاکخانہ ڈھونڈنا پڑے گا۔ اور کوئی علم نہیں کہ ڈاکخانے میں جمع کروایا گیا بل بھی اگلے ماہ کے واجبات میں بشمول مزید ٹیکسز آئے گا۔
یہ ساری کتھا ادارے کی غلطی کی درستی کےلیے ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر یہی غلطی صارف کے ذمے نکل آئے تو پھر کیا حال ہوگا؟ سوچ کر ہی آپ کو جھرجھری آجائے گی۔
میری پاکستان کے قابل، ہونہار، ہر دلعزیز حکمرانوں سے ایک درخواست ہے، خاص طور پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے کہ خدارا جلد سے جلد تمام ادارے بیچ دیں۔ ہم قومی اثاثے بیچنے پر آپ کی مخالفت کرتے رہے ہیں لہٰذا بصد احترام معافی کے طلبگار ہوتے ہوئے دست بدست عرض ہے کہ تمام ایسے ادارے بیچ دیجیے جو لوگوں کا خون چوس رہے ہیں۔ ہر ایسی عمارت کو بیچ دیجیے جہاں پر عوام کی سہولت کے بجائے ان کو تکلیف دی جارہی ہے۔ آپ نہ صرف ادارے بیچ دیجیے بلکہ ایک ہی شعبے میں ایک سے زیادہ اداروں یا کمپنیز کو بھی کام کرنے دیجیے تاکہ بہتر سے بہتر سہولیات عام آدمی کو مل سکیں۔ جس طرح انٹرنیٹ کمپنیاں ایک سے زائد کام کرتی ہیں، نہیں معلوم کہ آئین اور قوانین کیا کہتے ہیں، ایسے ہی بجلی کی تمام تقسیم کار کمپنیاں بیچ دیں اور ایک ہی شہر میں کم از کم دو کمپنیوں کو یہ اختیارات دیں کہ ہوسکتا ہے کچھ مقابلے کی فضا سے عام آدمی کو فائدہ ہوجائے۔ یہ بظاہر دیوانے کی بڑھک لگتی ہے۔ لیکن تین سے چار گھنٹے ایک عام آدمی جب دفتروں کے چکر لگائے گا تو یقینی طور پر دیوانہ تو ہو ہی جائے گا۔ خدارا اس ملک پر رحم کیجیے اور تمام اداروں کو بیچ کر مقابلے کی ایسی فضا قائم کریں کہ عوام کا بھلا ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔