رشیدہ عیاں شاعری اور شخصیت کے آئینے میں
رشیدہ عیاں نے اپنی شاعری کا آغاز نعتوں سے کیا تھا، پھر یہ غزل، نظم کی طرف بھی آئیں
گزشتہ دنوں سینئر شاعرہ رشیدہ عیاں کا شعری مجموعہ ''روشنی کا سفر'' پڑھنے کا موقعہ ملا۔ یہ دور حاضرکی ایک ممتاز شاعرہ ہیں جو شاعری کی ہر صنف میں بڑی دسترس رکھتی ہیں اور خواتین شاعرات میں ان کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ انھوں نے گیسوئے اردو کو سنوارنے میں اپنی تمام شاعرانہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ رشیدہ عیاں کی شاعری رسمی مضامین اور روایتی موضوعات سے کافی ہٹ کر بھی ہے۔
ان کی شاعری میں ندرتِ خیال کے ساتھ جدت کی خوبی بھی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے غزل، نظم، نعت، حمد اور منقبت غرض ہر صنف میں الفاظ کے حسین چناؤ کے ساتھ مزاج، معیار اور مناسبت کا بھی بہت خیال رکھا ہے۔ ان کا اسلوب پختہ بھی ہے اور فکر انگیز بھی ۔ میری ان سے آرٹس کونسل کراچی اور کراچی کے مشاعروں میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ یہ پاکستان سے باہر کئی ممالک جا چکی ہیں۔ خاص طور پر امریکا بھی جاتی رہی ہیں، ان کے شریک حیات شمیم حیدر نے ان کی شاعری کا بڑا ساتھ دیا ہے۔ وہ ان کی شاعری کے مداح بھی رہے ہیں اور ان کی شاعری کو پروان چڑھانے میں قدم قدم پر پیش پیش رہے ہیں۔
رشیدہ عیاں نے اپنی شاعری کا آغاز نعتوں سے کیا تھا، پھر یہ غزل، نظم کی طرف بھی آئیں اور ادبی حلقوں میں مقبول ہوتی چلی گئیں۔ یہ اپنے بارے میں بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ '' یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے یہ 1943 کا زمانہ تھا کہ اچانک مجھے ایک ایسے احساس نے گھیر لیا کہ جیسے میں اپنے آپ میں ادھوری ہوں، میں تشنہ ہوں اور اپنی اس پیاس کو بجھانے کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں،کچھ ایسا جو میرے ادھورے پن کو دورکرنے کا باعث ہو۔''
یہ تیرہ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے اس عمر میں اپنے بارے میں اس طرح سوچنا شروع کر دیا تھا جب کہ کسی بھی لڑکی کی یہ عمر فکر و تخیل کے الاؤ میں تپنے کی عمر نہیں ہوتی ہے لیکن اگر احساس لطیف پر تپش بھرپور پڑ رہی ہو تو ایک ناآموز، ناآشنائے سرد و گرم نو عمر روح کیا محسوس کرے گی، اس اظہار کے لیے کم از کم میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ اس سوچ اور شاعری کا آغاز جس ماحول میں ہوا، جن حالات میں یہ سوچ آگے بڑھی اس نے غیر معمولی طور پر ایک طرح کی حوصلہ شکنی سے دوچار کر دیا تھا۔
میری ان سے آخری ایک ملاقات آرٹس کونسل ہی میں ایک ادبی تقریب کے دوران ہوئی تھی۔ یہ شرفائے اوَدھ کے خوشحال سید گھرانے کی بیٹی ہیں۔ مراد آباد ان کا آبائی وطن رہا ہے۔ انھوں نے وہیں کے اسکول سے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ تیرہ برس کی عمر میں رشیدہ عیاں نے شعر گوئی کے جرم کا ارتکاب کیا تھا اور جب ان کی شاعری کا گھر والوں کو علم ہوا تو ان کے گھر میں ان کی شاعری نے ایک بھونچال پیدا کردیا تھا۔ اس لڑکی نے کسی کی بھی بات کا کوئی اثر نہیں لیا تھا اور شاعری کا سفر جوں کا توں جاری رہا تھا، یہ ہر وقت نکتہ چیں نظروں کا نشانہ بنی رہتی تھیں، نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ یہ خود ہی اپنے گھر کے ماحول میں اجنبی سی ہو کر رہ گئی تھیں، پھر ایک دن یوں ہوا کہ ان کی کچھ غزلیں ان کی امی جان کے ہاتھ لگ گئیں، انھیں پڑھ کر وہ بہت پریشان ہوگئی تھیں۔
ان کے چہرے پر کچھ ایسا تاثر تھا جیسے کسی ماں کا بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے سمندر کے بیچوں بیچ ڈوبتا نظر آرہا ہو، ان کی والدہ مانا کہ وہ اس دور میں ایک روشن خیال خاتون تھیں مگر ان کو اپنے خاندان کی بھی بڑی فکر تھی۔ وہ گھر کے ماحول کو دیکھتے ہوئے اس بات سے بڑی خائف تھیں کہ ان کی بیٹی کی شاعری اور یہ رومان بھری غزلیں کہیں خاندان کی رسوائی کا باعث نہ بن جائیں۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر رشیدہ عیاں کی شاعری کا سفر جاری تھا.
اسی دوران ان کی ایک خوبصورت غزل پٹنہ شہر سے نکلنے والے ایک اخبار ''ایمان'' میں اخبار کے ایڈیٹر کے ایک ستائشی نوٹ کے ساتھ شایع ہوئی جس نے رشیدہ عیاں کے شاعری کے سفر کو مزید تقویت دی تھی اور پھر ان کی شاعری کا یہ سلسلہ مزید بڑھتا چلا گیا تھا۔ جب یہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئیں تو ادبی حلقوں میں ان کی خوب پذیرائی ہوتی رہی۔ بڑے بڑے شاعروں نے ان کے اشعار کو سراہا اور مشاعروں میں ان کو خوب داد ملتی تھی۔
نامور شاعر رئیس امروہوی نے ان کی شاعری سن کر ان کی بڑی تعریف کی تھی اور ان کے روشن مستقبل کی نوید بھی دی تھی۔ ان کی شاعری بھی پھر خوب نکھرتی رہی اور ان کے اعزاز میں تقریبات بھی تسلسل سے ہوتی رہتی تھیں۔ مشہور ادبی شخصیات خاص طور پر شان الحق حقی، حمایت علی شاعر اور مشہور شاعر کلیم عاجزؔ کی بھی یہ بہت شکر گزار ہیں جنھوں نے ان کی شاعری پر اپنے گراں قدر خیالات سے ان کو نوازا تھا اور اس طرح ان کے حوصلوں کو رفتہ رفتہ توانائی ملتی چلی گئی تھی۔
رشیدہ عیاں کی شاعری میں جہاں جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے وہاں مشاہدات کے ساتھ فکری حسن کا دائرہ بھی بہت بسیط ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ان کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔
ساحل کے شانے ہیں بھیگے بھیگے سے
ان پہ سمندر سر رکھ کر رویا ہوگا
...٭...
اس کی یادوں کے جلاؤں گی چراغ
میرے گھر آج نہ آنا کوئی
...٭...
وہ ساتھ تھا تو مجھے وقت کا پتا نہ چلا
نہ ڈھونڈ مجھ کو مہ و سال کے حوالوں سے