سندھی زبان و ادب
1843ء میں برطانوی راج نے جب سندھ کو فتح کر لیا تو یہ علاقہ بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ بنا لیا گیا
سندھی زبان ایک انڈو آرین زبان ہے جو پاکستان کے عظیم صوبے سندھ کے 3کروڑ باسیوں کی ماں بولی ہے۔صوبہ سندھ میں اس زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے ۔صوبہ سندھ کے علاوہ یہ زبان بھارت میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد کی زبان ہے لیکن وہاں یہ ایک شیڈول زبان ہے۔سندھی زبان پاکستان میں عربی و فارسی رسم الخط میں تحریر کی جاتی ہے جب کہ بھارت میں اسے زیادہ تر دیو ناگری رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔
تاریخ میں اس زبان کا پہلا تذکرہ نیٹاشرا میں ملتا ہے جو 2سو سال قبل مسیح سے 2سو عیسوی کے درمیان ترتیب دیا گیا۔سندھی زبان کا سب سے پرانا مکمل مخطوطہ قرآنِ پاک کا سندھی ترجمہ ہے،جو 883عیسوی میں کیا گیا۔ سندھی زبان برصغیر کی وہ پہلی زبان ہے جس کا فارسی اور عربی زبان سے اس وقت رابطہ ہوا جب مغرب کی سمت سے فارس و عرب کے لوگ سندھ میں داخل ہوئے۔ اس بات کے بھی کافی ثبوت ملتے ہیں کہ سندھ کے لوگ اس وقت کی اسلامی حکومت کے دارالحکومت بغداد میں پہنچ کر خاص و عام کو سندھی صوفی اشعار سناتے تھے۔سندھی زبان موہنجو دڑو زمانے سے ہی سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کی طرف لکھی جاتی رہی ہے۔
زمانہء وسطیٰ میں سندھی زبان نے خوب ترقی کی۔اس دور میں شاہ عبداللطیف بھٹائی جیسے بڑے اور عظیم شاعر پیدا ہوئے۔برطانوی دور میں اس زبان کی ترقی جاری رہی۔1947میں آزادی کے بعد سندھی زبان خوب پھلی پھولی اور اس کے فروغ کے لیے کئی ادارے وجود میں آئے۔اسمٰعیلی فرقے کے گیارھویں صدی عیسوی کے مذہبی لٹریچر کی زبان تقریبا سندھی ہی ہے ۔
پیر نورالدین اسمٰعیلی نے اسی زبان میں لکھا۔ سندھی زبان کے معلوم ادب میں جن شعرائے کرام کا سب سے پہلے کام نمایاں ملتا ہے ان میں قاضی قدن )1493-1551)شاہ عنایت رضوی (1613-1701) ،شاہ عبدالکریم(1538 -1623) شامل ہیں۔یہ سب صوفی شاعر تھے اور انھوں نے اپنے زمانے کے ادب پر گہرا اثر ڈالا۔اس کے علاوہ کچھ قصے بھی بہت اہم رہے اور ان قصوں نے سندھی زبان و ادب کے فروغ میں بہت بڑا حصہ ڈالا جیسے سسی پنوں، سوہنی ماہینوال،نومل رانو،نوری جام طمانچو اور لیلاں۔
1843ء میں برطانوی راج نے جب سندھ کو فتح کر لیا تو یہ علاقہ بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ بنا لیا گیا۔اس کے تقریباً 5سال بعد1848میں سندھ کے اس وقت گورنر جاج کلارک نے سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا اس طرح صوبے سے فارسی کی تہذیبی اور ادبی برتری کا خاتمہ شروع ہوا۔سر بارٹل فریئر نے جو سندھ کے کمشنر تھے 21اگست1857کو ایک حکمنامے کے ذریعے سندھ میں تمام سرکاری اہلکاروں کو سندھی زبان میں پروفیشنسی ٹیسٹ پاس کرنے کی تلقین کی۔اس نے سرکاری کاغذات سندھی میں تیار کرنے کو ترجیح دی۔1868میں بمبئی پریزیڈنسی نے نارائن جگن ناتھ کو مامور کیا کہ وہ سندھی ابجد کو خدابادی رسم الخط سے بدل دے۔
اس کوشش سے سندھ کے مسلمانوں کی اکثریت کے اندر کافی ہیجان بپا ہوا جس کو دبانے کے لیے 12مرتبہ مارشل لاء لگانا پڑا لیکن آخر کارسندھی زبان کے رسم الخط میں ریفامز لانے کی بنا پر معاملہ طے ہوا۔یہیں سے ماڈرن سندھی زبان و ادب کا دور شروع ہوا۔1867میں محمدی پریس بمبئی نے سندھی زبان میں لکھی گئی مخطوطات کو پہلی دفعہ پریس میں چھاپا۔ان شائع شدہ مخطوطات میں محمد ہاشم ٹھٹوی کی تحریر کردہ اسلامی کہانیاں بھی شامل ہیں۔فی الحال ماڈرن سندھی ادب کو کسی دوسرے کالم کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔
تقسیم برِ صغیرکے بعد سندھی ادب دو دھاروں میں بٹ گیا۔پاکستان میں سندھی ادب اردو ادب سے تحریک لیتے ہوئے اور اردو ادب سندھی ادب سے مستعار لیتے ہوئے آگے بڑھنے لگا جب کہ بھارت میں بھی سندھی ادب کا فروغ جاری رہا لیکن اس پر ہندی ادب کی چھاپ گہری ہو جاتی رہی۔پاکستان میں 2017تک30.26 ملین افرادجو پاکستان کی کل آبادی کا 14.6فی صد ہیں،کی زبان سندھی ہے اور یہ ان کی فرسٹ لینگوئج ہے۔اس میں سے29.5فی صد آبادی صوبہ سندھ میں اور 0.66ملین بلوچستان کے کچھی، لسبیلہ،حب،صوحبت پور،جعفر آباد،جھل مگسی،استا محمد اور نصیر آباد میں رہتے ہیں۔
بھارت میں سندھی بولنے والے سب سے زیادہ گجرات اور مہاراشٹرا میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ راجستھا ن،مدھیا پردیش، چھتیس گڑھ،آندھرا پردیش حتیٰٰ کہ دہلی میں بھی کوئی تیس ہزار افراد کی زبان سندھی ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد سندھی زبان کو کافی فروغ حاصل ہوا۔سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد میں کہا کہ سندھ کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں سندھی کو ایک لازمی سبجیکٹ کے طور پر پڑھایا جائے۔ اسی طرح وزیرِ تعلیم سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے دورِ وزارت میں یہ بھی حکم دیا کہ تمام اسکولوں میں سندھی پڑھانے والے اساتذہ بھرتی کیے جائیں۔
اس طرح ان تمام اسکولوں میں جہاں میٹرک کروایا جاتا ہے، سندھی زبان لازمی ہے لیکن کیمرج اسکول آف سسٹم میں تعلیم دینے والے اسکولز اس سے مستثنیٰ ہیں۔بھارت کے اسکولوں میں سندھی ایک شیڈول زبان کا درجہ رکھنے کی وجہ سے ایک آپشنل زبان کے طور پر لی جا سکتی ہے۔سندھی معاشرے میں سیدوں اور پیروں کا بہت اثر و رسوخ رہا ہے۔شاعری میں بھی یہی لوگ ممتاز رہے ہیں۔پیر شمس سبزواری،پیر شہاب الدین اور پیر صدر الدین کو سندھی زبان کا اہم شاعر گردانا جاتا ہے۔
پیر صدرالدین اپنے وقت کے بڑے شاعر اور ولی تھے۔ انھوں نے گجراتی،پنجابی اور سرائیکی میں بھی لکھا۔ان کے زیادہ تر اشعار لاری اور کچھی لہجے میں ہیں۔شاہ عبدالطیف بھٹائی بلاشبہ سندھی زبان کے سرخیل شاعر ہیں۔آپ حالہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ہرات سے سندھ آنے والے کاظمی سیدوں سے ہے۔آپ کوٹری مغل میں پلے بڑھے۔20سال کی عمر میں گھر کو چھوڑ کر سندھ کے طول و عرض میں صوفیوں اور جوگیوں سے ملنے نکل کھڑے ہوئے۔تین سال کی سیاحت کے بعد لوٹے تو شادی ہو گئی لیکن آپ کی اہلیہ جلد ہی فوت ہو گئیں۔شاہ صاحب نے پھر کبھی شادی نہیں کی۔ان کے تقویٰ اور روحانیت کے سبب لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آئے۔ان کی نظموں اور اشعار کو ان کے عقیدت مندوں نے شاہ جو رسالو میں جمع کیا۔شاہ صاحب کی شاعری زیادہ تر مذہبی اور صوفیانہ ہے۔وہ مقامی فوک لور اور الٰہی محبت کو یکجا کرنے کے فن سے آشنا تھے۔
ان کی شاعری نغمگی سے بھرپور ہے اور گا کر پڑھنے کے لیے بہت موزوں ہے۔شاہ صاحب کی شہرت پاکستان اور پاکستان سے باہر چار دانگِ عالم پھیل چکی ہے۔بھٹ شاہ میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے،جہاں ہر رات آپ کی ابیات ذوق و شوق سے گائی جاتی ہیں۔یوں تو شعر موزوں کرنا بہت بڑا فن ہے اور ہر شاعر ہی لائقِ تحسین ہے لیکن جناب سچل سرمست سندھی زبان کے ایک اور ممتاز شاعر ہیں وہ تالپور عہد کے بڑے شاعر ہیں، ان کو شاعرِ ہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔سچل جو رسالو میں ان کا کلام جمع کیا گیاہے۔