حکمران اور جمہوریت کا پہلا اصول
یہ سچ ہے کہ حکمرانوں کے قصیدہ خواں کبھی سچ لکھ سکتے ہیں نہ وہ ضمیر کی آواز سننے کے لیے صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ حکمرانوں کے قصیدہ خواں کبھی سچ لکھ سکتے ہیں نہ وہ ضمیر کی آواز سننے کے لیے صلاحیت رکھتے ہیں۔ کسی حکمران کی سب سے بڑی بدقسمتی اور اس سے دشمنی یہ ہوتی ہے کہ اسے سچ بتانے کے بجائے صرف اس کی مداح کی جائے' اس کے منہ سے جو بات نکلے، اس پر واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جائیں۔ وہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ کسی بادشاہ نے ایک بار کہا کہ مجھے سبزیوں میں بینگن سخت نا پسند ہے' تو تمام درباریوں نے بینگن میں وہ برائیاں تلاش کرلیں جنھیں عام آدمی تو کیا حکماء سن کر سر پیٹ کررہ گئے۔
پھر ایک روز بادشاہ نے فرمایا کہ بینگن تو صحت کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے، اس لیے میں نے اسے کھانا شروع کر دیا ہے تو پھر کیا تھا، ان ہی درباریوں نے بینگن کے فوائد پر ایسے ایسے لیکچر دیے کہ انسانی عقل دنگ رہ گئی۔ یہ درباری کلچر آج بھی بغیر کسی وقفہ کے پروان چڑھ رہا ہے۔ حکمرانوں کی مداح کرنے والے قصیدہ خواں آج بھی کالے کو سفید اور سفید کو کالا قرار دینے کے لیے عقل و دانش کے ایسے گل کھلا رہے ہیں کہ بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ایسے ہی ذہین وفطین درباریوںکے مشورے کا نتیجہ سانحہ لاہور کی شکل میں رونما ہوا۔ اب بعض قلم کے مجاہد میدان میں آ گئے ہیں ، وہ حکومت کو درست مشورہ دینے کے بجائے اشتعال دلا رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس طرح طاہر القادری یا اپوزیشن والا معاملہ دب جائے گالیکن ایسا نہیں ہوگا۔
طاہر القادری، چوہدری پرویز الہیٰ یا عمران خان کی سیاست اور نظریات پر تنقید اپنی جگہ' ہر شخص اور لیڈر میں خامیاں موجود ہوتی ہیں، ان صاحبان میں بھی خامیاں موجود ہوں گی لیکن اگر ہم جمہوریت پسند ہیں اور جمہوری اخلاقیات و روایات پر یقین رکھتے ہیں تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس ملک میں مسلم لیگ ن کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے تو پھر دوسری سیاسی جماعتوں کے اس حق پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔اگر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے وقت میں لانگ مارچ یا جلسے کرنا اپنا جمہوری حق سمجھتی رہی ہیں تو پھر عمران خان ، طاہر القادری اور چوہدری برادران کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر طاہر القادری کینیڈا کا شہری ہے تو پاکستان میں کون بااثر لیڈر اور کاروباری ہے جس کے مفادات امریکا، کینیڈا، یورپ یا دبئی میں نہیں ہیں۔اس حمام میں تو سب ننگے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے گزشتہ چھ برس میں جس محنت سے کام کیا، سانحہ لاہور نے اسے دھندلا دیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس سانحہ کے بطن سے سیاسی طوفان جنم لینے والا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اسے ٹالنے کے لیے سیاسی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے نہ کہ مارنے کاٹنے کے بیانات دے کرصورت حال کو مزید گھمبیر بنایا جائے۔ درباری کسی حکمران کو نئی سوچ دینے کے اہل نہیں ہوتے، خصوصاً بیورو کریٹ تو ''یس سر'' کلچر کا نمایندہ ہوتا ہے۔ وہ حکمران کی بات کو کبھی غلط نہیں کہتا ہے، اگر حکمران بیورو کریٹ سے مشورہ مانگے تو وہ اسے بھی حکم سمجھ کر ''یس سر'' کہتا ہے اور جب کبھی حکمران پربرا وقت آئے اور بیورو کریٹ بھی ساتھ پھنس رہا ہو تو وہ دوسرے لمحے وعدہ معاف گواہ بن جاتا ہے۔
رہ گئے سیاسی حضرات تو ان میں سے کئی تو اپنی وزارت بچانے کے لیے خاموش رہتے ہیں جب کہ کچھ ڈیرے دار ذہنیت کے سیاستدان سیاسی بحران کا علاج یوں تجویز کرتے ہیں ''طاہر القادری کو ایک رات حوالات میں رکھا جائے تو انقلاب کی ہوا نکل جائے گی۔'' اس قسم کی سوچ اور نظریات جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے کا موجب بنتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن جیسے دور اندیشں، متحمل مزاج اور زمانہ شناس سیاست دان بھی طاہر القادری کے معاملے میں تعصب کاشکار نظر آتے ہیں۔ وہ بھی انھیں جیل میں ڈالنے کی بات کرتے ہیں۔ اس قسم کی سوچ ہماری سیاسی و جمہوری روایتوں کے زوال کی نشانی ہے۔مولانا فضل الرحمن کو شاید علم نہیں کہ جمہوری حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین کو جیل میں نہیں ڈالتیں بلکہ سیاسی میدان میں مقابلہ کرتی ہیں۔
وزیراعظم میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں موجود سیاسی انتہاپسندوں کے گھیرے سے نکلنا چاہیے۔ انھیں موجودہ سیاسی صورت حال پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا چاہیے۔ کوئی حکمران یا حکومت غلطی کوتاہی سے مبرا نہیں ہوتی، ہر حکمران غلطی کرتا ہے لیکن سیاسی فراست یہ ہوتی ہے کہ غلطی کا مداوا کیا جائے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے صاحبزادے ارسلان افتخار کو بلوچستان حکومت میں اہم ذمے داری سونپنا سیاسی غلطی تھی، اسی طرح سابق جسٹس خلیل رمدے کے صاحبزادے مصطفٰی رمدے کو پنجاب میں سرکاری عہدہ دینا بھی سیاسی غلطی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں صاحبان کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا پڑا۔
نجم سیٹھی کو پی سی بی کا سربراہ بنانا بھی سیاسی غلطی ہی ہے۔ یہ ایسی غلطیاں ہیں جن کا مداوا آسان تھا لیکن سانحہ لاہور کا مداوا آسان نہیں ہے۔ یہ بہت پیچیدہ اور حساس ایشو بن چکا ہے اور بدقسمتی سے حکومت غلطی پر غلطی کر رہی ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اس ایشو کو معمولی نہ سمجھیں۔ یہ بیان بازی سے حل ہوگا نہ انتظامی سختی سے۔جتنی سختی ہوگی معاملات اتنے ہی خراب ہوں گے۔ مستقبل کی سیاسی تحریک کی بنیاد یہی ایشو بنے گا، اس سانحہ نے چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو اکٹھا ہونے پر مجبور کیا ہے۔ آج طاہر القادری اور چوہدری برادران اکٹھے ہیں، وہ دن دور نہیں جب عمران خان بھی اس کے اتحاد کا حصہ بننے پر مجبور ہوجائیں گے۔
ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کو بھی کوئی نہ کوئی راہ لینی ہوگی۔ اس سیاسی بحران کو کچھ نہ سمجھنے والے بڑی غلطی پر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) سمجھ رہی ہے کہ پیپلزپارٹی اسے بچانے آئے گی لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کے لیے کچھ نہیں کر سکتی، وہ سندھ میں بھی دیہی سندھ تک محدود ہے، کراچی میں پیپلزپارٹی دو نشستوں والی جماعت ہے، یہاں ایم کیو ایم ہے۔ اے این پی پشتو بولنے والے انتہائی محدود طبقے کی نمایندہ ہے جب کہ مولانا فضل الرحمن خیبرپختونخواکے جنوبی اضلاع تک محدود ہے۔
یہ ساری جماعتیں متحد ہوکر بھی اتنا ہجوم اکٹھا نہیں کرسکتیں جتنا طاہرالقادری یا عمران خان کررہے ہیں۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اپنی سیاسی حکمت عملی ازسرنو تشکیل دینی چاہیے۔ انھیں طاہر القادری کے ساتھ سختی کے بجائے نرمی سے نمٹنا چاہیے۔ طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے اور چوہدری برادران سے بھی معاملات طے کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھانا چاہیے۔ عمران خان کا مسلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔ جمہوریت کا پہلا سبق صبر وتحمل اور پرامن بقائے باہمی کا اصول ہے۔ اگر آپ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو دوسرے کو بھی زندہ رہنے کا حق دینا ہو گا ورنہ پھر تم نہیں یا ہم نہیں کا کھیل کھیلا جائے گا اور پھر کون زندہ رہے گا یہ تو قدرت ہی جانتی ہے۔