شاہنواز پرنسپل اور مرد عجیب
کل رات کو تقریباً ہر ٹی وی چینل پر ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے دور حکومت کو ختم کرنے کے واقعات تسلسل سے بیان کیے
کل رات کو تقریباً ہر ٹی وی چینل پر ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے دور حکومت کو ختم کرنے کے واقعات تسلسل سے بیان کیے جا رہے تھے۔ پرانے سرکاری افسران اور سیاسی کارکن اپنے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں بھٹو کی شخصیت پر تفصیل سے روشنی ڈال رہے تھے۔پروگرام میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی تصویر بھی بار بار نظر آ رہی تھی۔ بھٹو کی المناک موت کے واقعات ہر شخص کے دل میں ہمدردی کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ بھٹو کے سیاسی خیالات اور طرز حکمرانی سے متفق ہو۔ یہ تمام واقعات ستر کی دہائی کے ہیں۔ جب میری جنریشن کے لوگ اسکول اور کالج میں زیر تعلیم تھے۔ اکثر کو سیاست اور اس کی پیچیدگیوں کا ادراک بھی نہیں تھا۔ مگر طالب علمی کے دور میں، مجھے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کا ایک ذاتی اور نایاب پہلو دیکھنے کا موقع ملا۔
کیڈٹ کالج حسن ابدال، میری دانست میں پاکستان کے چند معیاری درسگاہوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1972ء سے1977ء تک میں اس عظیم اسکول میں پڑھنے کا اعزاز رکھتا ہوں۔ ہمارے کالج کے پرنسپل کرنل این۔ڈی۔ حسن انتہائی فعال اور نظم و ضبط میں سخت گیر انسان تھے۔ اصول، ضابطہ اور میرٹ پر این۔ڈی۔ حسن نے کبھی بھی کوئی لچک نہیں دکھائی۔
ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے۔ میں نے صرف اخبار میں ان کی تصاویر دیکھی تھیں۔ ایک دن رات کو تقریباً آٹھ بجے تمام بچے ڈنر کے لیے میس جا رہے تھے کہ میرے ساتھ چلتے ہوئے میرے روم میٹ نے مجھے کہنی مار کر کہا کہ ہمارے آگے جو لڑکا جا رہا ہے، وہ وزیر اعظم کا بیٹا ہے۔ خیر ایک دو دن میں معلوم ہوا کہ وہ "عمر ونگ" میں رہتا ہے۔ یہ شاہنواز بھٹو تھا۔ وہ بالکل ہمارے جیسے کپڑے پہنتا تھا اور بالکل ہماری طرح عام طالبعلموں کی طرح زندگی گزار رہا تھا۔ کالج نے وقت کے وزیر اعظم کے بیٹے کے لیے ایک فیصد بھی امتیازی سلوک نہیں کیا تھا۔ وہی پی ٹی، وہی پریڈ، وہی میس اور ڈسپلن کی خلاف ورزی پر وہی کڑی سزا۔
آپ ملاحظہ فرمائیے کہ پرنسپل این۔ڈی۔ حسن نے شاہنواز بھٹو کو"عمر ونگ" میں الگ کمرہ تک نہیں دیا تھا۔آپ یقین فرمائیے کہ وزیر اعظم نے اپنے بیٹے کے لیے کسی قسم کی کوئی خصوصی رعایت طلب نہیں کی اور اگر وہ کرتے بھی، تو شائد کالج کے پرنسپل ان کی بات نہ مانتے۔کالج کے بالکل درمیان میں ایک گول گرائونڈ تھی۔ یہ آج بھی موجود ہے۔ کسی قسم کے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر وہاں طالبعلموں کو ایڈ جوٹنٹ سزا دیا کرتا ہے۔ یہ سزا کافی مشکل ہوتی تھی۔ ایک دن صبح کے وقت مجھے اور میرے روم میٹ کو کسی جگہ پانچ منٹ تاخیر سے پہنچنے پر "فرنٹ رول" کی سزا مل رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ بالکل میرے سامنے "شاہنواز بھٹو" کو بھی "فرنٹ رول" (زمین پر قلابازیاں) کی سزا دی جا رہی ہے۔
ایڈجوٹنٹ کھڑا ہوا وزیر اعظم کے بیٹے پر بالکل وہی سختی کر رہا تھا جو عام بچوں کے لیے مختص تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شاہنواز نے ایک جگہ سگریٹ پیے تھے اور اس کی تمباکو نوشی رپورٹ ہو گئی تھی۔ شاہنواز کے روم میٹ نے ہمیں بتایا کہ بھٹو صاحب اپنے بیٹے کو سرکاری گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر انھیں معلوم ہو جائے کہ شاہنواز وزیر اعظم ہائوس کی سرکاری گاڑی لے کر باہر دوستوں سے ملنے گیا ہے تو وہ واپسی پر اپنے بیٹے سے سخت خفا ہوتے تھے۔ کئی بار انھوں نے سرکاری گاڑی کے بے جا استعمال پر شاہنواز پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ شاہنواز بھٹو کی ایک سالگرہ اس دورانیے میں آ گئی جب وہ حسن ابدال میں پڑھ رہا تھا۔
مجھے آج تک یاد ہے ہم لوگ اکیڈیمک بلاک کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے۔ وزیر اعظم ہائوس کا ایک ویٹر انتہائی ادب اور احترام سے اسسٹنٹ وائس پرنسپل کے کمرے کے باہر کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک طشتری تھی جس پر ایک خط رکھا ہوا تھا۔ اکیڈیمک بلاک کے باہر ایک چھ دروازے والی کالی مرسیڈیز گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ اس دن شاہنواز کی سالگرہ تھی۔ ویٹر نے خط اسسٹنٹ وائس پرنسپل کے حوالے کر دیا۔ اس دن شائد ہفتہ تھا۔ مگر ویک اینڈ تمام طالبعلموں کے لیے بند تھا۔ وزیر اعظم نے اپنے ہاتھ سے تحریر شدہ خط میں پرنسپل سے درخواست کی تھی کہ آج ان کے بیٹے کی سالگرہ ہے لہذا اسے گھر آ کر اپنی والدہ اور بھائی بہنوں کے ساتھ سالگرہ منانے کی اجازت دی جائے۔ جب یہ خط پرنسپل کے پاس پہنچا تو انھوں نے انکار کر دیا اور بتا دیا کہ اس ویک اینڈ پر کوئی بھی طالب علم کالج سے باہر نہیں جاسکتا۔
جو گاڑی شاہنواز بھٹو کو لینے کے لیے آئی تھی۔ وہ بالکل اسی طرح خالی واپس چلی گئی۔ شام کو ہم لوگوں نے دیکھا کہ ایک انتہائی باوقار خاتون، دو بچیاں اور ایک لڑکا پرائیویٹ کپڑوں میں میس کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ خاتون نصرت بھٹو تھیں۔ اور بچیاں بینظیر اور ان کی ہمشیرہ تھیں۔ جس لڑکے نے کیک اٹھایا ہوا تھا وہ شاہنواز کا بڑا بھائی مرتضیٰ بھٹو تھا۔ ان کے ساتھ کوئی سرکاری ملازم یا ویٹر نہیں تھا۔ میس پہنچ کر شاہنواز اور ان کے روم میٹس کو اکٹھا کیا گیا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں اس کی والدہ اور فیملی نے کیک کاٹا۔ اس کمرے میں کوئی کرسی نہیں تھی۔ ٹیبل کے ہر طرف عام سے بنچ پڑے ہوئے تھے۔ تمام بچے میس میں اسی طرح کے بنچوں پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ خاتون اول اور ان کی فیملی نے اپنے لیے کرسی یا صوفہ یا کسی قسم کا آرام دہ کشن طلب نہیں کیا۔
یہ آدھ پون گھنٹے کی تقریب انتہائی سادگی سے منائی گئی۔ پرنسپل نے شاہنواز کو ویک اینڈ پر اپنے گھر جانے کی قطعاً اجازت نہیں دی۔ وزیر اعظم نے پرنسپل کے اس اختیار کو تسلیم کیا اور اس پر کوئی منفی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ہر والد کی طرح بھٹو کو بھی اپنی اولاد سے شدید محبت تھی۔ اس چیز کا مظاہرہ میں نے ایک بار سے زیادہ محسوس کیا۔ کالج میں صبح کے وقت ایک دن پی ٹی ہوا کرتی تھی اور ایک دن پریڈ۔ یہ معمولات تیس سے چالیس منٹ پر محیط ہوتے تھے۔ شاہنواز بھی ان تمام معمولات میں شامل ہوتا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت ہم لوگ پریڈ پر گئے جو کالج کی ایک عام سی روٹین تھی۔ تقریباً سات یا ساڑھے سات کا وقت ہوگا۔
شاہنواز بھی پیریڈ میں شامل تھا۔ ہم گرائونڈ میں کھڑے ہوئے تھے کہ اچانک وزیر اعظم بھٹو اور پرنسپل این۔ڈی۔حسن سیڑھیوں کے نزدیک آ کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ بھٹو صاحب نے سرمئی رنگ کا پینٹ کوٹ پہنا ہوا تھا اور بہت خوبصورت ٹائی زیب تن کی ہوئی تھی۔ وہ تقریباً دس منٹ وہاں کھڑے رہے۔ یہ تمام وقت ان کی آنکھیں اپنے بیٹے کو تلاش کرتے ہوئے اسی پر مرکوز رہیں۔ یہ اَمر نہ صرف میں نے محسوس کیا بلکہ ہمارے ہوسٹل کے کئی بچوں نے بھی اس طرز عمل کو نوٹس کیا۔ مگر وہ نزدیک جا کر یا علیحدہ ہو کر اپنے بیٹے سے نہیں ملے۔
یہ محبت کا فطری جذبہ ان میں ایک والد کی حیثیت سے موجود تھا مگر شائد وہ اس کا اظہار کم کرتے تھے۔ اس دوران وہ پرنسپل سے مسلسل گفتگو کرتے رہے۔ بھٹو میں ایک خاص وضع کی تمکنت اور وقار تھا۔ اسی طرح ایک بار ان کے لیے کالج کے کھیلوں کے میدان میں ہیلی پیڈ بنایا گیا۔ وہ کسی شادی کی تقریب میں شمولیت کے لیے آئے تھے۔ کوئی دوپہر کو تین بجے کے قریب ہم تمام اسٹوڈنٹس کالج کی سڑکوں پر تھے۔ کہ ایڈجوٹنٹ نے کہا کہ ہم سڑک استعمال نہ کریں۔ بلکہ قطار بنا کر کنارے پر کھڑے ہو جائیں۔ وزیر اعظم کی گاڑی گزرنے کا مجھے بالکل علم نہیں ہوا۔ جب وزیر اعظم ہیلی کاپٹر میں چلے گئے تو کچھ بچوں نے قطار توڑ کر گرائونڈ کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔
ہیلی کاپٹر فضا میں جا چکا تھا۔ جب بھٹو نے بچوں کو ہیلی پیڈ کی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے ہیلی کاپٹر کو گرائونڈ کی طرف نیچے کروایا۔ مجھے یاد ہے انھوں نے اپنا بازو باہر نکال کر تمام بچوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد ہیلی کاپٹر دوبارہ فضا میں بلندی پر چلا گیا۔ شاہنواز بھٹو چند ماہ کیڈٹ کالج حسن ابدال رہنے کے بعد وہاں سے چلا گیا۔1977ء میں دنیا تبدیل ہو گئی۔ میرا کسی سیاسی پارٹی کی طرف کوئی ذہنی جھکائو نہیں ہے۔
میں عملاً سیاست اور سیاستدانوں سے کوسوں میل دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں بھٹو کے متعلق کوئی حتمی بات کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں۔ ان کی شخصیت کے متعلق مثبت اور منفی دونوں رجحانات پائے جاتے ہیں۔ دونوں اطراف کے پاس اپنی اپنی دلیلیں ہیں۔ سچ کیا ہے! میں نہیں جانتا! یا شائد جاننا نہیں چاہتا! میرے جیسے طالبعلم کی دانست میں وہ ہماری سیاست کا ایک دیو مالائی کردار تھا! ایک حیرت انگیز شخص! شائد ہمارے عہد کا سب سے عظیم مرد ِعجیب!