مقدر میں صرف ٹھوکریں

کسی گاؤں میں مردوں کی بے حرمتی کی جاتی تھی کچھ لوگ رات کی تاریکی میں قبرستان میں آتے ،


فاطمہ نقوی July 08, 2014
[email protected]

کسی گاؤں میں مردوں کی بے حرمتی کی جاتی تھی کچھ لوگ رات کی تاریکی میں قبرستان میں آتے ، مردوں کو قبروں میں سے نکال کر باہر پھینک جاتے تھے گاؤں کے لوگ بہت پریشان تھے بہت سی تدابیر اختیارکی گئیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا ، مگر ہوا یہ کہ اچانک کچھ عرصے کے لیے یہ سلسلہ رک گیا تو لوگ بہت خوش ہوئے مگر شیطانوں کو ان کی یہ خوشی ایک آنکھ نہ بھائی پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا مگر اب لگتا تھا کہ کوئی دوسرا گروپ آگیا ہے کیونکہ نئی بات یہ ہوئی کہ اب مردوں کو نکال کر پھینکنے کے ساتھ ساتھ ان کا کفن بھی چرالیا جاتا تھا۔ اس وجہ سے پہلے گروپ کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوا۔

گاؤں کے لوگوں نے پہلے والوں کو یاد کرنا شروع کیا کہ اس گروپ سے تو وہ لوگ اچھے تھے جو کفن تو نہیں چراتے تھے یہ نئے والے تو بہت ظالم ہیں کفن بھی چرا لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا پھر کچھ عرصے کے بعد قبرستان میں نئی حرکت یہ ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ اب قبرستان کسی نئے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ہے کیونکہ اب قبروں سے مردوں کو نکالنے کے ساتھ ساتھ کفن تو چوری ہوا ہی مگر مردوں کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ اب گاؤں کے لوگ دوسرے گروپ کو یاد کرنے لگے کہ کفن تو چراتے تھے مگر لاشوں کی بے حرمتی تو نہیں کرتے تھے۔ عام لوگوں کو جمہوریت، آمریت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا انھیں تو اشیائے صرف کی قیمتوں سے فرق پڑتا ہے۔

مشرف دور میں بے شمار اشیا انتہائی ارزاں نرخوں پر باآسانی دستیاب تھیں جس کی وجہ سے غریب طبقہ اپنی روز مرہ ضروریات کو باآسانی پورا کرلیتا تھا 7/8 سال پہلے گھی 65 روپے اور آٹا 16 روپے کلو تھا۔ زرداری کے جمہوری دور میں صورت حال کچھ تبدیل ہوئی مگر اس طرح کی صورت حال کا جب بھی سامنا نہیں تھا مگر اب تو یہ صورتحال ہے کہ جن لوگوں کی ماہانہ آمدنی 20/25 ہزار ہے وہ بھی اپنی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اور زکوٰۃ کے مستحق ہیں اگر ایک گھر میں 5/6 افراد موجود ہیں تو صرف کھانے کے ماہانہ مد میں یہ رقم ناکافی ہے۔

سونے پہ سہاگہ ٹی وی شوز پر کوکنگ پروگرامز ہیں جن پر جس طرح انواع و اقسام کے کھانوں کی تراکیب بتائی جاتی ہیں اور کچن میں سامان کی افراط دکھائی جاتی ہے کروڑوں عوام اس سے محروم ہیں وہ یہ سب دیکھ کر احساس محرومی میں مبتلا ہوتے ہیں اور کچے ذہنوں کے اکثر نوجوان بلکہ اب تو ان میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے اس طرح کی معاشرتی ناانصافی کو دیکھ کر جرائم کی طرف مائل ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اپنا حق چھین لینے میں ہی بہتری سمجھتے ہیں رمضان کا مقدس مہینہ چل رہا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں عبادات اور اخلاقیات کا اجر اللہ پاک نے دو گنا قرار دیا ہے مگر اس مقدس مہینے میں ایثاروقربانی کو بھول کر تاجر طبقے نے کمائی کا دھندا بنالیا ہے پورے سال کی کمائی وہ صرف اس مہینے میں کما لیتے ہیں۔

دنیا بھر میں مذہبی تہواروں پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی کردی جاتی ہے تاکہ ملک میں رہنے والے عام افراد بھی خوشیوں سے محروم نہ رہیں مگر یہ صرف مملکت پاکستان میں ہے مذہبی تہواروں پر بھی چوگنی سے بھی زیادہ قیمتیں وصول کی جاتی ہیں جو لوگ تین وقت کا کھانا نہ کھاسکتے ہوں وہ افطاری اور سحری کا اہتمام کیسے کریں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ مخیر حضرات دل کھول کر مالی امداد کرتے ہیں راشن اور دوسری اشیا کی تقسیم کرتے ہیں مگر اس سے مستفید وہی لوگ ہوتے ہیں جوکہ مانگ تانگ کر اپنا گزارا کرتے ہیں یا جو اس قسم کی امداد لینا گوارا کرلیتے ہیں مگر ایک وہ گھرانہ جو سفید پوش ہے اس کا ایک نام ہے تو ایسے گھر کی خواتین کس طرح سے اس راشن کو لینے دھکم پیل میں اپنے گھروں سے نکلیں گی ۔

متوسط طبقے کی امداد کے لیے کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔ بچت بازاروں کا اعلان تو ہوتا ہے کچھ جگہ پر یہ بچت بازار لگتے بھی نظر آتے ہیں مگر عام بازار اور بچت بازار کی قیمتوں میں نمایاں فرق نظر نہیں آتا اور اشیا بھی دو نمبر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان بازاروں کی افادیت نظر نہیں آتی۔ اس وقت اشیا کی گرانی کا یہ عالم ہے کہ اچھے بھلے گھرانوں میں بھی فروٹ خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے لوگوں کے گھروں سے وہ افطاری اور سحری کی رونقیں ختم ہوگئی ہیں بہت عرصہ نہیں گزرا کچھ عرصہ پہلے تک یہ رونقیں بحال تھیں۔

خواتین خوشی خوشی اپنے گھر والوں کے لیے مختلف پکوان تلنے، میٹھا بنانے اور دسترخوان کی رونقیں بڑھانے کے لیے دوپہر سے ہی باورچی خانے کو رونق بخشتی تھیں۔ اپنے ساتھ ساتھ محلے کے دو چار گھروں میں بھی افطاری پہنچانے کا اہتمام ہوتا تھا محلے کی مسجد میں بھی افطاری کے خوان بچے بڑے جوش وخروش سے لے کر جاتے تھے مگر اس نام نہاد جمہوری دور میں تو صاحب خانہ اپنے بیوی بچوں سے ہی آنکھیں چراتے ہیں ابھی ایک دو دن پہلے ایک عزیز کے شام میں جانا ہوا، افطار کا وقت قریب تھا انھوں نے بصد اصرار روک لیا مگر دسترخوان پر کھجوریں، شربت اور سادہ کھانا تھا، ہمارے عزیز نے بتایا کہ کولیسٹرول کی وجہ سے کھانے میں سادگی ہے مگر ہمیں بچوں کی صورت دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ معاملہ کچھ اور ہے افسوس ہمارے دسترخوان سمٹ گئے ہیں۔

لوگوں کی قوت خرید کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوگئی ہے یا تو کچھ نہیں ہے یا پھر ایک ایسا طبقہ موجود ہے جس کے پاس بہت کچھ ہے مگر اسے ان محروم لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں متوازن غذا کھائیں بیماریوں کو بھگائیں مگر جہاں سیب دو سو روپے کلو، آم 100 روپے کلو اور گوشت گائے کا 500 روپے کلو ہوگا وہاں غریب آدمی کھانا ہی کھالے تو بڑی بات ہے ۔

اس ملک کے وزیر خزانہ کے لیے گراں قدر صحافیوں کی رائے ہے کہ ہر وقت باوضو رہتے ہیں اور درود شریف کا ورد ہر وقت نوک زباں پر رہتا ہے مگر کیا کبھی وزیر خزانہ، وزیر خوراک، وزیر تعلیم نے کبھی دل سے ان لوگوں کا درد محسوس کیا؟ عام آدمی کی بھلائی کے لیے کوئی ریلیف بنایا؟ غریبوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے مگر سرمایہ دار کی تجوریاں عمروعیار کی زنبیل کی طرح بھرتی جا رہی ہیں مگر ان کا پیٹ نہیں بھر رہا۔

بلوچستان میں دنیا کی پانچویں سونے کی کان موجود ہے اگر ایمان داری اور ملک کی خدمت کے جذبے سے کام لیا جائے تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے مگر اب وقت آگیا ہے کہ عوام ایسے حکمرانوں، سیاست دانوں سے چھٹکارا حاصل کریں جوکہ الفاظ کے گورکھ دھندوں سے انھیں ہپناٹائز کردیتے ہیں اور اپنے مفادات نکالتے ہیں۔ خیبرپختونخوا ہو یا پنجاب، سندھ ہو یا بلوچستان ہر جگہ عام آدمی ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اس کے نصیب میں نہ متوازن غذا ہے نہ صاف پانی نہ علاج معالجہ، اگر ہیں تو صرف ٹھوکریں مقدر میں ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے ڈرنے کی بات یہ ہے کہ ایسے معاشرے جہاں وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہو وہاں تباہی مقدر بن جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں