بلی کی جسامت کے چوہے

گلی کوچوں میں دندناتے ہوئے بڑی جسامت کے چوہوں نے مکینوں کو خوف زدہ کردیا ہے۔


Nadeem Subhan July 07, 2014
برطانوی سائنس داں اب سترہ کاؤنٹیوں میں بلی کی جسامت کے چوہوں پر ’ نظر ‘ رکھے ہوئے ہیں فوٹو : فائل

ISLAMABAD: برطانیہ میں بڑی جسامت کے چوہوں نے دہشت پھیلارکھی ہے جن پر عام چوہے مار زہر اثر نہیں کرتا۔

مختلف علاقوں میں بلی کی جسامت کے کئی چوہے بھی مارے گئے ہیں۔ برطانوی باشندوں کے لیے تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان چوہوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مختلف کاؤنٹیوں کے گلی کوچوں میں دندناتے ہوئے چوہوں نے مکینوں کو خوف زدہ کردیا ہے۔

دو ماہ قبل کورن وال کے علاقے میں دو فٹ لمبا چوہا پکڑا گیا تھا جب کہ کینٹ اور لیورپول میں بھی قوی الجثہ چوہے دیکھے گئے ہیں۔ خوف و دہشت کی گہری ہوتی فضا نے سائنس داں برادری کو بھی مجبور کیا کہ وہ ملک میں چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے زہر سے محفوظ و مامون ہونے کے بارے میں تحقیق کرے۔



سائنس داں اب سترہ کاؤنٹیوں میں بلی کی جسامت کے چوہوں پر ' نظر ' رکھے ہوئے ہیں اور ان پر تجربات بھی کررہے ہیں۔ ہڈرسفیلڈ یونی ورسٹی کے ماہرین نے کنگ سائز چوہوں پر جینیاتی تجربات کیے ہیں جن سے پتا چلا ہے کہ ان کے جینز میں ایسی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جن کی وجہ سے چوہوں میں مختلف قسم کے روایتی زہر کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی ہے۔

محققین نے یہ تجربات برکشائر، سفوک، سرے، ولٹشائر، ہمپشائر اور کینٹ کاؤنٹیوں سے پکڑے جانے والے چوہوں پر کیے تھے۔ شارپشائر اور ساؤتھ گلوسیسٹرشائر میں پائے جانے والے چوہوں میں روایتی زہر کے خلاف کم مزاحمت پائی گئی۔ ان میں مزاحمت کی شرح بالترتیب 33 اور 50 فی صد تھی۔

کنگسٹن میں پائے جانے والے چوہوں کی اوسطاً 30 فی صد تعداد روایتی زہر سے مکمل طور پر محفوظ و مامون پائی گئی۔ اسی طرح شیفلڈ کے 40 فی صد اور ساؤتھمپٹن کے 75 فی صد چوہوں میں زہر کے خلاف مکمل مزاحمت پیدا ہوچکی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چوہوں کو مارنے کے لیے ساٹھ برس سے ایک ہی طرح کے زہر استعمال کیے جارہے ہیں، اسی لیے وقت کے ساتھ ساتھ ان جانوروں میں ان کے خلاف مزاحمت پیدا ہوتی چلی گئی، اور اب یہ زہر بالکل بے اثر ہوچکے ہیں۔

رواں برس کے آغاز پر کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ میں چوہوں کی آبادی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور ممکنہ طور پر اگلے برس تک ان کی تعداد انسانوں سے بھی بڑھ جائے گی۔ گذشتہ دنوں ایک برطانوی ٹیلی ویژن چینل پر چوہوں کی یلغار کے بارے میں رپورٹ بھی دکھائی گئی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بلی کی جسامت کے چوہے نہ صرف املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے انسانوں میں مختلف بیماریاں بھی پھیل سکتی ہیں۔ ان بیماریوں میں '' ویل کا مرض '' بھی شامل ہے جس کی علامات شروع میں فلو جیسی ہوتی ہیں مگر آگے چل کر یہ مرض یرقان اور گردوں کے بیکار ہونے کا سبب بنتا ہے۔

چوہوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے خدشات جنم لے رہے ہیں کہ کہیںیہ کسی وبا کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن جائیں۔ واضح رہے کہ اگست 1854ء میں لندن میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی جس کے نتیجے میں چند روز کے دوران 600 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ متاثرہ علاقوں سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نقل مکانی کرگئی تھی۔ یہ لندن میں ہیضے کی وبا پھوٹنے کا بدترین واقعہ تھا۔ اگرچہ اس کا سبب چوہے نہیں بلکہ آلودہ پانی تھا، مگر عام افراد کے ساتھ ساتھ ماہرین صحت بھی ان خدشات کا اظہار کررہے ہیں چوہوں کی وجہ سے وہ کسی وبا کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔



محقق ڈاکٹر ڈگی کلارک کا کہنا ہے کہ روایتی زہر ان بڑی جسامت کے چوہوں پر بے اثر ہوچکے ہیں اور طاقت ور زہر صرف پیشہ ورانہ سطح پر استعمال ہوسکتے ہیں، ان کے عام استعمال کے لیے حکومت سے خصوصی اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت نے چوہوں سے نمٹنے کے لیے اب تک کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی جس کی وجہ سے صورت حال کے سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔

ایک سرکاری عہدے دار کے مطابق چوہے مار زہر سے متعلق حکومتی پالیسی پر سال کے آخر تک نظر ثانی کیے جانے کی توقع ہے۔ اس ضمن میں سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کیوں کہ طاقت ور چوہے مار زہر سے پرندوں اور دوسرے جانوروں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ برطانیہ کے کچھ علاقوں میں ایک سال کے دوران چوہوں کی تعداد دگنی ہوگئی ہے۔ اور ماہرین کا خیال ہے کہ سال کے اختتام تک ان کی آبادی آٹھ کروڑ سے بڑھ کر سولہ کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ چوہے مرطوب علاقوں میں پروان چڑھتے ہیں۔ اس لحاظ سے برطانیہ ان کی افزائش نسل کے لیے موزوں خطے کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ یہاں سال کے بیشتر حصے میں موسم مرطوب اور سرد ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں