علامہ اقبال نے رات گئے ' اپنے ملازم کے دروازے پر دستک دی۔ نوکر ہڑبڑاتا ہوا اٹھا اور پوچھنے لگا کہ جناب خیریت ہے۔علامہ نے حد درجے دھیمے لہجے میں اسے کہا کہ باہر جاؤ اور یخ ٹھنڈی لسی لے کر آؤ۔ نوکر نے برتن کے لیے باورچی خانے کی طرف جانے کی کوشش کی تو علامہ نے اپنے ہاتھ سے ایک صاف ستھرا برتن دیا۔ یہ بھی کہا کہ حد درجے اہم مہمان آئے ہوئے ہیں۔ لہٰذا لسی لانے میںتاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ملازم کے ذہن میں متعدد سوالات تھے۔یہ مہمان کون ہیں؟ اور اس وقت ٹھنڈی لسی کہاں سے ملے گی ۔
کیونکہ دکانیں تو ساری بند ہو چکی ہیں۔ برتن لے کر گھر سے باہر نکلا اور تھوڑا سا آگے چلا تو اسے ایک دہی اور لسی کی پرانی سی دکان نظر آئی ۔ ملازم حیرت زدہ رہ گیا کیونکہ یہ دکان اس وقت سے پہلے اس نے کبھی بھی نہیں دیکھی تھی ۔ بہر حال دکاندار سے کہا کہ برتن لے لو اور یخ بستہ لسی فراہم کرو۔ ذائقہ بھی بہتر ہونا چاہیے کیونکہ آج ہمارے گھر میں کچھ خاص مہمان آئے ہیں۔ دکان دار نے بڑے قرینے سے لسی بنائی اور برتن کو لبالب بھر دیا ۔ ملازم نے معاوضہ دینے کی کوشش کی تو جواب دیا کہ ہمارا اقبال کا حساب چلتا رہتا ہے۔ نوکر یہ بات سن کر حیران رہ گیا کہ اس دکاندار کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ علامہ اقبال کے گھر سے آیا ہے۔
پریشانی سے واپس مڑا اور گھر تک پہنچ گیا۔ اقبال نے حکم دیا کہ اب تم جاؤ اور اپنے کمرے میں بیٹھ جاؤ ۔ علامہ خود باورچی خانے میں گئے اور گلاس لے کر اپنی بیٹھک میں چلے گئے ۔ مہمانوں کو لسی پلائی ۔ اس اثناء میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا ۔ مہمان رخصت ہوئے تو علامہ نے نوکر کو دوبارہ جگایا کہ ذرا اندر سے کنڈی لگا لو۔ ملازم تجسس کی وجہ سے سویا نہیں تھا بلکہ کروٹیں بدل رہا تھا۔ حکم ملنے پر یکدم باہر آیا اور کواڑ بند کرنے کے بجائے گلی میں مہمانوں کو دیکھنے کے لیے باہر چلا گیا ۔ راستے میں اسے کوئی نہ ملا مگر ایک عجیب سی خوشبو محسوس ہوئی جو پہلے گلی میں کبھی بھی موجود نہیں تھی۔ دکان کی طرف گیا تو حیرت سے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ کیوں کہ وہاں کوئی بھی دکان موجود نہیں تھی۔ یہ وہی دکان تھی جہاں سے اس نے خود لسی بنوائی تھی۔ حد درجے پریشانی کے عالم میں ملازم واپس آیا ۔
علامہ ابھی سوئے نہیں تھے ۔ بیٹھک میں تشریف فرما تھے۔وہی خوشبو جو باہر گلی میں محسوس ہوئی وہ اب پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ملازم سے رہا نہ گیا اور علامہ سے اصرار کر کے پوچھا کہ جناب یہ مہمان کون تھے ۔ یہ بھی بتایا کہ جس دکان سے وہ لسی لے کر آیا تھا وہ دکان بھی اب موجود نہیں ہے۔علامہ خاموش ہو گے۔ نوکر ضد کرتا رہا کہ حضور کچھ تو فرمائیے۔علامہ نے قسم دی کہ میں تمہیں بتا تو دیتا ہوں لیکن میری زندگی کے اندر یہ بات کسی کو نہیں بتانی ہے۔ میرے مرنے کے بعد تم یہ گفتگو آشکارہ کر سکتے ہو۔علامہ نے حد درجے ادب سے ملازم کو بتایا کہ جو معزز مہمان تشریف لائے تھے ۔
وہ خواجہ غریب نواز تھے اور جو بزرگ تمہیں لسی کی دکان پر ملے وہ علی ہجویری تھے۔ ملازم نے اپنے وعدے کی پاسداری کی اور علامہ کی زندگی میں یہ حد درجے اہم بات کسی کو نہیں بتائی۔ مگر اقبال کے فوت ہونے کے بعد بہر حال اس نے یہ راز افشاں کر دیا۔
معاملہ یہ ہے کہ اقبال عاشق رسول اور قرآن کے طالبعلم تو تھے ہی۔ مگر ان کے وجدان کی کیفیت کے واقعات بہت کم سننے کو ملتے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے علامہ زارو قطار رویا کرتے تھے ۔ ان کے آنسوؤں سے قرآن مجید کے مقدس اوراق بھیگ جاتے تھے اور کئی جگہ پر کاغذ پھول جاتا تھا۔یہی کیفیت رسول کریم ﷺ کے نام سننے پر طاری ہو جاتی تھی۔ جہاں بھی آقا ﷺ کا ذکر ہوتا تھا' علامہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیتے تھے۔
یہ سب کچھ عرض کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم علامہ اقبال کی آفاقی شاعری سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ ہومر سے لے کر مختلف زبانوں کے متعدد شعراء کو پڑھ چکا ہوں ۔ برصغیر کے استاد شعراء بھی نظر سے گزرے ہیں ۔ مگر جو شاعری حضرت علامہ اقبالؒ کے قلم سے آشکارا ہوئی وہ حد درجے غیر معمولی ہے ۔ یہ محیرالعقول کام جذبے اور عشق کا وہ ملاپ ہے جو پڑھنے والے کا دل چیردیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال کے کلام میں اتنی گہرائی اور خوشبو کیسے آئی ۔
طالب علم ہرگز اس قابل نہیں کہ اس اہم سوال پر جواب تسلی بخش طریقے سے دے پائے ۔ مگرمعلوم یہ ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیمات اور آقا ﷺ کے عشق نے علامہ کے ذہن کو اس قدر وسعت دے دی تھی جس کا کوئی شاعر تصور تک نہیں کر سکتا۔ آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی شاعری آفاقی بھی ہے اور ہم جیسے گنہ گاروں کے لیے تازینہ کی مانند بھی ہے ۔ ذرا شکوہ یا جواب شکوہ اکیلے بیٹھ کر پڑھیئے ۔ آج بھی انسان پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ علامہ پر شاعری خدا کی وہ دین ہے جس کو سمجھنا اور سلجھانا حد درجہ مشکل ہے ۔ ان کی شاعری نے امت مسلمہ کو وہ سمت دی جو اسے غلامی کی زنجیروں سے آزاد کر سکے۔
بڑی ہمت کر کے جواب شکوہ کے چند لازوال قطعے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
پیر گردوں نے کہا سن کے کہیں سے کوئی!
بولے سیارے' سر عرش بریں ہے کوئی!
چاند کہتا تھا' نہیں ' اہل زمین ہے کوئی!
کہکشاں کہتی تھی' پوشیدہ یہیں ہے کوئی!
کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انسان سمجھا!
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا!
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا!
تا سر عرش بھی انسان کی تگ و تاز ہے کیا؟
آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟
غافل آداب سے سکان زمین کیسے ہیں!
شوخ و گستاخی یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں!
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے؟
عالم کیف ہے' دانائے رموز کم ہے
ہاں' مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشک بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ ترا
شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تونے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تونے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں' کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہرومنزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے' جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
قیامت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حالت آج بھی اتنی ہی دگر گوں ہے جو آج سے کئی صدیاں پہلے تھی ۔ وہی فرقہ پرستی ' وہی غلامی کی عادات ' وہی ظلم اور جبر کے سامنے سر جھکانے کی خو اور وہی عصر حاضر کے علوم سے جہالت کی روایت ۔ صاحب صرف تکلیف ہوتی ہے بلکہ شدید تکلیف ہوتی ہے۔