وزارت خزانہ نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ آٹھ ہزار 5 سو ارب روپے قرض لینے کا پروگرام طے کر لیا گیا ہے۔ پاکستان نے جب سے اپنے منصوبوں اپنی اقتصادی بحالی کے پروگراموں اپنی معیشت کی ترقی، اپنی خوشحالی، غریب مفلوک الحال عوام کی غربت دورکرنے کے لیے قرض لینے کو اپنا مقدر سمجھ لیا ہے اور اپنے وسائل، اپنی زمینوں، اپنے محنت کشوں، اپنے صنعت کاروں، اپنے تاجروں کے لیے آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے اپنی زمینوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے پروگرام پر عمل کرنے کے بجائے، اپنے ان پڑھ یا پڑھے لکھے افرادی قوت پر انتہائی معمولی سرمایہ کاری، ان کی فنی تربیت کرنے، ملکی ترقی میں ان کو استعمال کرنے کے بجائے یا ان کو باآسانی بیرون ملک ملازمت دلوانے اور زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ ملک میں لانے کا پلان بنانے کے بجائے۔
اس طرح بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنی زمینوں، کھیتوں، کھلیانوں، چھوٹی بڑی پہاڑیوں، ندی نالوں، اپنے کروڑوں نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے بجائے صرف اور صرف قرض کے حصول کی راہ اپنانے لگیں تو اس سے ہم پر مزید قرض کا بار بڑھتا ہی چلا جائے گا اور اس طرح قرض کا بار جب بار بار بڑھتا ہی چلا جائے تو یہ راستہ یہ منزل ترقی کی طرف نہیں جاتی۔ ہم معاشی ترقی کے مثبت اشاریوں سے نکل کر شرح افزائش کے منفی عدد کی جانب بھی گئے اور واپس بھی آئے۔ دیگر ملکوں کی طرح اب ہمارے لیے شرح ترقی کا حصول 5 یا 6 فی صد یا 7 فی صد اب خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔
1960 کی دہائی میں ہماری شرح ترقی 10 فی صد تک بھی چلی گئی تھی تو اس کی بنیاد قرض گیری نہیں تھی۔ قرض سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس قرض کے بار کو ہر بار کم سے کم کرنا ہوگا۔ ایک غیر ملکی بینکر نے کبھی کہا تھا، یعنی چارلس کالنزکہتا ہے کہ فیڈرل ریزرو قرضوں کو بڑھا رہا ہے، وہ قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے بھی قرض لیتا ہے۔ اس سے ہم قرضوں سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔
ہم نے اپنا نظام زرکہ وہ بینکوں سے مل کر قرض پر قرض لیتا ہے پھر اس پر سود چڑھتا چلا جاتا ہے پھر اس کی ادائیگی کے لیے دو چار قرض لیتا ہے اور یوں ہم غیر محسوس طریقے سے کساد بازاری سے نکل کر شدید ترین کساد بازاری کی جانب تیزی سے جا رہے ہیں۔ آگے چل کر یہ راستہ خدانخواستہ ڈیفالٹ کی طرف بھی جاسکتا ہے۔
کسی زمانے میں قرض لینا بری بات تھی آج کے دور میں قرض لینا ضروری سمجھا جاتا ہے، لیکن اس ضروری کے لیے یہ ضروری اور لازمی سمجھا جائے کہ قرض لے کر وسائل کو ترقی دے کر اور اس قرض کا خوبصورتی سے استعمال کر کے اسی قرض سے سود اور قسطیں اور آخر میں اس قرض سے کئی سو گنا زیادہ کما کر اس قرض کو پورا کا پورا ادا کر دیا جائے۔ پھر تو سمجھ آتی ہے کہ قرض لینے کی بہترین پلاننگ کی گئی ہے۔
پاکستان جتنے بھی ذرایع سے قرض لے رہا ہے، ان سب پر سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض، قرضوں کی قسط ادا کرنے کے لیے مزید قرض اور پھر بھی طویل عرصہ گزرنے کے بعد یہ آشکار ہوتا ہے کہ یہ قرض تو وبال جان ہی بن گیا ہے یا بن گیا تھا، لہٰذا اس سے جان چھڑانے کے لیے مزید قرض لیا جائے اور پھر اس دوران بہت سی حکومتیں آئیں اورگئیں اور قرض لیتی چلی گئیں۔ قرض لینے والوں میں حکومتی عمال کا نام حکومت کا نام اس وقت کی حکومت کا ذکر ہوتا جوکہ قرض لیتے اور اپنا وقت پورا کرتے اور چلتے بنتے۔ اور جب بھی قرض کا کھاتہ کھولا جاتا ہے تو قرض ادائیگی کے ذمے دار کے طور پر پاکستانی عوام کا نام لکھا ہوتا۔ اب پاکستانی عوام اس قرض کو کیسے چکائے۔ اس کے لیے بجلی مہنگی سے مہنگی ہو رہی ہے،گیس کے نرخ بڑھتے چلے جا رہے ہیں، ملک میں مہنگائی کا گراف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اب کراچی والوں کے لیے بجلی مزید مہنگی کرنے سے متعلق ایک اخباری رپورٹ کے مطابق نیپرا نے کراچی کے صارفین کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 5.75روپے فی یونٹ مہنگی کردی، اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کردیا اور یہ مئی جون کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی مہنگی کی گئی ہے۔ مئی کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 2.59 روپے فی یونٹ اور ماہ جون کے لیے جوکہ گزر چکا ہے مئی اور جون اس کے لیے جون کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 3.16 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کی گئی ہے۔ اب کیا ہوگا؟ تسلی رکھیں صارفین پر اتنا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ وصولی اکتوبر اور نومبر کے بلوں میں ہوگی۔ جانے بھی دو بھائی بخش دو۔ ماہ مئی اور جون گزر چکا۔ اب بھی پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔
بھائی بھائی کو زخمی کر رہا ہے کہ بل ادا کرنے کے لیے پیسے دو۔ ماں اپنے علاج کے پیسے دے کر بل ادا کر رہی ہے اور ملک بھر میں ایسے بہت سے واقعات ہو رہے ہیں، جن کی کوئی رپورٹ درج نہیں ہو رہی۔ قرض حاصل کرنے کی شان میں جو لکھا یہ سب کچھ اسی قرض کی وجہ سے ہو رہاہے۔ نہ آئی ایم ایف سے اتنا زیادہ قرض لیتے نہ ان کے دام میں آتے نہ قرض دینے والے ملکوں کے احکام مانتے نہ ہی آئی پی پیز سے مہنگے سودے کرتے اور نہ یہ دن دیکھنے پڑتے کہ اب وہ صنعت کار جو پہلے پاکستان کو جنت سمجھتا تھا یہاں کی عیش و عشرت کی زندگی ہر طرف نوکر چاکر، گاڑیوں کی قطاریں، معاشرے میں عزت و احترام کو چھوڑ کر اب جا رہا ہے۔ بیرون ملک جا کر اپنے فلیٹ کا کام اپنے ہاتھ سے خود ہی انجام دے گا۔ نہ نوکر چاکر نہ گاڑیوں کی قطاریں نہ بنگلے نہ پروٹوکول، نہ سیکیورٹی گارڈ، وہ ملک چھوڑ کر جا رہا ہے۔
حکومت اپنے وسائل پر بھروسہ کرے۔ قرض گیری جب انتہائی ضروری ہو تو اس پر عمل کرے۔ اپنی افرادی قوت کو چار چاند لگا کر بیرون ملک بھجوانے کا فوری انتظام کرے۔ اپنے وسائل کے تحت چھوٹے چھوٹے بجلی گھر بنائے، کاٹیج انڈسٹری کا جال پھیلائے اور بہت سی باتیں ہیں جوکہ قرض کے علاوہ یا کم سے کم قرض لے کر اس پر عمل درآمد کرکے پاکستان کو قرضوں کے جال سے نکالا جاسکتا ہے۔ اس راہ پر عمل کرے تاکہ جلد از جلد اس قرض کے بار سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔