حکومت فوج کے ساتھ یک جان دو قالب ہو کر عوام کی خدمت کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے دو تین روز قبل بھری بزم میں آرمی چیف کی موجودگی میں دل کی بات کہہ کر سب کو متاثر کیا۔ شہباز شریف ہمیشہ سے صلح جو اور معاملہ فہم مشہور ہیں۔ جب کبھی ن لیگ کی کشتی سیاست کے بھنور میں پھنسی ان کی صلاحیتیں بروئے کار آئیں۔ تاہم یوں سر بزم میڈیا کی گواہی، ٹائمنگ اور آرمی چیف کی موجودگی میں اس امر کے اظہار یا اصرار پر بہت سے چہروں پر معنی خیز مسکراہٹ بھی دیکھی گئی۔
کیوں؟ شاید اس لیے کہ ان کے ایک پیش رو بھی یونہی سرعام واضح کرتے تھے کہ وہ اور فوجی قیادت ایک پیج یعنی ایک صفحے پر ہیں۔ وہ اس اظہار پر بار بار اصرار نہ بھی کرتے تو بھی ایک عالم نے بہ چشم خود دیکھا کہ ایک صفحے پر یکجائی کے چند سال کے سفر میں"پہلے جاں پھر جان جاں۔۔"ہوتے چلے گئے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ یہ صفحہ پلٹا تو"پہلے دشمن پھر دشمن جاں پھر دو بدو "بھی ہوتے دیکھا، بلکہ یہ آخری مرحلہ کچھ اس انداز میں رونما ہوا کہ" کل" کے راندہ درگاہ پھر سے کھیون ہار بنے۔
شہباز شریف جب بھی حکومتی عہدوں پر رہے بڑے متحرک رہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو سڑکوں، پلوں، انڈر پاسز اور دیگر انفرااسٹرکچر اور انرجی پروجیکٹس پر ان کا بھرپور فالو اپ رہتا۔ انھی دنوں تیز رفتار مینیجمنٹ کے حوالے سے ان کے بارے میں "شہباز اسپیڈ" کا توصیفی لقب مشہور ہوا۔ کچھ یار لوگوں نے اس توصیفی لقب کا ٹھٹھہ بھی اڑایا۔ تاہم پنجاب میں ن لیگ کو اپنا گڑھ برقرار رکھنے میں ان کی بطور وزیراعلیٰ کارکردگی کا اہم کردار رہا۔
حکومتی ایوان میں ہوں تو سربراہان کو حاشیہ برداروں کی کمی نہیں ہوتی، بلکہ حاشیہ نشین رسائی اور رونمائی کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ تھے تو ایسے احباب کی کمی نہ تھی، بلکہ کئی ایک نے تو ان کے اندر کا جوہر قابل پہچان کر انھیں باور کروایا کہ"سر پنجاب آپ کی منزل نہیں" یعنیSir, Punjab is too small for you. اور پھر یوں ہوا کہ قدرت نے انھیں یہ موقع دے دیا۔ پی ڈی ایم ون کی حکومت میں بالآخر وہ اس منصب پر پہنچ گئے۔ تاہم مسائل کا انبار اور وقت کا پہیہ ان پر حاوی رہا۔
الیکشن کے بعد دوبارہ وزیراعظم بنے تو بھاگ دوڑ کے وہی شناسا مناظر، اپنے تئیں پوری تندہی سے کوششیں جاری رکھیں لیکن عوام پر مہنگائی، بجلی گیس کے بلز، ٹیکسوں کی بھرمار نے عوام کی بقول شخصے "بس" کروا دی۔ انھیں ان مشکلات کا اندازہ بھی یقینا ہوگا، تاہم وہ اپنی مخصوص"پنجاب اسپیڈ" کا من چاہا اعادہ مرکز میں نہ کرسکے لیکن ان کے دل میں اس اسپیڈ کی خواہش موجود ضرور ہے۔ بلکہ اپنے تئیں انھیں یقین ہے کہ وہ پنجاب اسپیڈ کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، آج نہیں تو کل عوام بھی مان اور جان جائیں گے۔
ہمیں اس خواہش کا براہ راست اظہار ان کی اپنی زبانی سننے کا موقع بھی ملا۔ دو ماہ قبل وزیراعظم شہباز شریف چین کے پانچ روزہ دورے پر تھے۔ چین کے شہر شینزین میں ایک سرمایہ کاری کانفرنس بھی اس دورے کا حصہ تھی۔ ہمیں بھی اس کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ ایک بہت بڑے مالیاتی ادارے کے سربراہ ان سے ملنے آئے اور انھوں نے بتایا کہ شہباز اسپیڈ کی چین میں دھوم ہے۔ بلکہ ملاقاتی نے خواہش کا اظہار کیا کہ شہباز اسپیڈ اگر چین میں اپنا لی گئی تو ترقی کا سفر مزید تیز تر ہو سکتا ہے!
پاکستان کی سیاست اور ملکی گورننس کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ 90 کی دہائی اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ان تعلقات اور باہمی انحصار میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، یوں ملکی دفاع ،معیشت اور ملکی گورننس کے معاملات میں سیاست دانوں، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گہرا ربط و ضبط رہا ہے۔اس ربط و ضبط میں بعض اوقات اعتدال قائم نہیں رہ سکا کہ بقول شخصے" اپنے اپنے مقام پہ کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں" والا معاملہ بھی رہا۔ جس کا نتیجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ملکی معیشت ،گورننس اور عوامی فلاح کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے گئے۔
سلطانی جمہور کا سفر جس طرح پاکستان میں نا ہموار اور نشیب و فراز سے گزرا ہے، کچھ یہی عالم بہت سے دیگر ممالک کا بھی رہا ہے۔ کچھ ممالک نے سلطانی جمہور کے مراحل کامیابی سے طے کر لیے لیکن بہت سے ممالک ابھی تک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دو تین دہائیاں قبل جنوبی کوریا اور ترکی ایسی ہی کشمکش کا شکار رہے۔ تاہم دھیرے دھیرے سیاسی حکومتوں نے معیشت، بہتر گورننس، ادارہ سازی اور رول آف لاء کے ذریعے نئے ماحول کو یقینی بنایا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ سول سپرمیسی قائم اور دیگر ریاستی ادارے اپنے اپنے دائروں میں واپس اور مضبوط ہوتے چلے گئے۔
حالیہ سالوں میں انڈونیشیا میں آمرانہ حکومت سے جمہوریت کا سفر کامیابی سے طے ہوتے دیکھا گیا۔ اکھاڑ پچھاڑ اور وقتی نشیب و فراز اور ہیجان انگیزی بھی رہی۔ تاہم سیاسی عزم اور بہتر گورننس نے بالآخر میدان مار لیا۔ انڈونیشیا اس وقت جنوب مشرقی ایشیا کی مضبوط معیشت اور بہتر معاشی مستقبل کی نقیب سمجھی جا رہی ہے۔دوسری طرف تھائی لینڈ میں یہ کشمکش پچھلی دو دہائیوں سے فیصلہ کن مرحلے میں جاری ہے۔ تمام ترمشکلات کے باوجود سیاسی جماعتوں کے تحمل اور سیاسی عمل اپنائے رکھنے سے یہ امکان واضح نظر آرہا ہے کہ بالاخر سلطانی جمہور کا سفر وہاں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔
پاکستان دنیا سے نہ منفرد ہے اور نہ ہی الگ تھلگ۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کو سمجھنا پڑے گا کہ بالآخر ان ہی آزمودہ عالمی مثالوں پر ہی چلنے سے کامیابی ہو گی، جب ڈلیوری یا گورننس کی جیت ہی فیصلہ کن ہو گی۔
ایک پیج یا ایک جان دو قالب کی تلاش یا اصرار کے بجائے بہتر گورننس اور قدرتی اجتماعی سیاسی عمل کے تسلسل میں سب کی بھلائی ہے۔ بقول بلھے شاہ:
کر کتّن ول دھیان کْڑے!