ہم اپنی بربادی کے خود ذمہ دار ہیں

اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات ہماری بربادی کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہم اپنی بربادی کے خود ذمہ دار ہیں


Aftab Ahmed Khanzada August 25, 2024
[email protected]

ڈیجیٹل دورکی عظیم ٹیپسٹری میں، ڈونلڈ ملر کے گہرے الفاظ ایک وضاحت کے ساتھ گونجتے ہیں جو معلوماتی دورکے شورکو ختم کرتے ہیں۔ '' معلومات کے دور میں، جہالت ایک انتخاب ہے '' بصیرت اور مطابقت سے بھرے یہ الفاظ ہمیں اپنے وقت کی حقیقت کا سامنا کرنے کا چیلنج دیتے ہیں۔ ایک ایسا وقت جب علم پہلے سے کہیں زیادہ قابل رسائی ہے، جب معلومات ہماری انگلیوں پرآزادانہ طور پر بہتی ہیں اور جب سمجھ کی حدود صرف ہماری رضامندی سے محدود ہیں۔

حقیقت کو تلاش کرنے کے لیے اعدادوشمارکی کثرت اور آراء کے سیلاب سے نشان زد اس دور میں، لاعلم رہنے کا انتخاب قلت کا نہیں بلکہ انتخاب کا نتیجہ ہے۔ ہمارے اختیار میں علم کی دنیا کے ساتھ، الگورتھم کے ذریعے تیارکردہ اور ہماری ترجیحات کے مطابق، حقائق پرآنکھیں بندکرنے، شواہد کو مسترد کرنے یا مختلف نقطہ نظرکو مسترد کرنے کا فیصلہ روشن خیالی پر جہالت کو منتخب کرنے کا ایک شعوری عمل ہے۔

آئیے! ہم ڈونلڈ ملر کی نصیحت پر دھیان دیں اور تسلیم کریں کہ معلومات سے بھری ہوئی دنیا میں، جہالت درحقیقت ایک انتخاب ہے اور سچائی، دانش مندی اور روشن خیالی کے ذریعے مستقبل کی تشکیل کرنے کی ہماری صلاحیت۔ آپ میں ہم سب اپنی اپنی موجودہ زندگی سے تنگ آچکے ہیں مسائل ہیں کہ کم ہو ہی نہیں پا رہے ہیں۔

ہمیں انسان توکیا جانور تک کوئی بااختیار اور طاقتور تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ ایسی بے اختیاری، ذلت، غربت، افلاس، دھکے،گالیاں، دھتکارکہ اپنے آپ سے نظر نہیں ملا پاتے، ہمیں اس طرح حالات کے چنگل میں پھنسایا گیا ہے جہاں سے باہر نکلنے کے تمام راستے بند ہیں، سوچ سوچ کر دماغ شل ہوچکے ہیں، امید کی کوئی دور دور تک مدھم سی بھی کرن کہیں نظر نہیں آتی۔ کیا کیا جائے یہ سوال بار بار دماغ پر ہتھوڑے مارتا رہتا ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا، ہم حالات کے مارے ہوئے ہیں یا ہم اپنے آپ کے مارے ہوئے ہیں۔

اس سوال کا جواب ڈسرائیلی اس طرح دیتا ہے کہ '' حالات انسان کو نہیں بلکہ انسان حالات کو بناتا ہے'' اور جارج برنارڈ شا کہتا ہے '' لوگ جوکچھ ہیں، اس کی ذمہ داری حالات پر ڈالتے ہیں، میں حالات پر یقین نہیں رکھتا، اس دنیا میں جن لوگوں نے نام پیدا کیا ہے وہ ایسے لو گ ہیں جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہے بلکہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان حالات کو ڈھونڈا جن کی انہیں ضرورت تھی اگر وہ انہیں نہیں ملے تو انہوں نے ان کو پیدا کیا۔''

اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات ہماری بربادی کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہم اپنی بربادی کے خود ذمہ دار ہیں، ہماری اکثریت یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ ماحول ہمیں بناتا اور بگاڑتا ہے یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے، ہماری زندگی کے واقعات ہمیں نہیں بناتے بلکہ ہمارے وہ عقائد ہمیں وہی کچھ بناتے ہیں جو ہم ان واقعات کے بارے میں رائے اپنا لیتے ہیں۔ بودین نے اس کی بڑی واضح انداز میں وضاحت کی ہے '' دولت کی خواہش کرنا اور پھر بھی ہمیشہ غریب رہنے کی توقع رکھنا۔ اس سے ہمیشہ آپ کو اپنی قابلیت پر شک رہتا ہے اس طریقے سے خواہشات کو حاصل کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے مشرق کی طرف جانے کے لیے مغرب کی طرف سفرکرنا، دنیا میں کوئی ایسا فلسفہ موجود نہیں ہے جو انسان کو اس وقت کامیابی دلانے میں مدد دے سکے جبکہ وہ اپنی قابلیت پر شک کی بنا پر ناکامی کو دعوت دے رہا ہے۔

آپ اسی سمت جائیں گے جس طرف آپ کا چہر ہ ہوگا۔ ایک کہاوت ہے کہ بھیڑ جب بھی بھیں بھیں کرے گی، یہ مٹھی بھر چارے سے ہاتھ دھو بیٹھے گی، ہر مرتبہ جب بھی آپ خود سے ایسی شکایات کریں گے کہ میں غریب ہوں میں کبھی وہ کام نہیں کرسکتا جو دوسرے کرتے ہیں۔ میں ایک ناکام انسان ہوں میری تو قسمت ہی خراب ہے تو ان باتوں سے آپ اپنے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر رہے ہوتے ہیں، اگر آپ کے ذہن میں ناکامی کا خو ف بھرا ہوا ہے، تو یہ آپ کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دے گا۔

آپ کی تمام جدوجہد کو بے اثرکر دے گا اور آپ کے لیے کامیابی کا حصول ناممکن ہوجائے گا، ہماری تمام ناکامیوں کا ذمے دار صرف ہمارا خوف ہے، ہم اس بڑھیا کی طرح ہیں، جس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر کے پیچھے پہاڑی ہٹانا چاہتی ہے، اس لیے اس نے سجدے میں جا کر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ یااللہ پہاڑی کو میرے گھرکے پیچھے سے ہٹا دے۔ اگلی صبح اٹھنے کے بعد وہ تیزی سے کھڑکی کی طرف دوڑی پہاڑی ابھی تک اپنی جگہ پر موجود تھی وہ تڑاق سے بولی'' میں جانتی تھی کہ ایسا ہی ہوگا، میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی لیکن میں جانتی تھی کہ میری دعا ؤں میں کوئی اثر نہیں ہے۔''

آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس بات نے نپولین کو اپنے دورکا سب سے عظیم فاتح بنایا پہلی بات تو یہ کہ اسے اپنے آپ پر مکمل بھروسہ تھا، اسے اپنی قسمت پر مکمل یقین تھا، اسے اس بات پرمکمل بھروسہ تھا کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی یا کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے جس کا حل اس کے پاس موجود نہیں ہے لیکن جیسے ہی اس نے اپنا اعتماد کھویا جب وہ کئی ہفتوں تک اس کشمکش میں مبتلا رہا کہ آیا اسے آگے بڑھنا چاہیے یا پیچھے مڑ جانا چاہیے وہ سردیوں میں جنگ کے دوران ماسکو میں پھنس گیا تھا قدرت نے پہلے پہل اسے بھرپور موقع دیا کیونکہ برف باری اس وقت پورے ایک مہینے دیر سے شروع ہوئی لیکن چونکہ نپولین ہچکچا رہا تھا اس لیے وہ جنگ ہار گیا ایسا نہیں کہ اسے بر ف باری کی وجہ سے شکست ہوئی اور نہ ہی وہ روسیوں کی وجہ سے ہارا بلکہ اس کو خوف نے ہرا دیا۔

بچپن میں بزرگوں سے سنتے تھے کہ جس کہانی کاانجام خوشگوار اور ہنسی خوشی نہ ہوتو سمجھ لو کہ وہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ کہانی ابھی جاری ہے ہماری کہانی بھی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمارا انجام خوشگوار اور ہنسی خو شی نہیں ہوگا ۔ السپ نے کہا تھا خوشحالی و آسو دگی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے ، قسمت پر تکیے کرنے مندر و مسجد میں دعائیں مانگنے یا منتیں ماننے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ محنت ، مشقت اور ہمت کو با قاعدہ کام میں لانے سے حاصل ہوتی ہے۔

اگر آپ کو اپنی بے اختیاری ، ذلت ، غربت ، افلاس ، دھتکار، سے پیار ہوگیا ہے تو پھر اور بات ہے آپ اپنا پیار اور لگاؤ اسی طرح سے جاری و ساری رکھیے، خدا آپ کو اس پیار میں اور برکت دے گا لیکن اگر آپ اپنے حالات سے تنگ آچکے ہیں اور اس سے نجات حاصل کر نا چا ہتے ہیں تو پھر آئیں، سب سے پہلے ہم اپنے خوف کو قتل کر دیتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ یہ بر بادی ہمارا مقدر نہیں۔ یاد رہے تمام جائیداد اور جاگیریں چوری ، رشوت ، ڈاکہ زنی اور مختلف بدعنوانیوں کا نتیجہ ہیں یہ ضروری نہیں کہ یہ اعمال موجودہ مالک نے ہی سر انجام دیئے ہوں یہ کام اس کے باپ داد، پر دادا یا پشتوں تک کے آباؤ اجداد کا بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ یہ سب بدعنوانیوں کا ہی نتیجہ ہیں اور بدعنوان سے بڑا بزدل کوئی اور ہوہی نہیں سکتا ہے۔ آؤ بزدلوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ، ہمارے پاس کھو نے کے لیے سوائے زنجیروں کے اورکچھ نہیں اور پانے کے لیے پورا جہاں ہے، بس ہمیں اپنے آپ پر یقین اور بھروسہ کرنا ہوگا، اپنی قابلیت پر اعتقاد رکھنا ہوگا۔ یاد رکھو ہماری کہانی ابھی تک جاری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔