رسائل اور افسانوی مجموعے
ان دنوں مظہر سلیم مجوکہ خدمات انجام دے رہے ہیں، آپ مدیر اور جبکہ نائب مدیر شہزاد نیر ہیں
کالم لکھنے ہی بیٹھی تھی کہ دروازے کی بیل نے اپنی طرف متوجہ کرلیا، ہاتھ میں پکڑا پین میز پر رکھا اور دروازے کھولنے کے لیے چل پڑی،گھر میں جب تنہائی کا راج ہوتا ہے تو مجبوراً وہ کام بھی ہماری ذمے داری میں شامل ہوجاتے ہیں، جن کے کرنے سے کبھی وقتی طور پر توکبھی کئی دن اور گھنٹوں پر محیط قلمکاری کا معاملہ ٹل جاتا ہے، مسلسل بیل بج رہی تھی، دروازہ کھولا تو سامنے پوسٹ مین کھڑا نظرآیا، چونکہ آج کچھ زیادہ ہی عجلت کا شکار تھا، اس لیے بیل مسلسل بجا رہے تھا، خیر دروازہ کھولا اور ان سے پیکٹ لیا، جب پیکٹ کھولا تو ماہنامہ ''ادب لطیف'' اپنے پرسکون چہرے کی نمائش کررہا تھا، ورق گردانی کے ساتھ عادتاً باقاعدہ طور پر مضامین و افسانوں کو پڑھ ڈالا، پھر سوچا ہمارا لکھنے کا ارادہ ہے ہی توکیوں نہ اپنے کالم میں ''ادب لطیف'' کو بھی شامل کرلیا جائے۔
سہ ماہی انشاء اور افسانوں کے مجموعے رودالی، چاک اور چراغ، ماں ری کئی ماہ سے ہمارے منصوبے کا حصہ تھے کہ ہمیں ان افسانوں کے مجموعوں پر خامہ فرسائی ضرورکرنی ہے،کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کتابوں کو قارئین سے متعارف کرائیں تو جناب ہم سب سے پہلے ادب لطیف اور پھر دوسرے رسائل اورکتب کی جانب بڑھیں گے۔
ادب لطیف وہ اہم ادبی جریدہ ہے جو 1935ء سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے، اس کے بانی برکت علی چوہدری، ان کے بعد افتخار علی چوہدری اور صدیقہ بیگم، ناصرعلی زیدی نے اپنی ادبی اور مدیرانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور یادگاروشاندار پرچے نکالے۔ ناصر علی زیدی بھی ادب لطیف کے مدیران میں شامل تھے، بہت بااخلاق اپنی جدوجہد اور بہترین کاوشوں کے نتیجے میں یادگار شمارے و نمبرز نکالتے رہے ہیں۔ ان کے دوست احباب ہمیشہ ان کی ادب سے لگن اور محبت کا اعتراف کرتے ہوئے داد و تحسین سے نوازتے ہیں،اللہ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)
ان دنوں مظہر سلیم مجوکہ خدمات انجام دے رہے ہیں، آپ مدیر اور جبکہ نائب مدیر شہزاد نیر ہیں۔ مجوکہ صاحب نے پرچے کی بروقت اشاعت کے حوالے سے اپنے آپ کو منوا لیا ہے، جون 2024ء کا مذکورہ شمارہ میری نگاہوں کی گرفت میں ہے، سلیم مجوکہ کا اداریہ'' سخن آغاز'' سے شروع ہوتا ہے، مجوکہ صاحب کی ہر تحریر انفرادیت کی حامل ہوتی ہے، ملک و ملت کی ابتری کے حوالے سے انہیں تشویش ہے کہ ہمارا ملک آخر آئی ایم ایف کے رحم وکرم پرکیوں آگیا ہے، جبکہ یہ دنیائے اسلام کی قیادت کرنے والا پہلا ملک ہے، بے شک لمحہ فکریہ ہے۔
شہزاد نیرکی تحریر جوکہ سخن آغازکا نمبر دوئم ہے۔ انہوں نے فکشن، مائیکرو فکشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افسانے میں اب مائیکرو فکشن زیادہ مقبول ہو رہا ہے۔ افسانے، شاعری، تراجم و انشائیہ اورکتابوں پر تبصرہ نظر سے گزرا، پڑھ کر اندازہ ہوا کہ واقعی بڑا محنت طلب کام ہے یہ اور سخت ترین مہنگائی میں خسارے کا سودا بھی، معاشی حالات نے لوگوں کی زندگیوں میں مشکلات میں اضافہ کردیا ہے، مدیران رسائل کیلئے پرچہ نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے، لیکن ادب کی محبت نے یہ مشکل کام کرنے پر مجبورکردیا ہے۔
مشکلیں مجھ پر اتنی پڑیں کہ آساں ہوگئیں
''سہ ماہی انشا'' کے مدیر و بانی پروفیسر صفدر علی خان اور نائب مدیر ڈاکٹر سید عقیل دانش ہیں، صفدر علی انشا پرچے کی اشاعت کو 31 واں سال شروع ہوچکا ہے ماشاء اللہ عرصہ دراز سے پابندی سے انشاء شائع ہو رہا ہے، اس پرچے کی خصوصیت ہے کہ اس میں انشاء کا تیس سالہ اشاریہ شامل ہے، بے شک اس کی اہمیت مسلم ہے۔ مضامین میں صادق علی خان کی تحریر'' جامعات میں تحقیق کی بگڑتی ہوئی صورتحال'' بہترین اور بہت سی معلومات بہم پہنچاتی ہے، حیرت اور افسوس کی فضا پروان چڑھتی ہے، جامعہ کراچی میں سرقہ اور پی ایچ ڈی کے داخلے سے لے کر مقالے کی تیاری اور مقالے کی تیاری سے لے کر سند کے اجرا تک ہر قدم پر خاص کردار مافیا کا ہے۔
بے شمار طلباء کی غیرقانونی مددکرنا اور روزکا معمول اور عام سی بات ہے۔ نہایت فکر انگیز مضمون ہے جس پر غور وفکر کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر خالد محمود بلوچ کا مضمون فرزانہ کوثرکی کتاب، نسیم انجم کی ادبی خدمات، چند معروضات، ڈاکٹر خالد بلوچ نے پوری کتاب توجہ سے پڑھ کر مضمون قلمبندکیا ہے، یہی وجہ ہے کہ فرزانہ کوثرکے مقالے کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہ سکا ہے، یہ ایک بھرپور مضمون ہے جو فرزانہ کوثرکی ادبی خدمات کا نچوڑ پیش کرتا ہے۔ آغا گل کا افسانہ ناراج تازہ موضوع پر لکھا گیا ہے۔
آغا گل میحی تاریخ اور رسم و رواج سے بہت اچھی طرح واقف ہیں، اس ہی لیے ان کے افسانے تاریخ کے صفحات میں سانس لیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ صائمہ نفیس جوکہ اب صائمہ صمیم کے نام سے پہچانی جاتی ہیں، ان کا انداز فکر دوسرے افسانہ نگاروں سے جداگانہ ہے، وہ معاشرے کے تلخ حقائق کو افسانے کے قالب میں فنی باریکیوں کیساتھ خوبصورتی کے ساتھ ڈھالتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے افسانے کلام کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، مناظر جاگ جاتے ہیں اورکردار اپنے ظاہری اور باطنی عیوب اور اچھائی کے ساتھ سامنے آجاتے ہیں۔
حال ہی میں، میں نے کئی افسانے پڑھے جوکہ ان افسانوں کے مجموعے''رودارلی'' میں شامل تھے، اس کے علاوہ بھی کئی افسانے میری بصارتوں سے گزرے وہ فن افسانہ سے بہت اچھی طرح واقف ہیں، حساس طبیعت کی مالک ہیں، اسی لیے سماج کے بدنما کردار ان کے دل و دماغ میں پیوست ہوجاتے ہیں پھر ایک جیتی جاگتی تخلیق سامنے آجاتی ہے۔ ''چاک اور چراغ'' کی مصنفہ شائستہ مفتی ہیں۔ اس کتاب میں افسانے اور نظمیں شامل ہیں، یہ کتاب کی انفرادیت ہے،گویا ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ رضا علی عابدی اور ڈاکٹر اوج کمال جوکہ دنیائے ادب کے مدیر اور بانی ہیں ان دونوں حضرات کی آراء کتاب میں درج ہیں۔ اپنے پاپا جی (والد صاحب) کے بارے میں انہوں نے جو مضمون لکھا ہے، اس نے ایک افسانوی صورت اختیارکر لی ہے۔
اپنے سے جدا ہونے کے بعد ایک کرب کی کیفیت مضمون میں در آئی ہے، اس کی وجہ ان کا اپنا دکھ اور یتیمی کا احساس تحریر پر غالب آگیا ہے۔ ان کی شاعری بھی متاثرکن ہے، بالکل افسانوں کی طرح۔ شائستہ مفتی کی یہ تیسری کتاب ہے۔ ''چاک اور چراغ'' میں مختلف موضوعات پر افسانے اور شاعری درج ہے، جو قارئین کو متاثرکرتی ہے۔ نشاط یاسمین کے افسانوں کا مجموعہ '' ماں ری '' کے نام سے شائع ہوا ہے، اس کتاب سے قبل ان کی دو اورکتابیں '' قربتیں اور دوریاں'' اور ''سرخ لکیریں '' برسوں پہلے اشاعت کے مرحلے سے گزرچکی ہیں۔
نشاط یاسمین بہترین افسانوں کی خالق ہیں، اسلوب بیان سادہ اور دلنشین ہے، رشتوں ناتوں کے حوالے سے جبروقہر اورظلم کی داستان کو افسانوں کے سانچے میں ڈھالنے میں انہیں یدطولیٰ حاصل ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ یونہی لکھتی رہیں تاکہ ان کے افسانوں کے قارئین ان کی تحریرکے کھٹے میٹھے ذائقے سے محروم نہ ہوں ۔ کرداروں کی زبان وبیان اور ان کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے افسانے تخلیق کیے ہیں، اس ہی لیے قاری کو اپنے اپنے سے محسوس ہوتے ہیں جیسے وہ ان کرداروں سے مل چکے ہوں۔ جانے پہنچانے سے لوگ، محلے گلی میں بسنے والے اور دور درازکے علاقوں سے وابستہ کردار مصنفہ ان کے دکھوں اور غموں سے ایسے واقف ہیں جیسے یہ ان کے غم ہوں جب تک کسی کردار کو اپنے دل ودماغ میں نہ اتار لیا جائے،کہانی لکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن اور لفاظی کے سوا کچھ بھی نہیں۔