کراچی کا معاشی کشت و خون
1960 میں ہی کراچی کی صنعتی ترقی اور جمہوری سیاسی سوچ کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی
ہمارے ملک میں آج کا سب سے بڑا اور پریشان کن سوال یہ ہے کہ کس طرح ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت کو بہترکیا جائے؟ یوں تو یہ سوال آج کی صورتحال کے تناظر میں واقعتاً خوفناک لگتا ہے مگر ملکی معاشی صورتحال جس نہج پر آج آن پہنچی ہے، اس صورتحال کو تاریخ اور اقتدارکے ادوارکی خرمستیوں میں دیکھنے سے گریز اختیارکیا جاتا ہے، جس عمل کوکسی طور سے حوصلہ افزا قرار نہیں دیا جاسکتا، تاریخی تناظرکے حوالے سے متحدہ ہندوستان میں برٹش راج کے ہوتے ہوئے جہاں زراعت کے شعبے میں لگان کی صورت محصولات خزانے میں جمع کرانے کا رواج ڈالا گیا وہیں برٹش راج نے مغل بادشاہوں کے خوشحال معاشی فیصلوں سے بھی استفادہ کیا اور ملک کی معاشی ضرورتوں کے تحت جدید معاشی انداز اپنانے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔
یوں تو اقتدارکا سنگھاسن ''دہلی'' ہی قرار پایا مگر متحدہ ہندوستان کو چلانے کیلئے پورٹ سٹی کی معاشی حیثیت کے زیر نظر کلکتہ، بمبئی اورکراچی کو بطور خاص چنا گیا، تاکہ ان شہروں کے محل وقوع اور محنت کرنے کی افرادی طاقت یا مزدورکی محنت کو جدید صنعت کاری کے ضمن میں استعمال کیا جائے اور شاید یہی وہ وجہ یا صنعتی و معاشی ضرورت رہی کہ متحدہ ہندوستان کے مذکورہ بالا تین شہروں کو معاشی حب کیلئے تیارکیا گیا، تاکہ یہ تین شہر اپنی صنعتی ترقی کے وسائل سے ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کا کام کرتے رہیں۔
اس تناظر میں برٹش سامراج نے ان تین شہروں کو صنعتی جال بچھانے کے لیے منتخب کیا اور وقت و حالات کے تناظر میں صنعتی ترقی میں مذکورہ شہروں کی صنعتی و معاشی ترقی سے متحدہ ہندوستان کی معیشت کو سہارا دیا۔ تقسیمِ کے بعد سندھ صوبے کے سب سے بڑے صنعتی اور معاشی وسائل سے مالا مال شہرکراچی کو یہ اعزازحاصل رہا ہے کہ اسے آزاد پاکستان کا دارالحکومت بنایا گیا، اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ کراچی، سندھ اور پاکستان کے دیگر حصوں کی نسبت بجلی اور بلدیاتی نظام کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تھا جبکہ صنعتی شہر ہونے کی بنا کراچی کو 1930 کی دہائی میں ہی بلدیہ اور بجلی کی بنیادی سہولت انگریز سامراج نے دے دی تھی، جو ملکی صنعتی و معاشی ضرورتوں کے پیشِ نظر پورے ملک کی اقتصادی ضروریات کو باسانی پورا کر رہا تھا۔
برطانوی راج میں کراچی کی صنعتی حیثیت بنیادی طور پر قدرتی سمندر اور صنعتی سامان کی بیرون ممالک ارزاں ذرائع نقل و حمل تھے، جس سے سستا ''صنعتی لاجسٹک نظام'' ملک کی صنعتی ترقی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت لیے ہوئے تھا اور یہی ملکی معیشت کے استحکام کی ضمانت تھا۔ اسے تاریخی ستم ظریفی کہیے یا ہمارے اقتداری طبقے کا تجاہل عارفانہ کہ جو ملک سیاسی جدوجہد اور جمہوری تحریک کے نتیجے میں سیاسی رہنماؤں نے بیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل کیا، وہیں آزادی کے ٹھیک آٹھ برس بعد ہی ملک کی اقتصادی ترقی و سیاسی آزادیوں کو مارشل لاء تلے روند ڈالا اورکراچی سندھ کے جمہوری اذہان اور جمہوری حقوق سے آشنا عوام کو طاقت سے زیرکرنا چاہا۔
جس کیلئے پہلے مرحلے میں سیاسی ہلچل کے دباؤ سے بچنے کیلئے پاکستان کے دارالخلافے کراچی کو تبدیل کیا اور ملک میں اعلیٰ طبقات کی آسانی کے پیش نظر سہانے موسمی علاقے اسلام آباد کو منتخب کیا، حالانکہ کراچی کے دارالخلافہ کی وسعت کیلئے فیڈرل کیپٹل ایریا (ایف سی ایریا) اور فیڈرل بی ایریا (ایف بی ایریا) کا وسیع قطعہ زمین حاصل کر لیا گیا تھا جو دارالحکومت اسلام آباد کی منتقلی کے بعد یہ مجبورا یہ زمین عام فروخت کیلئے رکھ دی گئی جبکہ بالادست طبقے نے اپنے اثاثے بچانے یا سمیٹنے کا کام بہت آزادانہ حیثیت سے جاری و ساری رکھا۔
1960 میں ہی کراچی کی صنعتی ترقی اور جمہوری سیاسی سوچ کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جس کے نتیجے میں آج تک کراچی کے انتظامی و بلدیاتی امور زیرکنٹرول ہے جبکہ منتخب ہونیوالی صوبائی حکومتیںکراچی کے وسائل اور قانون نافذ کرنے کے معاملے سے دورہیں۔ جمہوری ذہن اور سوچ کو ختم کرنے کیلئے کراچی میں پہلے مذہبی زہر پھیلایا گیا اور پھر ایک لسانی تنظیم بنوائی جس کے ذریعے لاقانونیت کی آڑ میں کراچی کے صنعتی و جمہوری ماحول کو خراب کیا اور معیشت کے اہم جز صنعت کوکراچی سندھ سے منتقل ہونے پر مجبورکیا گیا۔
کراچی کی صنعت کو برباد کرنیوالے بھول گئے کہ صنعتی ترقی میں پورٹ سے صنعت تک کے کم لاگت کے ذرائع نقل وحمل ہی مہنگائی اور بیروزگاری ختم کرنے اور روزگار پیدا کرنے کا اہم کردار ہوتے ہیں، امن کے نام پرکراچی سندھ سے صنعت کی منتقلی پر ذرائع نقل وحمل کے تین گنا زیادہ اخراجات نے نہ ملک کے دیگر حصوں کی صنعت کو ترقی دی اور نہ ہی ملک سے بے روزگاری ختم کی جاسکی، ان مذکورہ وجوہات کے سبب ''قدرتی پورٹ'' کے عطیے کے مقابلے میں ''ڈرائی پورٹ'' کے تصور نے آج پورے کو ملک شدید معاشی بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی ابتری میں مبتلا پاکستان کو آج کل اپنی معاشی دانش سے نکالنے کی ماہرانہ رائے دینے میں ماہر محصولات تواتر سے ملکی معیشت کو راہ راست پر لانے کی کوشش میں اپنے خیالات کا برملا اظہار کررہے ہیں۔کچھ ماہر محصولات اقتدارکی راہداریوں کی سوچ اور طریقہ کار سے بھی واقف ہوں گے، قوی امکان ہے کہ وہ اقتدارکے ایوانوں میں بسنے کے ناتے جہاں اقتداری افراد کے مزاج اور ان کے کام کرنے کے طریقہ کار سے آشنا ہوں گے، وہیں وہ اقتداری افراد کی کمزوریوں یا ملک کی معاشی نزاکتوں کا تجربہ بھی رکھتے ہوں گے۔
شاید اسی تناظر میں وہ بہت وضاحت اور فصاحت سے ملکی معاشی صورتحال پر بے لاگ تجزیے پیش کر رہے۔ ماہر محصولات موجودہ معاشی ابتری کو Economic Genocide کے تناظر میں دیکھتے ہیں، ان کا استدلال ہے کہ اقوام متحدہ کے کنونشن 48 کی قرارداد 2c کے تحت کسی بھی شہر کا ''معاشی و صنعتی قتل'' ہو تو وہ دراصل اس شہر کی صنعتی بد امنی کی ذمے دار اور جرم کی مرتکب وہاں کی حکومت ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے بتایا جائے کہ دنیا کا وہ کونسا میٹرو پولیٹن شہر ہے جہاں برسوں سے سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد متعین ہو اور لاقانونیت پر قابو نہ ہو رہا ہو، ان کا سوال ہے کہ یہ بتائیں کہ کراچی کے علاوہ وہ کونسا شہر ہے جہاں پانی ٹینکر سے دیا جاتا ہو، یہ سندھ حکومت اس عالمی صنعتی شہر کو Economical Genocide کی طرف لے جا رہی ہے جو انتہائی خطرناک بات ہے، لٰہذا اس سے قبل کہ یہ صنعتی شہر Economic Genocide کی طرف جائے، اس سے قبل اس صنعت کی ریڑھ کی ہڈی والے کراچی سندھ کو بچا لیا جائے، وگرنہ کچھ نہ ہاتھ آئے گا۔ملکی معاشی صورتحال کی ابتری میں ان کے تجزیوں سے اتفاق یا اختلاف کیا جاسکتا ہے، مگر ماہر محصولات کے وضاحت طلب تجزیے نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔