نوجوان طبقہ روزگار کی عدم فراہمی کے ممکنہ نتائج
حکومت کسی کی بھی ہو ، کسی کے پاس ملک کو مشکلات سے نکالنے کا حل نہیں ہے
ریاستی وحکومتی نظام کی بنیادی ساکھ مضبوط اور مربوط معاشی نظام کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔ یہ نظام منصفانہ بھی ہوتا اور شفافیت بھی رکھتا ہے۔اس نظام کی ایک بنیادی ذمے داری لوگوں کے جان ومال کے تحفظ اور ان کے معاشی حقوق کی ضمانت دینا ہے بالخصوص نئی نسل کو روزگار فراہم کرنا ریاستی و حکومتی ذمے داریوں میں ترجیحی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔
لیکن پاکستان میں جہاں معاشی بدحالی ہو، طبقاتی تفریق ہو اور انصاف کا فقدان ہو تو پھر ہم کیسے نئی نسل کومعاشی تحفظ اور روزگار فراہم کرسکتے ہیں ۔اس وقت ملک کی 64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور جن کی عمریں 30برس سے کم ہیں ۔ لیبر فورس سروے2020-21کے مطابق پاکستان کی لیبر فورس71.76ملین ہے جب کہ بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد ہے ۔
ایک اندازے کے مطابق ہمیں سالانہ ایک ملین روزگار پیدا کیا جائے او راس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری ملکی معیشت 6فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرے ۔جب کہ ہماری معیشت ایک دہائی کے دوران 3.6فیصد سالانہ شرح کی رفتار سے ترقی کررہی ہے اور مالی برس 2020میں ترقی کی شرح 0.9اور 2023میں 0.2فیصد تک سکڑگئی ہے ۔15برس سے 24برس کے نوجوانوںمیں بے روزگاری سب سے زیادہ 11.01فیصد ہے اور 25سے34برس کے نوجوانوں میں یہ شرح7.04فیصد ہے ۔
پاکستان میں نوجوانوں چاہے وہ پڑھے لکھے ہوں یا ناخواندہ یا ہنر مند ہوں یا غیر ہنر مند سب پریشان ہیں ۔یہاں نئی نسل میں روزگار پیدا کرنا تو دور کی بات بلکہ جو لوگ برسرروزگار ہیں ان کو اپنے روزگار کے بارے میں سخت عدم تحفظ کا احساس غالب ہے ۔ہمارے پاس معاشی اصلاحات کا کوئی بڑا روڈمیپ نہیں جو نئی نسل کے مفادات کو تحفظ دیتا ہو اور ان کے لیے ملک کے اندر ہی نئے امکانات معاشی بنیادوں پر پیدا کررہا ہے ۔
حکومت کسی کی بھی ہو ، کسی کے پاس ملک کو مشکلات سے نکالنے کا حل نہیں ہے ۔ ترقی کے منازل بھی اس ملک کی طاقتور اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہم طاقت ور اشرافیہ کے کنٹرول میں بھی ہیں اور استحصال کا شکار بھی ہیں ۔نئی نسل پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے پاس محض ڈگری ہے جب کہ وہ مارکیٹ میں موجود صلاحیتوں یا مہارتوں سے بہت دور کھڑے ہیں۔
اگر یہ منطق مان لی جائے تو اس کی ذمے داری بھی عملا ریاستی و حکومتی نظام پر عائد ہوتی ہے جو روائتی اور فرسودہ اور غیر اہم تعلیم کی بنیادپر نئی نسل کو پیدا کررہی ہے۔تعلیمی عمل میں اصلاحات، جدید بناناا ور اسے مارکیٹ یا انڈسٹری سے جوڑنے میں جو ناکامی ہے اسے بھی ریاستی و حکومتی نظام کو کھلے دل کے ساتھ قبول کرناچاہیے۔ہمیں عملی طور پر حکومتی سطح پر نئی نسل اور معیشت کے درمیان باہمی ہم آہنگی اور رابطہ کاری میں ایک بڑی خلیج نظر آتی ہے ۔ ہماری پالیسی میںلمبی بنیاد پر منصوبے کم اور محض ایک ردعمل کے طور پر حکمت عملی کا غلبہ نظر آتاہے۔
ہمارا ایک مسئلہ سیاسی نوعیت کا بھی ہے ۔ اس وقت پوری شدت کے ساتھ معاشرے اور بالخصوص نوجوانوں کی سطح پر سیاسی تقسیم کا غلبہ ہے جو یقینی طور پر ان میں ایک بڑے ردعمل کی سیاست کو بھی پیدا کررہا ہے ۔کیونکہ جب نئی نسل کو ہم نے باوقار روزگار نہیں دینا اور ان کے لیے محض ہمارے پاس خیراتی منصوبے یا بھیک پر مبنی پروگرام ہوںگے تو ان میں اس نظام کے بارے میں غصہ ، تعصب، نفرت، بغاوت یا سیاسی شدت پسندی کا پیدا ہونا یقینی امر ہو گا۔
پاکستان میں نئی نسل کے لوگ جو بھی کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں توان کے پاس نہ تو تجربہ ہے ، نہ سرمایہ اور نہ ہی عوام دوست حکومتی پالیسیاں ہیں جو ان کو آگے بڑھنے کے مواقع دے سکیں ۔ پورے ملک میں نوجوانوں سے کوئی پوچھنے والا نہیںاور نہ ہی ان کے خیالات یا ضروریات کو قومی معاشی پالیسی کا حصہ بنایا جاتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ نوجوانوںو ریاست وحکومت کے درمیان ایک بڑی خلیج اور تلخی کاپہلو یا بداعتمادی کا ماحول غالب ہے ۔
اسی بنیاد پر جو ریاستی وحکومتی اقدامات ہیں جو ایک طرف نوجوانوں میں روزگار کاعدم تحفظ کے احساس کو پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف ہم ان نوجوانوں کے سیاسی اوربنیادی حقوق کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نئی نسل اور انسانی حقوق کا مقدمہ قومی سیاست یا ریاست میں بڑی تیزی سے کمزور ہورہا ہے۔
اس کاایک نتیجہ نئی نسل میں قومی معاملات سے لاتعلقی کا احساس، لاکھوں کی تعداد میں پچھلے دوبرسوں میں نوجوان طبقہ کا ملک چھوڑنے کافیصلہ اور ریاست و حکومت کو اپنا مخالف سمجھنے کا احساس بڑھ رہا ہے ۔دوسری طرف روزگار کے عدم تحفظ کی وجہ سے ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیںکہ نئی نسل میں حالا ت سے تنگ آکر خودکشی کرنا، مایوسی کی حالت میں نشہ کرنا جن میں اب لڑکیاں بھی شامل ہوتی جارہی ہیں یا دیگر جرائم میں خود کو ملوث کرناجن میں اسٹریٹ کرائم کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کومل رہا ہے۔
اس لیے مسئلہ محض ریاستی وحکومتی سطح پر نوجوانوں پر الزامات کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہیے اور بلاوجہ ان کی سیاسی ،سماجی یا مذہبی سوچ کی بنیاد پر ان کو دیوار سے لگانا یا ان پر کسی قسم کے تعصب کا اظہار یا ان کو دشمنوں کی فہرست میں شامل کرنا درست حکمت عملی نہیں ۔اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیںکہ ہمارے نوجوان کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے اور ان کے پاس محض ڈگری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان کے نوجوانوںمیں بہت ٹیلنٹ ہے اور اگر ان کوقومی سطح پر مناسب مواقع ملیں توو ہبہت کچھ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
اصل مسئلہ ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے چاہے وہ پڑھا لکھا ہو یا ناخواندہ، یاشہری یا دیہی ، صنفی بنیاد، معذور ، خواہ سرا ، اقلیت سب کے ساتھ برابری کا سلوک ہی ا ن کا حق بنتا ہے ۔یاد رکھیں یہ ریاست یا حکومت کا نوجوانوں کی سطح پر احسان نہیں بلکہ ان کا فرض بھی ہے ۔کیونکہ عمرانی ماہدہ کے تحت ریاست کا نظام اپنے شہریوں کے تحفظ کے امر کو یقینی بناتا ہے ۔ ہم نے ایسے منصوبے نوجوانوں کے لیے پیدا کرنے ہیں جو ان کو باعزت روزگاردے ، تعلیمی اداروں کو جدید بنیادوں پرتیار کریں ، چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیں ، اپنے انتظامی ،سیاسی ،معاشی و قانونی ڈھانچوں میںبنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لائیںاور بالخصوص ہم اپنے بجٹ میں نوجوانوں کی معاشی ترقی پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کریں۔انفرسٹکچر پر ضرور پیسے لگائیں مگر انسانی ترقی پر بھی سرمایہ لگانااور ان کواپنے پاوں پر کھڑا کرنا بھی ریاست و حکومت کی ذمے داری ہے ۔
اسی طرح نوجوان بھی صرف حکومتی نظام پر یا سرکاری نوکریوں پر انحصار نہ کریں خود سے آگے بڑھیں اور اپنے لیے خود روزگار بھی پیدا کریں اور وہ کچھ کرنے کی کوشش کریں جو ان کو معاشی بنیادوں پر مضبوط بناسکے ۔ حکومت اگر ملک میں نوجوانوں کو بنیاد بنا کر معاشی ترقی کے عمل کو تیزکرے اور جوصنعتیں بند ہورہی ہیں ان پر توجہ دے اور ایسے حالات پیدا کرے جو سب کے لیے قابل قبول ہوں ، تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔