ننانوے اعشاریہ ننانوے فی صد
ادھر جھوٹ نے ننانوے عشاریہ ننانوے شہرپر قبضہ کیا ہے ، امیر الامرا بن گیا ہے
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن دنیا میں اس وقت ''جھوٹ'' کی جو مقدار چل رہی ہے یا مروج ہے یا زیر استعمال ہے، اس کا حساب کتاب ننانوے عشاریہ ننانوے فی صد بیٹھتا ہے، یعنی اس وقت دنیا ننانوے اعشارہ ننانوے فیصد جھوٹ پر رواں دواں ہے اور وہ جو اعشاریہ ایک فی صد ''سچ '' ہے بیچارا تالاب کے پانی میں ننگا بیٹھا ہوا ہے، باہرنکلنا تودورکی بات اگر کسی کو دورسے آتا ہوا دیکھتا ہے تو شرم کا مارا غوطہ لگا کر پانی میں چھپ جاتا ہے ، ان جھوٹ اور سچ نامی دو بھائیوں کی کہانی کا تو آپ کو پتہ ہے۔ہم نے انھی کالموں میں ایک مرتبہ سنائی بھی تھی ، یہ دونوں ''دنیا'' نامی بڑھیا کے بیٹے ہیں لیکن یہ پتہ بیچاری دنیا کو بھی نہیں ہے کہ کون اس کے کس شوہر سے ہے کیوں کہ شوہر بدلتے رہتے ہیں، اس کے ''الزبتھ ٹیلر''سے بھی زیادہ شوہرہیں، دراصل موصوفہ کو دنیا میں صرف ایک ہی شوق ہے، شوہر کرنا اورچھوڑنا ، چنانچہ حافظ شیرازی نے اس کی اس ''شوہربدلو'' مزاج کے بارے میں کہا ہے کہ
مجودرستی عہد ازجہاں سست نہاد
کہ ایں عجوزہ عروس ہزار داماد است
اس کی طبیعت ہی ایسی ہے کہ اتنی جلدی جلدی کوئی لباس بھی نہیں بدلتا جتنی جلدی جلدی ہی ''سرتاج''بدلتی ہے۔ ابھی کسی ''سرتاج'' نے اس کے سرکو چھوا بھی نہیں ہوتا ہے کہ خود کو پیروں میں جوتا بن کر پاتا ہے ،یہ ساری باتیں ہمیں اپنے اس بزرگ نے بتائی ہیں جس سے ہماری ملاقات کبھی کبھار آئینے میں ہوجاتی ہے اوریہ بات بھی انھوں نے بتائی ہے کہ ''سچ'' اور''جھوٹ'' اسی عروس ہزارداماد کے بیٹے تو ہیں لیکن ان کی ولدیت کے بارے میں محترمہ خود بھی ''شور'' نہیں ہے لیکن پھربھی اس کی پسندیدگی جھوٹ سے زیادہ ہے کہ اسے خوش کرنے کا فن آتا ہے ۔
ایک شعر ذرا بگاڑا ہے، معذرت کے ساتھ کہ
سنا ہے جھوٹ بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
جب کہ سچ کے منہ سے کانٹے فائر ہوتے ہیں
آخرایک دن دونوں نے ماں کی اجازت سے شہر کا قصد کیا کہ کب تک گاؤں میں کھڑے پانی کا جوہڑ بنے رہیں گے ، شہر جاکر اپنی روانی دکھانا چاہیے۔ دونوں چل پڑے۔ راستے میںایک تالاب نظر آیا تو جھوٹ نے سچ سے کہاکیوں نہ اس تالاب میں نہایا جائے۔ سادہ لوح سچ نے مان لیا۔ دونوںلباس اتار کر نہانے لگے تو جھوٹ نے سچ کو غوطے لگانے میں مصروف کیا اور خود چپکے سے باہرنکل کر سچ کا لباس پہن لیااور اپنے لباس کو اس کے اندر چھپا لیا ۔ سچ کو جب تک سچ کا پتہ چلتا ، جھوٹ یہ جا وہ جا ہوچکاہے ۔ لباس تو اس نے سچ کا پہنا رکھا تھا، اس لیے شہر میں کامیابیاں سمیٹنے لگا، ادھر بیچارا سچ تالاب سے نکلے تو کیسے نکلے، لباس تو جھوٹ نے اڑا لیا ہے، ننگا نکلے گا تو تماشا بن جائے گا۔ لوگ دیوانہ سمجھ کر پتھر ماریں گے ، اس لیے تالاب ہی میں رہا اور آخر کار ڈوب گیا ۔
ادھر جھوٹ نے ننانوے عشاریہ ننانوے شہرپر قبضہ کیا ہے ، امیر الامرا بن گیا ہے ،وزیر بن گیا ہے ، صدر، چیئرمین بن گیا تھا ، تھانیدار، تحصیلدار، ٹھیکیدار بلکہ سرکار بن گیا ہے۔ ہرہرجگہ اس کا بول بالا ہے، جلسوں میں تقریریں کررہا ہے، اخبارات میں بیانات دے رہا ہے ،چینلات پر جلوے دکھاتا ہے ،کالموں میں دانا دانشوری کر رہا ہے اورسچ کے لباس میں فوٹو سیشن کررہاہے ، یعنی جدھردیکھیے ادھر تو ہی تو ہے :
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
ننانوے عشاریہ ننانوے جھوٹ زندہ باد اورسچ بہ تالاب اندر مردہ باد۔ یہ ننانوے اعشاریہ ننانوے جھوٹ ''درلباس'' سچ کا کمال ہے کہ لوگ اسی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں جو بیماریوں کاسرچشمہ ہے ۔ ان لیڈروں سے مسائل حل کراتے ہیں جو ابوالمسائل ہیں ، ان بے انصافوں سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں جو انصاف کو پکوان بناکر ہڑپتے ہیں ، ان مسیحاؤں سے مسیحائی کی امید رکھتے ہیں جو ام الا مراض ہیں، ان لوگوں سے روٹی کپڑا مکان مانگتے ہیں جو روٹی کپڑا مکان چھینے ہوئے ہیں ، ان لوگوں سے جمہوریت کے امیدوار ہیںجو شاہی خاندان ہیں ، ان سے روشنی کی توقع رکھتے ہیں جو بحرظلمات کے باسی ہیں ، ان سے آزادی مانگتے ہیں جن کے خون میں انگریزوں کی ''سفیدی'' قدموں میں ان کی آنکھوں کی ''سبزی'' بسی ہوئی ہے ، ان سے حریت مانگتے ہیں جو اپنے قدیم آقاؤں کے اب بھی غلام ہیں۔ ان سے اسلام کی امید لگائے بیٹھے ہیں جو دن رات اسلام کو انڈسٹری بنا کر بیج رہے ہیں، چلارہے ہیں اورکمارہے ہیں ۔ اس دانادانشور نے جس سے ہماری ملاقات ہوئی ہے، باقاعدہ حساب کتاب کرکے جمع تفریق اورضرب وتقسیم کر کے ثابت کیا ہے کہ اس وقت ننانوے اعشارہ ننانوے فی صد جھوٹ آن پروگریس ہے، ہرجگہ، ہروقت اورہرہرچیزمیں۔ جب کہ اعشاریہ ننانوے سچ یا تو تالاب میں ڈوب کر مر چکا ہے یا تالاب سے نکل کر کسی جنگل میں پتوں کا لباس پہن کر چھپتا پھرتا ہے ۔
کچھ ایسی بات اڑی ہے ہمارے گاؤں میں
کہ چھپتے پھرتے ہیں ہم بیریوں کی چھاؤں میں