حکومتی اخراجات میں کمی
پی آئی اے کے تقریباً 30 جہاز عرصے سے گراؤنڈ ہیں جن کی مرمت پر توجہ ہی نہیں دی گئی
حکومتی ڈھانچے کا حجم اور اخراجات میں کمی کے حوالے سے بنائی گئی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ پانچ وفاقی وزارتیں و دیگر وزارتوں میں ضم اور ڈیڑھ لاکھ آسامیاں ختم کی جائیں تاکہ حکومتی اخراجات کم کیے جاسکیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں میاں شہباز شریف نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں کمی ہماری ترجیح ہے۔ حکومت کی ادارہ جاتی اصلاحات کا مقصد قومی خزانے پر بوجھ کم کرنا اور عوام کو فراہم کی جانے والی سروسز میں بہتری لانا ہے۔
وزیر اعظم نے یہ ہدایت بھی کی کہ جو ادارے عوام کے مفاد میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہے انھیں ختم کرکے قومی خزانے پر بوجھ کم کیا جائے۔ یہ ہدایت لگتا ہے کہ صرف مخصوص سرکاری اداروں کے لیے ہے ایوان صدر اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ ان میں شامل نہیں،کیونکہ حالیہ بجٹ میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بجٹ بڑھایا گیا ہے، جس میں کمی تو کیا کی جاتی بلکہ گزشتہ بجٹ میں جو رقم مختص تھی، اس میں گزارا کیا جاسکتا تھا مگر ایسا کرنے کے بجائے بجٹ میں دونوں اہم اداروں کا بجٹ بڑھایا گیا ہے جو غلط ہے۔
ادھر سندھ حکومت نے بھی عوام پر یہ احسان کیا ہے کہ سندھ کے سرکاری دفاتر میں پلاسٹک کی بوتلوں میں جو پانی خریدا جاتا تھا، ان بوتلوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے، جس کا استعمال اب ضرورت سے زیادہ فیشن بن چکا ہے۔ سندھ حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ سرکاری دفاتر میں اب کون سا پانی استعمال ہوگا، کیونکہ صوبائی دارالحکومت کراچی ہی کو لیں تو یہاں باہر سے فراہم کیا جانے والا مضر صحت پانی سرکاری طور پر واٹر بورڈ فراہم کرتا ہے یا کراچی کے ان علاقوں میں جہاں بورنگ کا پانی کھارا نہیں وہ ویسے ہی یا ابال کر استعمال کیا جاتا ہے اور بورنگ کا یہ پانی شہر میں منرل واٹر کے نام پر کیمیکل ملا کر فروخت ہوتا ہے یا بعض نجی اداروں نے شہر کے بعض علاقوں میں فلٹر پلانٹ لگائے ہوئے ہیں جہاں سے غریب پانی حاصل کر کے استعمال کرتے ہیں۔
کراچی میں بورنگ کا پانی ایک منافع بخش کاروبار بنا ہوا ہے اور بڑے اداروں سمیت چھوٹے دکانداروں نے بورنگ کرا کر پانی فروخت کرنے کی دکانیں کھول رکھی ہیں۔ بڑے ادارے اپنا پانی مہنگے داموں سرکاری دفاتر میں فراہم کرتے ہیں اور حکومت سے لاکھوں روپے بل وصول کرتے ہیں اگر یہ فراہمی بند ہوگئی تو حکومت کو ماہانہ کروڑوں روپے کی بچت ہونا تو ممکن ہے مگر اعلیٰ سرکاری افسران یہ بچت کیوں ہونے دیں گے؟ وہ اپنے لیے پانی اپنے گھروں سے لائیں گے جو سرکاری گاڑیاں استعمال کرتے ہیں وہ تو اپنا پانی لے آئیں گے کیونکہ وہ شہر کا وہ پانی تو استعمال نہیں کریں گے جو مضر صحت ہے اور شہری استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور پیٹ کی مختلف بیماریوں کا شکار رہتے ہیں اور یہ مسئلہ ملک بھر میں ہے۔
یوں تو حکومت نے مختلف سفید ہاتھی پال رکھے ہیں جن میں پی آئی اے، اسٹیل مل کراچی اور دیگر ادارے شامل ہیں، جن کی کارکردگی نہ ہونے کا ذکر وزیر اعظم نے کیا ہے۔ ایسا ذکر وزیر اعظم کرتے رہے ہیں مگر اب وزیر خزانہ کی زیر قیادت بنائی گئی رائٹ سائزنگ کمیٹی نے اپنی تجاویز حکومت کو دے دی ہیں اور اگر وزیر اعظم بھی حقیقی طور پر چاہتے ہیں کہ قومی خزانے پر بوجھ کم ہو تو ان تجاویز پر فوری عمل سے ہی سرکاری بچت ہو سکتی ہے۔
ایک خبر کے مطابق پی آئی اے کے تقریباً 30 جہاز عرصے سے گراؤنڈ ہیں جن کی مرمت پر توجہ ہی نہیں دی گئی اور انھیں محفوظ بھی نہیں رکھا گیا جن کی کھڑکیوں کے ٹوٹے شیشوں کے باعث ان خراب پڑے جہازوں میں پرندوں نے گھونسلے بنا لیے ہیں جو ہوائی اڈوں سے پرواز کرنے والے جہازوں کے لیے بھی خطرہ ہیں کیونکہ پرندے بھی رزق کی تلاش میں ان خراب جہازوں سے باہر آ کر اڑتے ہیں اور جہازوں سے ٹکرا کر انھیں بھی ضرور نقصان پہنچاتے ہوں گے۔ پی آئی اے کے ذمے دار افسروں کی کیا یہ لاپرواہی اور غفلت نہیں کہ جنھوں نے تیس جہازوں کے ناقابل پرواز ہونے کے بعد ان کی فوری ضروری مرمت بھی نہیں کرائی اور ان جہازوں کو گراؤنڈ کرکے اپنی ذمے داری پوری کردی اور انھیں بھول گئے جس کے بعد یہ خراب جہاز پرندوں کا مسکن بن چکے ہیں کیا کبھی ایسے افسروں کی باز پرس ہوئی؟
پی آئی اے اور اسٹیل مل ہی نہیں اور بھی متعدد وزارتیں اور سرکاری ادارے ہیں جو قومی خزانے پر بڑا بوجھ ہیں اور وہاں کے ملازم خصوصاً افسران ان اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرچکے ہیں۔ پی آئی اے مسلسل خسارے میں اور اسٹیل مل سالوں سے بند پڑی ہے جس کی اربوں روپے کی اپنی پراپرٹی ہے جو فروخت کرکے حکومت آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان چھڑا سکتی ہے مگر نہیں چھڑا رہی کیونکہ حکومت قرض پر قرض لیے جا رہی ہے اور حکومتی عہدیدار اور سرکاری افسران آئی ایم ایف کے قرضوں سے تنخواہیں لے اور پل رہے ہیں اور عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبے کراہ رہے ہیں، مگر حکومت فوری طور قومی خزانے سے اضافی بوجھ کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ابھی رائٹ سائزنگ کمیٹی کی تجاویز آئی ہیں جن پر وفاقی کابینہ غور کرے گی۔ ممکن ہے ختم کی جانے والی وزارتیں ختم یا ضم ہونے پر کابینہ ایک اور کمیٹی بنا دے کیونکہ یہاں ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔
ملک آئی ایم ایف کے اس قدر کنٹرول میں آچکا ہے کہ وفاقی حکومت کہہ رہی ہے کہ آئی ایم ایف ہماری کوئی بات نہیں مانتا، اس لیے حکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر بے بس ہے۔ یہ بات تو قرضے لینے والوں کو پہلے سوچنی چاہیے تھی، اب تو یہی ہو سکتا ہے کہ حکومت قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے اداروں سے فوری جان چھڑائے۔ حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے ڈاؤن سائزنگ فوری کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کو راضی کرے جو اپنے سیاسی مفاد کے لیے بے روزگاری بڑھانا نہیں چاہے گی مگر یہ ملک دشمنی ہوگی۔ حکومت کے موجودہ اخراجات اور عیاشی موجودہ حالات میں ملک دشمنی ہی ہے جس پر فوری فیصلے ضروری ہیں۔