رہائی کی دم توڑتی اُمیدیں
میاں نوازشریف کو بھی ایک نہیں بلکہ تین بار قبل از وقت اقتدار سے محروم کردیا گیا
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری سے خان صاحب اور اُن کی پارٹی کو بہت دھچکا پہنچا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے اُن کے سر پر سے بہت بڑا ہاتھ اُٹھ گیا ہے، وہ آج تک جو کچھ کرتے رہے، اس میں انھیں بہت بڑی سپورٹ اور آشیر واد حاصل تھی۔2014 کے دھرنے سے لے کر9 مئی 2023 اور اس کے بعد بھی جو کچھ ہوتا رہا، اس میں ایسے ہی حمایتیوں کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس سارے عرصے میں بڑی دیدہ دلیری اور دبنگ طریقے سے سیاست کی۔ ڈٹ کے کھڑا ہے خان اور خان ہماری ریڈ لائن کا نعرہ کوئی یونہی نہیں لگایا جاتا تھا۔ زمان پارک میں کئی ماہ سے جاری احتجاج میں ورکروں کی تربیت کی جاتی رہی کہ خان کی گرفتاری کی صورت میں ری ایکشن کے طور پرکیا کچھ کرنا ہے۔
ایسا ممکن ہرگز نہیں ہے کہ گرفتاری کے فوراً بعد سارے ملک میں ایک ہی طرز کے حملے شروع ہوجائیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے، جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو اچانک شہید کر دیا گیا تو سارے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے لیکن کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہ تھا جس میں ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہو، حالانکہ اس وقت ملک میں ایک ڈکٹیٹرکی حکومت تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ اس اندوہناک سانحے کے پیچھے بھی انھی کا ہاتھ ہے، لیکن پیپلزپارٹی نے اپنے کارکنوں کو ایک بار بھی ریاستی اداروں کے خلاف نہیں بھڑکایا، بلکہ آصف علی زرداری نے تو اپنے جوشیلے اور غصے میں بھرے لوگوں کو جو '' پاکستان نہ کھپے'' کا نعرہ لگا رہے تھے مزید اشتعال دلانے کے بجائے انھیں صبر سے رہنے کی تلقین کی اور پاکستان کھپے کا جوابی نعرہ دیا۔ یہی فرق تھا اور ہے خان کی سیاست میں اور دوسرے سیاستدانوں کی سیاست میں۔
میاں نوازشریف کو بھی ایک نہیں بلکہ تین بار قبل از وقت اقتدار سے محروم کردیا گیا اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے بھی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا لیکن انھوں نے بھی کبھی اپنے چاہنے والوں کو اس طرح کی ملک دشمن کارروائیوں پر نہیں اکسایا۔
خان آج بھی اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اُن کا خیال ہے اُن کی کامیابی کا سارا دار و مدار مزاحمتی سیاست میں مضمر ہے، وہ جب تک اشتعال انگیزی جاری رکھیں گے اُن کی سیاست چلتی رہے گی۔ انھیں میڈیا کی ہیڈ لائنوں میں رہنے کا ہنر آتا ہے اور اسی لیے وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی روزانہ ایک ایسا بیان جاری کردیتے ہیں جس پر ہمارا میڈیا سارا دن تبصرے کرتا رہتا ہے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کو بھی ہر روزکوئی ایسی خبر کا انتظار رہتا ہے جس پر وہ اپنی ریٹنگ بڑھاتا رہے اور شام کو ٹاک شوز میں سیاسی تبصرہ نگاروں کو مدعو کر کے اپنے پروگراموں کو چٹ پٹا بناسکے۔
8 فروری کے الیکشن سے لے کر آج تک کوئی شام ایسی نہیں گزرتی جس میں خان صاحب کے کسی بیان کو موضوع گفتگو نہیں بنایا گیا ہو۔ خان صاحب جیل میں رہتے ہوئے بھی ساری قوم کو اپنی جانب متوجہ کیے ہوئے ہیں، وہ روز ایک ایسا بیان جاری کر دیتے ہیں جو اُن کے پچھلے بیان کی مکمل نفی کر رہا ہوتا ہے۔
آج کل وہ سخت اضطراب اورکشمکش میں ہیں۔ فیض حمید کی گرفتاری سے قبل انھیں ریلیف ملنے کی کوئی اُمید و آس ضرور تھی لیکن اُن کے تحویل میں لیے جانے کے بعد یہ آس واُمید بھی دم توڑ گئی ہے۔ اب معلوم نہیں انھیں کب جیل کی سلاخوں سے باہر نکالا جائے گا، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کے پاس سیاست کرنے کے لیے درکار وقت کم ہوتا جا رہا ہے، وہ بظاہر صحت مند اور اسمارٹ ابھی بھی ہیں لیکن یہ اسمارٹ نیس ہر وقت قائم نہیں رہے گی، نجانے کس لمحہ اُن کے اعصاب جواب دے جائیں ۔ جس طرح میاں نوازشریف آج ویسی سیاست ہرگز نہیں کر پا رہے ہیں جیسی وہ سابقہ ادوار میں کیا کرتے تھے۔
درازی عمر نے انھیں کنارہ کشی پر مجبورکردیا ہے۔ خان صاحب ایک اسپورٹس مین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عام انسان بھی ہیں۔ وہ کب تک اپنے بڑھاپے کو ٹالتے رہیں گے، ایک نہ ایک دن تو انھیں کمزور ہونا ہی ہے۔ انھوں نے اپنا متبادل بھی پارٹی میں نہیں بنایا ہے جو اُن کے بعد پارٹی کو اسی طرح لے کر چلے جیسے وہ چلا رہے ہیں۔ آج سے پہلے وہ سمجھ رہے تھے کہ بہت جلد وہ قید سے باہر ہونگے۔ مقدمات سے اگر بری نہ بھی ہوئے تو کم ازکم ضمانت پر ضرور رہا ہو جائیں گے، جس طرح مسلم لیگ نون کے رہنما اُن کے دور میں عدالتوں سے ضمانتیں لے کر رہا ہوتے رہے۔ مگر اب یہ اُمید بھی دم توڑتی جا رہی ہے۔ فیض حمید کا کورٹ مارشل جب تک مکمل نہیں ہوجاتا صورتحال واضح نہیںہوگی۔ خان صاحب کو ڈر اور خطرہ لاحق ہے کہ فیض حمید کے خلاف تحقیقات میں اُن کے کارنامے بھی سامنے آجائیں گے اور وہ مزید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ اسی لیے وہ اپنے ساتھ ساتھ فیض حمید کا ٹرائل بھی کھلی عدالت میں کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اُن کا مقصد صرف اور صرف کورٹ مارشل کو متنازع بنانا ہے۔
کھلی عدالتوں میں تو اُن کے وکیل 190 ملین پونڈزکے کیس میں پیش نہیں ہوتے ہیں اورکیس کو حتمی بنانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، جیسے انھوں نے فارن فنڈنگ کیس میں طریقہ اپنایا ہواتھا۔ اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ فیض حمید کا معاملہ بھی اسی طرح طوالت کا شکار ہوجائے اور قوم کے سامنے حقیقت کھل کر واضح نہ ہو۔ سول عدالتوں میں کیس کو پرو لانگ کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ کبھی وکیل نہ آئے،کبھی وکیل ہی تبدیل کرلیا جائے اورکبھی سننے والے ججوں پر اعتراض لگا کر اُن پر عدم اعتماد کا اظہار کر لیا جائے، لیکن فوجی عدالتوں میں یہ ممکن نہیںہوتا۔ ہماری سول عدالتوں میں زیر التو ہزاروں کیسوں کی وجہ بھی یہی ہے۔ کمزور عدالتی نظام کی وجہ سے اصل فائدہ ملزم ہی کو پہنچتا ہے۔
عدالت پر عدم اعتماد کر کے اس کے روبرو بیان دینے سے انکارکرنا بہت ہی کامیاب حربہ ہوتا ہے اور ہمارے بہت سے سیاستدان یہی حربہ استعمال کر کے خود کو بے قصور اور معصوم ثابت کرتے رہے ہیں۔ خان صاحب بھی اسی حربے کو بڑی ہشیاری اور جانفشانی سے استعمال کر رہے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے عوام کو بھی سیاست میں مصروف اور مشغول رکھنے کے لیے ہر ماہ ایک جلسے کا اعلان کردیتے ہیں۔ اب چاہے وہ جلسہ ہو یا نہ ہو لیکن عوام اُن کی جانب متوجہ ضرور رہتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ میں چار سے پانچ مرتبہ جلسے کا اعلان کیا گیا لیکن عین وقت پر اُسے ملتوی کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ پہلے سے سوچا سمجھا پلان ہوتا ہے، اگر واقعی کوئی جلسہ کرنا ہو تو جلسے کی تیاری بھی کی جاتی ہے۔
کئی دن پہلے اسٹیج کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ ایک ماحول بنایا جاتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ دوسرے شہروں سے مجمع بلا لیا جائے اور اُن کے بیٹھنے کا بھی انتظام نہ کیا جائے۔ ابھی 22 اگست کے جلسے سے پہلے ہم نے یہی کچھ دیکھا تھا۔22 اگست کی صبح تک جلسہ گاہ میں کوئی ایک کرسی بھی نہیں لگائی گئی اور بقول اُن کے کارکن اپنے گھروں سے چل پڑے تھے۔ ایسی صورتحال میں یہی کچھ ہونا تھا جو اعظم سواتی اور پارٹی چیئرمین بیرسٹرگوہرکی اچانک خان سے ملاقات کے نتیجے میں ہوا۔ اب ایک اور نئی تاریخ دے دی گئی ہے۔ دیکھنا ہے 8 ستمبر کو بھی جلسہ ہوتا ہے یا نہیں، اگر نہ ہوا تو پھر ہمارا یہ خیال درست ثابت ہوجائے گا کہ یہ سب کچھ اپنے لوگوں کا لہوگرم رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔