معمر افراد اور اسلام کی روشن تعلیمات
حضور نبی اکرم ﷺ نے ہر طرح کے معاشرتی معاملات میں بھی بڑوں کی تکریم اور ان کے ادب و احترام کا حکم دیا ہے۔
دینِ اسلام ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے، جس میں زندگی گزارنے کے تمام تر طریقے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی مکمل تفصیلات ملتی ہیں۔ حقوق انسانی کی جتنی رعایت اور احترام کی تاکید ہمیں دینِ اسلام میں ملتی ہے وہ دوسرے مذاہب میں کہیں نہیں ملتی پھر حقوق انسانی میں بطور خاص معمر افراد کے حقوق کا معاملہ درپیش ہو تو اسلام کا رویہ محض عدل و انصاف تک محدود نہیں رہتا بلکہ سراسر احسان پر مبنی قرار پاتا ہے۔
ہمارا دین اس قدر خوب صورت اور آسان ہے کہ یہ عمررسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ عمررسیدہ افراد کا بے حد ادب و احترام فرمایا کرتے تھے جس کی ایک جھلک ہمیں فتح مکہ کے بعد رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات میں نظر آتی ہے، جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بوڑھے والد آپ ﷺ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجلس میں لائے گئے تو آپ ﷺ نے ان کی تعظیم میں کیا الفاظ ارشاد فرمائے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں اپنے والد محترم حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں لایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: آپ اپنے والدِ بزرگوار کو گھر میں ہی رکھتے، میں خود وہاں آجاتا۔
(حاکم، المستدرک ، 3: 272، رقم: 5065)
یہ عمررسیدہ افراد کی عملی قدردانی ہے، جس کا آپ ﷺ ثبوت فراہم کررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابوقحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں۔ بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم وتکریم سے کتراتا ہے؛ حالاں کہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی ہر صورت تعظیم کی جائے۔ آپ ﷺ نے بزرگوں کی تعظیم کو اجلال الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
بوڑھے مسلمان کی تعظیم، اللّہ کی تعظیم
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بوڑھے مسلمانوں کی تعظیم کرنا اللّہ تعالٰی کی تعظیم کا حصہ ہے۔
(ابوداؤد، السنن، کتاب الادب، باب فی تنزیل الناس منازلہم، 4: 261، رقم: 4843)
اسی طرح بزرگوں کی عزت و تکریم کی عظمت کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری امت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔ ( کنز العمال، 3: 17، رقم: 3106)
بوڑھوں کا نماز میں بھی خیال رکھنا
حضور نبی اکرم ﷺ کے سن رسیدہ افراد کے ساتھ احساس ہم دردی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ باجماعت نماز میں عمررسیدہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے قرأت میں تخفیف کی تاکید فرماتے جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللّہ!خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نصیحت کرنے میں اس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔
فرمایا تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھانی چاہیے کیوںکہ ان میں کم زور، بوڑھے اور ضرورت مندبھی ہوتے ہیں۔
(بخاری، 1: 248، رقم: 670)
سماجی اور معاشرتی معاملات میں بڑوں کی تکریم
حضرت حسن بن مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ اللّہ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہوچکے ہیں۔
(بیہقی، شعب الایمان، 7: 460، رقم: 10987)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔
(المستدرک ، 1: 131، رقم: 210)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے اس میں سے نوش فرمایا اور آپ کے دائیں جانب ایک نوعمر لڑکا تھا اور بائیں جانب عمررسیدہ حضرات تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ عمررسیدہ لوگوں کو دے دوں۔
(بخاری، 2: 829، رقم: 2224)
اس حدیث مبارک میں غورطلب امر یہ ہے کہ آپ ﷺ نے معمر افراد کے بائیں جانب بیٹھے ہونے کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی۔ مذکورہ احادیث مبارکہ سے عمررسیدہ افراد کی عزت و تکریم کا درس ہمیں اسوۂ رسالت مآب ﷺ سے ملتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ہر طرح کے معاشرتی معاملات میں بھی بڑوں کی تکریم اور ان کے ادب و احترام کا حکم دیا ہے۔
درج بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ نے ہر موقع پر بوڑھوں کا لحاظ فرمایا اور ان کا اکرام آپ ﷺ نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، ہر قسم کی رشتے داری اور تعلق سے بالا تر ہو کر آپ ﷺ نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو ترجیح دی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے جہاں معاشرتی، اخلاقی اور معاشی حقوق کی ادائی کا حکم دیا ہے، وہاں بالخصوص عمررسیدہ افراد کو بہت سے حقوق بھی دیے ہیں۔ انہیں قابل عزت و تکریم اور باعث برکت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔
رب کا انعام اپنے بوڑھے بندے پر
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو اللّہ تعالٰی اس سے تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے، جنون، کوڑھ اور برص اور جب پچاس سال کا ہوجاتا ہے تو اللّہ تعالٰی اس کے حساب میں تخفیف کردیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہوجاتا ہے تو اللّہ تعالٰی اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہوجاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہوجاتا ہے تو اللّہ تعالٰی اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللّہ تعالٰی اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللّہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے اور اس کے گھر والوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرماتے ہیں۔
(مسنداحمد بن حنبل، 3: 127، رقم: 13303)
عہدخلافت راشدہ اور عمررسیدہ لوگ
عہد رسالت مآب ﷺ کے علاوہ عہدخلافت راشدہ میں بھی عمررسیدہ افراد کے حقوق کا خصوصی خیال رکھا گیا اور انہیں کئی مراعات دی گئیں۔ جو بوڑھے افراد کام کاج کے قابل نہیں تھے ان کے لیے وظائف مقرر کردیے جاتے۔ مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلم عمررسیدہ افراد کی بھی امداد کی جاتی، جس کا عہد فاروقی کی درج ذیل مثال سے واضح اندازہ ہوتا ہے۔
ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک جگہ سے گزر رہے تھے، دیکھا کہ ایک نابینا بوڑھا بھیک مانگ رہا ہے۔ آپ نے بھیک مانگنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا الجزیۃ والحاجۃ یعنی جزیہ اور معاشی ضروریات نے مجبور کردیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے جا کر کچھ عطا کیا پھر بیت المال میں لے جاکر خزانچی کو حکم دیا انظریدا واضرباہ یعنی یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو یہ انصاف نہ ہو گا کہ ہم نے جوانی میں ان سے فائدہ اٹھایا اور اب بڑھاپے میں ہم ان کو بھول جائیں۔
الغرض اس کا اور اس قسم کے دوسرے معززین کا بیت المال سے وظیفہ جاری ہوگیا اور ان سے جزیہ ساقط ہوگیا۔ (ابو عبیدہ قاسم، کتاب اموال:57، رقم: 413)
دورحاضر کی نوجوان نسل کو دین اسلام کی تعلیمات اور عملی مثالوں کے ذریعے طبقات انسانی بالخصوص معمر افراد کی تکریم کے لیے راہ نمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ اسوۂ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہوکر انسانیت کے اس اہم طبقے کے ساتھ نرم گفتاری، حسن سلوک اور جذبہ خیر خواہی اختیار کریں۔ ان کے حقوق احسن طریقے سے پورے کریں۔
ضعیف العمری کے باعث چڑچڑاپن فطری تقاضا ہے، لہٰذا بوڑھوں کی خلاف مزاج باتوں پر تحمل اور برداشت اختیار کریں اور صرف نظر کریں تاکہ گھر اور معاشرہ دونوں امن و آشتی کا گہوارہ بن سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو ضعیف العمر اشخاص کی قدرومنزلت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)