ٹریفک حادثات کی روک تھام ضروری
ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال چالیس ہزار افراد ٹریفک حادثات میں اپنی جان کھو دیتے ہیں
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں ایران سے آنے والے زائرین کی بس کھائی میں گرنے سے بارہ افراد جاں بحق اور 33 زخمی ہوگئے جب کہ کہوٹہ کے علاقے میں مسافر کوچ کے حادثے میں چھبیس مسافر لقمہ اجل بن گئے، دونوں حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آئے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں سڑکوں پر جس فراوانی سے انسانی خون بہہ رہا ہے اتنا تو پاک بھارت جنگوں میں بھی جانی نقصان نہیں ہوا ہوگا۔ درحقیقت کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات میں موجود اوور ٹیکنگ کا شوق اور تیز رفتاری کا جنون بھی جان لیوا حادثات کا سبب بنتا ہے۔ ٹریفک کنٹرول پر مامور اہلکار اور گاڑیوں کے معیار کی جانچ پڑتال کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی لوٹ مار نے سڑکوں کو ''خون آشام ندیوں'' میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
روزانہ ملک کے کسی نہ کسی کونے سے ٹریفک حادثات کی خبریں ٹی وی چینلز پر نشر ہورہی ہوتی ہیں، اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں ان حادثات کی تعداد 2030 میں 200 فی صد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔ سڑک پر گاڑی وہی چلا سکتا ہے کہ جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو، مگر کیا حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا ڈرائیونگ لائسنس 100 فیصد کرپشن سے پاک طریقوں سے بنائے اور بنوائے جاتے ہیں؟
ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے لیے سب سے پہلے ٹاؤٹس کی تلاش کی جاتی ہے، جیسے ہی ٹاؤٹ ملا، پھر ٹاؤٹ جانے اور لائسنس جانے۔شہریوں کی اکثریت ڈرائیونگ اسکول سے بنیادی تعلیم اور ٹریننگ حاصل کیے بغیر ہی گاڑیوں کو سڑکوں پر دوڑا رہی ہوتی ہے، جس کی بنا پر حادثات کی شرح میں روز بروز بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈرائیونگ اسکول میں نہ جانے کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام الناس کی اکثریت اسکول کی فیس اورinstructor سے ٹریننگ لینا وقت اور پیسہ کا زیاں سمجھتے ہیں۔
گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ روڈ سیفٹی سے منسلک ہے۔ پاکستان میں گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار بھی قابل اعتراض ہے، جو گاڑیاں یہاں بنائی جاتی ہیں وہ حفاظت کے معیار پر پوری ہی نہیں اترتی ہیں، حادثات کے بعد گاڑیوں کو پہنچنے والے نقصانات ہم سب کے سامنے ہی ہیں۔ سب سے پہلے گاڑی بنانے والی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کو پابند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ گاڑی کے معیار پر توجہ دے سکیں۔ ملک میں اس وقت صنعتیں زوال کا شکار ہیں۔
اس میں بننے والی گاڑیوں میں استعمال ہونے والا مواد دو نمبر کوالٹی کا ہوتا ہے جہاں ایک ہی حادثے کے بعد گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے اور جس سے کئی قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں، جب کہ ان میں تحفظ کا کوئی بھی نظام موجود نہیں ہوتا جس سے گاڑی میں سوار افراد کی جانیں بچ سکیں۔ یہاں یہ یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ جو بھی گاڑی باہر اور پاکستان میں بنائی جائے وہ طے شدہ معیار پر پورا اترے اور دورانِ حادثہ فرد کو کسی بڑے حادثے کی وجہ سے پہنچنے والی چوٹوں سے محفوظ رکھے۔ ان کمپنیوں کو ذمے داری دینے کے بعد مزید تحقیق کے ذریعے ان کی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال چالیس ہزار افراد ٹریفک حادثات میں اپنی جان کھو دیتے ہیں اور ہزاروں افراد شدید زخمی اور مستقل طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات میں تیزی رفتاری، غیر محتاط ڈرائیونگ، سڑکوں کی خستہ حالی، گاڑی میں خرابی، اوورلوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہوجانا اور زائد مدت ٹائروں کا استعمال شامل ہے، لیکن ان میں سب سے اہم وجہ سڑک استعمال کرنے والے کا جلد باز رویہ ہے۔
حال ہی میں ایجاد ہونے والا موٹر سائیکل ریڑھا بھی حادثات کا باعث بن رہا ہے جو کہ دور سے آتے ہوئے تو موٹر سائیکل ہی معلوم ہوتا ہے جب کہ روڈ کے اطراف میں موجود تجاوزات اور گاڑیوں کی غلط پارکنگ بھی حادثات کا باعث بنتی ہے، جب کہ ٹریفک حادثات اور مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دلچسپ پہلو بھی سامنے آیا کہ گاڑیوں کے لیے تو موٹر وہیکلز کے قوانین موجود ہیں مگر آہستہ چلنے والی گاڑیاں مثلاً گدھا و بیل گاڑی کے لیے کوئی قانون نہیں ہے، اس وجہ سے روڈ استعمال کرنے والے یہ لوگ قانون سے نہ صرف بالا تر ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ہونے والے ٹریفک حادثات کی بنیادی وجہ بھی ہیں۔
ان افراد کو تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ان کو روڈ استعمال کرنے سے متعلق مکمل آگاہی حاصل ہوسکے، جب کہ نو عمر افراد اپنے پرجوش رویے کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور ٹریفک علامات کے سائن، اور اصولوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، بلکہ اکثر نوجوان تربیت یافتہ ہی نہیں ہوتے اور ان میں موجود تیز رفتار گاڑی چلانے کا جنون بے شمار حادثات کا باعث بنتا ہے۔ موٹر سائیکل رکشہ کے اکثر ڈرائیور نابالغ اور نوآموز ہوتے ہیں جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا۔ اس طرح ٹریفک قوانین سے لاعلمی کے باعث وہ نا صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں، جب کہ بہت سے لوگ اپنے گھروں کے سامنے غیر معیاری اسپیڈ بریکرز بنا کر ٹریفک حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں پر 84 فی صد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور پگڈنڈی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں۔ اوورلوڈنگ حادثات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اوورلوڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات ٹائر پنکچر ہوجاتے ہیں یا ٹائر میں گرمائش زیادہ ہونے کے سبب ٹائر پھٹ جاتے ہیں جس سے بڑی گاڑیوں کو قابو کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ بڑی گاڑیوں کا سامان الٹ کر ساتھ چلنے والی گاڑیوں کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ اسی طرح ہیوی ٹریفک کا معمول کے خلاف اندرونِ شہر میں داخلہ بند ہونا چاہیے، اوور لوڈنگ کرنے والوں پر چالان عائد کرنا چاہیے اور ڈرائیور حضرات کے لیے گاڑی کی رفتار مختص کرنی ہوگی جب کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنا اشد ضروری ہے۔سفر کے دوران موبائل فون یا گاڑی میں نصب ایل سی ڈی کی طرف دھیان بھی بہت سے حادثات کا موجب بنتا ہے۔
سیٹ بیلٹ کو استعمال کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کی جاتی ہے، گاڑی چلاتے ہوئے بمشکل 5 فیصد لوگوں نے سیٹ بیلٹ پہنی ہوتی ہے۔ سیٹ بیلٹ استعمال نہ کرنے کی وجہ سے حادثات کی صورت میں بہت سی قیمتی جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ اب تو نئی گاڑیوں میں پچھلی سیٹوں پر سیٹ بیلٹ کی سہولت موجود ہوتی ہے مگر سیٹ بیلٹ کو پہننے کے لیے ہمارے دل و دماغ راضی ہی نہیں ہوتے۔ ہاں چالان کے ڈر سے موٹر ویز پر سیٹ بیلٹ پہنی جاتی ہے نہ کہ اپنی حفاظت کے لیے۔ صرف 2 فیصد موٹر سائیکل سوار ہی ہیلمٹ پہنتے ہیں۔ ہاں ہیلمٹ نہ پہننے کے کئی بہانے ہم نے پال رکھے ہیں جیسا کہ کسی کو ہیلمٹ پہن کر گرمی لگتی ہے تو کسی سے ہیلمٹ پہن کر موٹرسائیکل ٹھیک طرح سے چلائی نہیں جاتی۔ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ سڑکوں پر کم عمر بچے گاڑی چلاتے ہیں۔
حد تو یہ ہے اکثر کم عمر بچے چاند گاڑی یعنی رکشہ چلا رہے ہوتے ہیں۔ حادثات کی بڑی وجوہات میں کم عمر بچوں کا گاڑی چلانا بھی ہے۔ بہت سے حادثات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی گاڑیوں کی وقت پر ضروری مرمت نہیں کراتے، گاڑی چل رہی ہے تو چلتی جائے، جب تک کہ گاڑی خراب نہ ہو ہم گاڑی کی مرمت پر دھیان ہی نہیں دیتے، جیسا کہ گاڑی کی بریکس کا چیک اپ، بریک آئل کم ہونے کی وجوہات کو چیک کرانا ،گیئر آئل کی تبدیلی، ٹائروں کی مناسب ہوا، مقررہ مدت یا استعمال کے بعد ٹائروں کی تبدیلی، وغیرہ وغیرہ۔ ٹریفک حادثات کی دیگر وجوہات میں حد سے زیادہ اوور لوڈنگ بھی شامل ہے، اوور لوڈنگ چاہے انسانوں کی ہو یا پھر سازو سامان کی ہو، اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسکول ٹائم پر رکشہ، پک اپ میں حد سے زیادہ بچوں کو بٹھایا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ بچوں کو رکشہ اسکول وین میں ٹھونسا جاتا ہے اور بسا اوقات گاڑی اپنا بیلنس برقرار نہیں رکھ پاتی اور کسی حادثہ کا شکار ہو جاتی ہے۔پاکستانی منچلوں میں ون ویلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان بھی حادثات کا باعث بن رہا ہے۔
جسکی ہر فورم پر حوصلہ شکنی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقررہ حد رفتار سے زیادہ اسپیڈ سے گاڑی چلانا بھی حادثات کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ یوٹرن لیتے ہوئے دائیں بائیں اشاروں کا عدم استعمال یا پھر موڑ پر پہنچے کے وقت آخری لمحات میں استعمال اکثر حادثات کا سبب بنتا ہے۔ ملک میں 80 سے 90 فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کے غیر محتاط رویے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، مگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے قطعاً تیار نہیں، اوریہ ہی جان لیوا ٹریفک کے مسائل اور حادثات کی بنیادی وجہ ہے، جب تک ہم اپنے رویوں کو درست نہیں کریں گے اس وقت ٹریفک حادثات میں کمی ممکن نہیں۔ٹریفک حادثات کی روک تھام کے درج ذیل مجوزہ اقدامات کو نافذ العمل کرنے کے لیے عوام اور حکام کو نیک نیتی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔