جس رفتار سے آج پاکستانی ملک چھوڑ کر جارہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے دو سال میں پاکستان سے تقریباً 1.5 کروڑ لوگ وطنِ عزیز کو خیرباد کہہ کر دوسرے ممالک میں سکونت اختیارکرچکے ہیں اور وجہ صرف بے یقینی کی ایک فضا قائم ہے جو کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ نے 77 سال کی محنت سے قائم کی ہے۔
بدقسمتی سے پچھلے 77 سال میں ہم کوئی ایسا میکنزم نہیں بنا سکے جس میں یہ طے کیا جاسکے کہ ملک کو کون چلائے گا؟ کبھی ''میرے عزیز ہم وطنو'' کہہ کر ملک پر اپنی حکومت قائم کرلی جاتی ہے تو کبھی سیاستدان انہی سے گٹھ جوڑ کرکے حکومت کا اسٹیئرنگ خود سنبھال لیتے ہیں اور ملک کے غریب عوام مسلسل اس میوزیکل چیئر کے گیم میں گونگے اور بہرے تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔
آج حالات یہ ہیں کہ ایک عام آدمی پاکستان کے مستقبل کےلیے نہایت ہی پریشان نظر آتا ہے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے کو بھول کر ''پاکستان سے زندہ بھاگ'' کے فارمولے پر عمل پیرا ہے۔ جس کی ایک مثال جون 2023 کا وہ دلخراش حادثہ ہے جو کہ یونان میں پیش آیا جس میں تقریباً 400 پاکستانی سمندر کی بے رحم موجوں کا لقمہ بن گئے۔ یہ دلخراش واقعہ جو میڈیا کی وجہ سے منظرِ عام پر آگیا، ورنہ لاکھوں لوگ ہر سال دوسرے ممالک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کی کوششوں میں اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یا اگر کسی طرح وہاں پہنچ بھی جاتے ہیں تو وہ کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں واللہ اعلم۔
ظلم صرف اشرافیہ یعنی حکمرانوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے عام آدمی تو صرف ذلیل ہونے اور پھانسی لگنے کو پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر کسی عام آدمی کے ساتھ کبھی کچھ غلط ہوجائے تو ہمارا ردِعمل ہمدردی کے چند الفاظ یا تقدیر کا لکھا سمجھ کر خاموش ہوجانا ہوتا ہے لیکن اگر ایسا ہی کوئی ظلم کسی حکمران کے ساتھ ہوجائے تو یہی غریب اور عام آدمی رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ شاید وہ اس لیے کرتے ہیں کہ اگر ایک بڑے آدمی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوسکتی ہے تو وہ تو بہت ہی آسان شکار ہیں اور یہ سوچ عام آدمی کو زیادہ خوف زدہ کردیتی ہے۔
ہمارے نظام عدل کا اندازہ آپ 8 اگست 2024 کی اس خبر سے کرسکتے ہیں، جو کہ تقریباً تمام اخبارات کی زینت بنی، جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب خود معافی کے طلبگار ہیں کہ عدالتیں ستائیس سال تک قتل کے مقدمے کا فیصلہ نہ کرسکیں۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں ایک لمبے عرصے سے سسکیوں اور ظلم کا نظام چل رہا ہے اور اقتدار کی میوزیکل چیئر کا گیم جاری و ساری ہے جس میں ہماری اشرافیہ اپنی عمدہ اداکاری سے کئی عشروں سے عوام کو بیوقوف بنارہی ہے جس کا نتیجہ ہر آنے والا دن عام آدمی کےلیے مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ کچھ اس طرح کا بن گیا ہے کہ اب کسی عام آدمی کا ممبر قومی وصوبائی اسمبلی یا سینیٹر بننا ایک معجزے سے کم نہیں رہا۔ پاکستانی سیاست میں مالی کرپشن کی ابتدا 1985 کے الیکشن کے بعد ہوئی، جب پہلی دفعہ ممبر قومی اسمبلی کو ترقیاتی اسکیموں کے نام پر بجٹ دینا شروع کیا گیا۔ پہلے کے سیاستدان اپنی زمینیں بیچ کو سیاست کرتے تھے اور آج کے پاکستان میں لینڈ گریبر اور ٹھیکیدار سیاستدان بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ آج کے یہ سیاستدان پیسہ لگا کرالیکشن جیتتے ہیں اور اپنی مرضی کی پالیسیاں بنوا کر پاکستان کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے ایک سابق وزیراعظم کے بقول پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک بڑی تعداد لٹیروں سے بھری پڑی ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو انسان طاقتور ہونے کےلیے ایمان بیچتا، مال چھینتا اور خون ریزی کرتا آیا ہے کیونکہ طاقتور ہونے کا نشہ اس قدر ہوتا ہے کہ انسان اس کےلیے سب کچھ کر گزرتا ہے۔
آج کے سیاستدان کروڑوں لگا کر اربوں کماتے ہیں اور اگر پکڑے جاتے ہیں تو انتقام کا رونا روتے ہیں۔ گرفتاری کی صورت میں مہنگا وکیل کرتے ہیں اور ویسے بھی سچ بڑا وکیل ہوتا ہے اور جھوٹ چھوٹا وکیل۔ ان تمام مناظر کو ایک عام آدمی اور خاص طور پر نوجوان نسل پچھلی کافی دہائیوں سے بغور دیکھ رہی ہے اور بہت زیادہ کنفیوزڈ ہے کہ آخر اس ملک میں جھوٹ اور سچ ناپنے کا پیمانہ کیا ہے؟ ملزم کو مجرم بنانا اور مجرم کو ملزم اب ہمارے اس سسٹم کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
آج اگر آپ غور سے پاکستان کے نظام کا مشاہدہ کریں تو آپ کو طاقتوروں کی ٹولیاں وطنِ عزیز کو درندوں کی طرح بھنبھوڑتی نظر آئیں گی اور مظلوموں کی چیخ وپکار سے وطن کی فضائیں بین کرتی محسوس ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل کو جھوٹ و سچ اور اصول و بے اصولی کے سب کاروبار فراڈ لگ رہے ہیں۔ اور اسی لیے آج ان کی پہلی ترجیح ''پاکستان سے زندہ بھاگ'' ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔