بلوچستان دہشت گردوں کوکچل دیا جائے
بلوچستان کے کئی علاقوں کے سرکاری اسکولوں، سرکاری ملازمین بالخصوص اساتذہ کرام کو ہدف بنایا جاتا ہے
بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 14 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 54 افراد شہید ہوگئے جب کہ اسسٹنٹ کمشنر، لیویز، سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 20 افراد زخمی ہوگئے، فورسزکی جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں، بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے مسافر بسیں روک کر شناخت کے بعد 23 مسافروں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا، مقتولین کا تعلق پنجاب کے جنوبی اضلاح سے ہے اور سب محنت کش تھے، قلات، سبی، پنجگور، مستونگ، تربت، بیلہ، گوادر اور کوئٹہ میں بھی دہشت گردانہ حملے کیے گئے ہیں، بولان میں ریلوے پل دھماکے سے تباہ کردیا گیا، پنجاب، سندھ کے لیے ریل سروس معطل ہوگئی ہے۔
بلوچستان میں تشدد کی نئی لہر آئی ہے، جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اتوار کا دن اس حوالے سے بدترین رہا ہے ۔ پاکستان میںدہشت گردی میںملوث گروپس گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز مذہب اور قوم پرستی کی آڑ لے کر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی پشتو بیلٹ میں ہمدردی لیتی ہیں اورسیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہیں جب کہ بی ایل اے، بی ایل ایف اور مجید بریگیڈ بلوچ قومی پرستی کا لبادہ پہن کر سیکیورٹی فورسز اور بلوچستان میں رہائش پذیر دوسرے صوبوں کے باشندوں کے خلاف دہشت گردی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
دہشت گردی کے پیٹرن اور اہداف پر غور کیا جائے تو لگتا ہے کہ یہ سارے گروپس اپنے مشترک مفادات کے لیے ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں اور سہولت کاری بھی کرتے ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کا جرائم پیشہ مافیا گینگزاور وائٹ کالر کریمنلز کے ساتھ بھی مفاداتی رشتہ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد کا مالی نیٹ ورک فعال ہے اور انھیں پاکستان میں سہولت کاری بھی میسر آرہی ہے۔ پاکستان کے سسٹم میں بھی ان گروہوں کی پینیٹریشن کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان ایسے گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے ۔ بلوچستان میں پاک ایران سرحد کے دونوں اطراف بھی ایسے گروہوں کے لیے چھپنے کی جگہیں موجود ہوسکتی ہیں۔ انھیں بیرونی طاقتوں کی آشیرباد بھی حاصل ہے ۔
بلوچستان معدنیات سے بھرپور اوراہم ترین تجارتی گزر گاہ ہے۔ گیس، تیل، تابنے،سونے کے ذخائر بھی ہیں۔ سی پیک کی کامیاب کا انحصار گوادر بندرگاہ اور بلوچستان میں قیام امن پر ہے۔ دہشت گردوں اور دہشتگردی کو زندہ رکھنے کے لیے تین چیزیں اہم ہیں یعنی پیسہ، ہتھیار اور تربیت، پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہوں کو یہ تینوں چیزیں میسر ہیں، ان کے بغیر پاکستان میں دہشت گردی ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان کے سمندری راستے مشرق وسطیٰ سے ملتے ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے آبنائے ہرمز، خلیج عمان اور بحیرہ عرب تک پہنچنا آسان ترین راستہ ہے۔ بلوچستان سے متصل سمندر، مشرق و مغرب کا سنگم اور عالمی سمندری جہاز رانی کا اہم ترین راستہ ہے۔
اس محل وقوع کی وجہ سے پاکستان دشمن قوتوں کا نشانہ بلوچستان بنا ہوا ہے۔ ان ساحلوں تک رسائی اور قبضہ کرنا، جن پاکستان دشمنوں کا ہدف اور خواب ہے، پاکستان کے پالیسی سازوں کو یقینی طور پر ان کے بارے میں پوری معلومات ہوں گی۔ان حملوں میں نہ صرف شدت پسندوں کی حکمت عملی میں ایک واضح فرق نظر آیا بلکہ جو ہتھیار استعمال کیے گئے وہ بھی ان کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ پہلو نہ صرف بلوچ شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی پرتشدد صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کے ٹی ٹی پی سے بھی تعلق استوار ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا کی فوج نے تامل ٹائیگرز کو کچل دیا، یوں سری لنکا میں امن قائم ہوا تھا۔
بلوچستان کے کئی علاقوں کے سرکاری اسکولوں، سرکاری ملازمین بالخصوص اساتذہ کرام کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی جدید خطوط پر تعمیر اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے۔ بلوچستان کے دہشت گرد گروہ تاریخی حقائق کو مسخ کرکے نئی نسل کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جدوجہد آزادی میں بلوچستان کا کردار پاکستان کے کسی بھی دوسرے خطے سے کم نہیں ہے۔ 1940 میں جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو قاضی عیسیٰ بلوچستان کی نمایندگی کر رہے تھے۔ انھوں نے اس قرارداد کی بھر پور حمایت کی جس نے بالاخر قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔
تاریخ کے ان اوراق کو بلوچ عوام کے سامنے لانا ضروری ہوگیا ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم سے بلوچستان کو ملنے والے حقوق اور وسائل میں اضافہ کیا گیا ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے میگا پروجیکٹس بلوچستان کی سماجی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں اور ریاست کے درمیان رشتہ کمزور کرنے کی کوششوں سے وہ ترقیاتی منصوبے متاثر ہوسکتے ہیں جو اس صوبے کی پسماندگی، افلاس اور محرومی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ شرپسند اور ریاست مخالف عناصر بلوچستان کے حوالے سے ریاست پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کر کے بلوچ نوجوان نسل کو گمراہ کر کے ریاست کا باغی بنا رہے ہیں۔
ان کا مقصد بلوچستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور بدامنی کو فروغ دینا ہے۔ تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام پاکستان کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے تھے۔ افسوس کہ آج چند لوگ اپنے آباؤ اجداد کے وطن پرستی کے راستے کو چھوڑ کر غداروں کے بہکاؤے میں آکر ملک دشمنی کی راہوں پر چل پڑے ہیں، تاہم بلوچستان کے غیور عوام دشمن کی ایسی ناپاک سازش ناکام بنانے کا بھر پور عزم رکھتے ہیں۔
بلوچستان کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پاک فوج میں شمولیت اختیار کررہی ہے۔ دفاع وطن کے مقدس فریضے سے منسلک ہوکر تقریباً 20ہزار نوجوانوں کو نہ صرف باعزت روزگار میسر آیا ہے بلکہ بلوچستان کے عوام میں افواجِ پاکستان سے اپنائیت کے جذبات کو بھی بڑھاؤ ملا ہے۔ پاک فوج نے بلوچستان کے دُور دراز اضلاع میں واقع تعلیمی اداروں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ رسمی اور فنی تعلیمی اداروں کے قیام پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی ہے جس سے 25 ہزار سے زائد بلوچ طلبا و طالبات کو جدید اور معیاری تعلیمی سہولتوں سے استفادے کا موقع میسر آیا ہے۔ اس طرح طبی سہولیات کی فراہمی نے بھی بلوچ عوام کی کٹھن زندگی کو آسان بنایا ہے۔ المختصر! پاک فوج کی طرف سے بلوچستان کے عوام میں آسانیاں بانٹنے کا یہ عمل وہاں کی نسل نو میں پاکستانیت کے جذبات پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے اور ان میں قومی زندگی میں اہمیت حاصل ہونے کا احساس بیدار ہوا ہے۔
آج اس صوبے کو لہو لہو کرنے کے لیے پاکستان دشمن قوتیں پیش پیش ہیں۔ آج شدت پسند تحریکیں اور ان کے نام نہاد لیڈر اس سازش کا حصہ ہیں جو پاکستان کو کمزور کرنے کے مشن پر گامزن ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بلوچستان پاکستان میں ترقی کے لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ اسی طرح سے بلوچستان کے معاشی استحصال اور سیاسی محرومیوں میں بیرونی طاقتوں کا کردار بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔
جنھوں نے مالی و سیاسی معاونت سے بلوچستان کے اندرونی حالات کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں ایک سیاسی حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے، جو صوبے کے پیچیدہ مسئلے کے تمام پہلوؤں سے جامع طور پر نمٹ سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں ایک سیاسی عمل کا آغاز کیا جائے جو ایک کل جماعتی کانفرنس سے شروع ہو جس میں تمام سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا احاطہ کیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔