کوڑیوں میں مشقت
جانے کس کی کمر توڑ مشقت ہوگی۔ تاریخ پڑھو تو ایسے حقائق سامنے آتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
وہ ایک قدیم رومن سڑک تھی جو قبل مسیح کے آخری برسوں میں تعمیر ہوئی، یہ 20 فٹ چوڑی تھی اور ٹھوس لاوا پتھروں کی بنی ہوئی تھی۔ یہ Apian Way کہلاتی تھی اور سیدھی دارالحکومت روما کو جاتی تھی۔
مشہور باغی اسپارٹکس اور اس کے ساتھیوں کو جب کچلا گیا تو ان کو درس عبرت بنانے کے لیے اس سڑک پر ایک خاص فاصلے پر مصلوب کردیا گیا۔ پہلے تو ان کی چیخیں اور سسکیاں نکلتی رہیں، ان کے زخمی بدن سے لہو بہتا رہا، پھر وہ لاشیں خشک ہو کر پنجر بن گئیں۔ مردار خور پرندوں نے انھیں نوچا کھسوٹا، ان کی پسلیوں میں گھونسلے بنائے اور اس سڑک سے گزرنے والوں کے لیے وہ راستہ واقعی داستان عبرت بن گیا۔
آج یہ بات اس لیے قابل ذکر ہے کہ لندن سے خبر موصول ہوئی ہے کہ اس شہرکی ڈپٹی میئر ڈیبی وکیز برنارڈ نے یہ جملہ کہا کہ '' ہم جانتے ہیں کہ لندن کی دولت ان غلاموں کی کمر توڑ مشقت سے بنی ہے۔'' یہاں ڈیبی کی مراد صرف لندن ہی نہیں بلکہ ان تمام اقوام سے تھی جنھوں نے سمندر پار اپنی نوآبادیات قائم کیں اور وہاں کی دولت کو بے حساب لوٹا۔ ڈیبی نے اس میموریل کے لیے ایک مقابلہ کرایا جسے خالب بروکس نے جیتا ہے۔ تانبے کا 76 فٹ اونچا یہ دروازہ اس نمائش گاہ کا داخلی دروازہ ہوگا۔ یاد رہے کہ ان کوڑیوں سے ان غلاموں کی اجرت ادا کی جاتی تھی۔ مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے جب ہم ان کوڑیوں سے کھیلتے تھے۔
جانے کس کی کمر توڑ مشقت ہوگی۔ تاریخ پڑھو تو ایسے حقائق سامنے آتے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم غلامی کی تاریخ ڈھونڈنے بیٹھیں تو اس کا سرا صدیوں نہیں ہزاروں برس کی گہرائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ہمیں تاریخ میں سیکڑوں من وزنی پتھر گھسیٹتے ہوئے مصری عوام نظر آتے ہیں۔
ہم توجہ نہیں دیتے لیکن اسی طرح کی مشقت کی تاریخ چینی غلاموں کی ہے۔ وہ جہاں تھک ہار کر گرتے تھے وہیں دفن کردیے جاتے تھے۔ اسی موضوع پر چینیوں کی بنائی ہوئی فلمیں ہیں، جنھیں دیکھیے تو آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔ یہ فلمیں کسی پروپیگنڈے کا حصہ نہیں بلکہ خود چینی حکومت کی بنائی ہوئی ہیں۔ اسی طرح اسلام میں غلامی پر ممانعت کے باوجود اُموی اور عباسی دور میں غلاموں اور کنیزوں کی بہتات کے باوجود کہا یہی جاتا رہا کہ غلامی کا ہم نے دھڑن تختہ کردیا ہے۔ یہی عالم مغل بادشاہوں کا تھا اور ان سے پہلے خلجی اور غوری سلاطین کے دربار کا۔
اب اگر ابراہم لنکن سے پہلے کے امریکا پر ایک نظر ڈالیں تو وہاں غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے ایک خونیں جنگ لڑی گئی۔ غلامی ایک ناسور ہے جو کسی سماج کو لگ جائے تو اس سے چھٹکارا مشکل ہے، اگر مجھے ہرکام ہوا مل جائے تو کون چاہے گا کہ اسے انگلی بھی ہلانی پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی بیویوں یا ماؤں اور بہنوں کو اپنا زر خرید غلام سمجھتے ہیں، اس بارے میں انگریزی میں کئی چشم کشا ناول لکھے گئے جن میں ہیرٹ بیچر اسٹو کا ناول '' انکل ٹامس کیبن''ہے۔ یہ خاتون جب ابراہم لنکن سے ملتی ہیں تو لنکن نے بہت خوش ہو کر کہا '' مجھے نہیں معلوم تھا کہ اتنی بڑی لڑائی مجھے اتنی چھوٹی لڑکی نے جیت کر دی ہے۔''
غلامی کہاں کہاں نہ پنپی، لیکن اس کے خلاف سب سے مشکل اور مسلسل جدوجہد مغربی اقوام کی عورتوں نے کی۔ ان کی یہ سیاسی اور سماجی جدوجہد آخر کار کامیاب ہو کر رہی، بہت سے آئینی اور قانونی مسائل آج بھی ان کی راہ میں ایک رکاوٹ ہیں لیکن وہ ان رکاوٹوں کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ہمت نہیں ہاری ہے اور اپنی جدوجہد کو نئی نسل کے حوالے کردیا ہے۔