ایچ ای سی کی مایوس کن کارکردگی
موجودہ مالیاتی سال میں ایچ ای سی کو 450 بلین روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے دیے گئے
اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ وفاقی کابینہ کے دانشور رکن پروفیسر احسن اقبال نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کو ہر سال ایک خطیر رقم یونیورسٹیوں کی ترقی کے لیے دی جاتی ہے۔
موجودہ مالیاتی سال میں ایچ ای سی کو 450 بلین روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے دیے گئے مگر ایچ ای سی کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ پروفیسر احسن اقبال نے وزیراعظم کے نام ایک خط میں جو ذرایع ابلاغ کو بھی مہیا کیا گیا ہے میں ایک تجویز پیش کی ہے کہ اس صورتحال میں ایچ ای سی کی پوری لیڈر شپ کو رخصت کیا جائے اور ایسی ٹیم تلاش کی جائے جو دنیا کے وژن کے مطابق یونیورسٹیوں کو آنے والے چینلجز سے نبرد آزما کرنے کے لیے رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے۔
ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایچ ای سی کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر مختارکا معاہدہ دو ماہ قبل ختم ہوا تھا۔ پروفیسر احسن اقبال کی سفارش پر وزیر اعظم نے ڈاکٹر مختار احمد کی ملازمت میں مزید ایک سال کی توسیع پر اتفاق کیا۔ احسن اقبال نے اپنے خط میں انتہائی اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر فوری طور پر ایچ ای سی کی قیادت کو رخصت نہ کیا گیا تو 44 بلین روپے سے تیار ہونے والے 66 پروجیکٹ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ احسن اقبال نے اپنے خط میں ایک انتہائی اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ ملک کی دوتہائی آبادی کی عمریں 30 سال سے کم ہیں، ان نوجوانوں کو معیاری تعلیم کی ضرورت ہے تاکہ انھیں روزگار میسر آسکے۔
انھوں نے معزز وزیر اعظم کو یاد دلایا ہے کہ نوجوان نسل کو معیاری تعلیم نہ ملی تو بے روزگاری کا تناسب بڑھ جائے گا اور ملک ایک اور بحران کا شکار ہوسکتا ہے۔ موصوف نے اپنے خط میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے حوالے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے 31 فیصد کے قریب نوجوان بے روزگار ہیں۔ احسن اقبال گریجویٹ نوجوانوں میں بے روزگاری کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں تدریس کے لیے استعمال ہونے والا نصاب انتہائی فرسودہ ہے۔ یہ ڈگری یافتہ نوجوان جن میں امتیازی نمبر حاصل کرنے والے بھی شامل ہوتے ہیں، صنعتوں کے لیے کسی کام کے نہیں ہوتے۔ ملک کی یونیورسٹیوں میں ناقص تعلیم دی جاتی ہے۔
ریسرچ کا معیار انتہائی پسماندہ ہے۔ ملک بھرکی سرکاری یونیورسٹیوں میں انتظامی نظم ونسق کا فقدان ہے اور یونیورسٹیوں کو ملنے والی گرانٹ اور یونیورسٹی کی کارکردگی کا باہمی تعلق خاصا کمزور ہے۔ احسن اقبال نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد ایچ ای سی کی فنڈنگ میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ڈیولپمنٹ بجٹ 446 بلین تک پہنچ گیا۔ یہ بجٹ اس سے قبل 314 بلین کے قریب تھا۔ ایچ ای سی کے بجٹ میں یہ ایک خاطرخواہ اضافہ تھا۔ انھوں نے یونیورسٹیوں کے ریسرچ کلچرکی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اساتذہ اور ریسرچر Curriculum Vitae (C.V) میں نئے کارناموں کا اضافہ کرنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری لیتے ہیں اور ریسرچ پیپر لکھتے ہیں تاکہ ترقی کی شرائط کو پورا کیا جاسکے۔
انھوں نے اپنے اس خط میں ایک اور اہم نکتہ یہ بھی اٹھایا ہے کہ 28 ہزارکے قریب پاکستانی طلبہ چین کی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں مگر ایچ ای سی کے ماہرین سی پیک کے مختلف منصوبوں کی ضروریات سے ناواقف ہیں۔ اسی طرح امریکا، پاکستان نالج کاریڈور U.S Pakistan Knowledge Corridor کے بارے میں حکمت عملی تیار کرنے پرکوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔احسن اقبال نے اپنے خط میں یہ الزام لگایا ہے کہ ایچ ای سی کے سینئر افسروں کے تقرر میں اقرباء پروری کا عنصر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (F.P.S.C) اپنی رپورٹوں میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی معلومات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا رہا ہے اورکمیشن کے مقابلے میں امتحان میں صرف 1.94 فیصد طلبہ پاس ہوسکے۔
گزشتہ سال کے امتحانات میں 20 ہزار امیدوار شریک تھے اور صرف 393 امیدوار مطلوبہ قابلیت کے معیار پر پورے اترے۔ پاکستان میں شعبہ تعلیم کو ابتداء سے ہی نظراندازکیا گیا۔ پہلے سرکاری یونیورسٹیاں وفاقی وزارت تعلیم سے کنٹرول ہوتی تھیں۔ پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکی تعلیمی پالیسی کے تحت یونیورسٹی گرانٹ کمیشن قائم ہوا اور یونیورسٹیوں کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں مگر تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کے 2 فیصد کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ پہلے کولمبو پلان کے تحت یونیورسٹیوں کو گرانٹ ملی تھی پھر امریکا اور یورپی ممالک کے کنورشیم سے گرانٹ ملنے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت محدود یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ جدید تقاضوں کے مطابق یونیورسٹیوں کی تنظیمِ نو ہوئی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم ہوا۔ عالمی بینک نے دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے گرانٹ دینے کا سلسلہ شروع کیا، یوں ایچ ای سی کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمن کے دور میں نئی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں اور یونیورسٹیوں کے انفرااسٹرکچر میں تبدیلیاں آئیں۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلیاں کیں اور بہت سے نئے مضامین رائج ہوئے۔ اسی دوران بی ایس، ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے بہت سے کورس شروع ہوئے مگر انتہا پسندی اور رجعت پسندی کا سایہ یونیورسٹیوں پر برقرار رہا۔ سوشل سائنس، مذہبی تعلیمات کے نصاب کا تو ذکرکیا انجنیئرنگ، میڈیکل، زراعت، فزیکل سائنس اور میڈیکل سائنس کے نصاب میں دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں کے مطابق ترتیب نہیں دیے گئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس انتہا پسندی اور رجعت پسندی کو تقویت دینے میں سیاسی جماعتوں کی قیادت کا بھی بڑا حصہ تھا۔
سائنٹیفک ذہن رکھنے والے پروفیسر اور وائس چانسلر مقرر نہیں کیے گئے، یوں حقیقی طور پر ریسرچ کلچر کا ارتقاء نہ ہوا۔ فنڈزکی کمی کی بناء پر محققین کو تحقیق کرنے میں مسلسل مشکلات کا سامنا رہا۔ کراچی یونیورسٹیوں کے سائنس فیکلٹی کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ لیب میں ریسرچ پیپر پر کام کرنے والے طلبہ ذاتی پیسوں سے کیمیکل خریدنے پر مجبور ہیں۔ ریسرچ جرنل کا شدید بحران آیا۔ طالب علموں کے لیے پیسے دے کر ریسرچ پیپر شایع کرانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ رہا۔ تعلیم کے معیارکو بہترکرنے کے لیے بھارت سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ بھارت کی یونیورسٹیاں عالمی معیارکے مطابق ہیں۔ سوشل سائنسز میں تحقیق کے لیے تو بھارت کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور محققین زیادہ فائدہ مند ہوسکتے ہیں مگر ایچ ای سی نے حکومت کے دباؤ پر بھارت سے روابط منقطع کردیے۔ ریسرچ کے ماحول میں ترویج کے لیے یونیورسٹی میں صرف گرانٹ بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ سائنٹیفک کلچرکا ارتقاء بھی ضروری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار خان محقق و ممتاز صحافی نے ایچ ای سی کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی وزیر احسن اقبال کو بہت پہلے سے ذمے داران کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد فورا اصلاحات متعارف کرانا ضروری تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا، بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا ہے، تاہم ابھی بھی اسٹرکچرل اصلاحات کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں، جس کے لیے نئی ٹیم کو لانا بنیادی قدم ہوگا۔
برسرِ اقتدار حکومتوں نے یونیورسٹیوں کی تباہ حالی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ پورے ملک کی یونیورسٹیاں انتظامی اور تعلیمی بحران میں مبتلا رہتی ہیں، جب کوئی وائس چانسلر رخصت ہوجاتا ہے تو برسوں نئے وائس چانسلرکا تقرر نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال چاروں صوبوں میں ہے۔ بلوچستان کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں جب کہ وفاق کی اردو یونیورسٹی کے ریٹائرڈ اساتذہ پنشن و دیگر واجبات سے محروم ہیں۔
گزشتہ 77 برسوں کے دوران کبھی کسی سیاست دان خاص طور پرکسی وزیر نے اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں اتنی دلچسپی نہیں لی، جتنی احسن اقبال صاحب نے لی ہے، وہ مبارکباد کے مستحق ہیں مگر اب ضروری ہے کہ اس رپورٹ کو یونیورسٹیوں کی اکیڈمک کونسل میں پیش کیا جائے اور اساتذہ اس خط کا تنقیدی جائزہ لیں۔ طلبہ سے بھی رائے حاصل کرنے کے لیے طریقہ کار وضح کیا جائے اور ملک بھرکے سینئر اساتذہ اور وائس چانسلروں کی کانفرنس کا انعقادکیا جائے ۔ یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں بھی پیش کی جائے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرزکی مشاورت سے ایک جامع پالیسی تیارکی جائے۔