غربت کا منحوس چکر



پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں وسائل کی کمی نہیں۔ قدرت نے اسے ہر طرح سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم ان ملکوں کو بھی دیکھتے ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہے لیکن وہ ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہم نے جب سے آئی ایم ایف کا دامن پکڑا ہے، اس وقت سے آئی ایم ایف کی شرائط غریب کُش ہی نظر آ رہی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم تمام وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود معاشی ترقی کے بجائے معاشی پسماندگی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

معاشی پسماندگی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، اگر افراد کی آمدنی کی سطح پست ہو تو ایسی صورت میں گھر کے افراد کو پست معیار زندگی بسر کرنا ہوگا۔کئی وجوہات ایسی ہیں جن کے ہوتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت پست معیار زندگی کا شکار ہیں۔ کم آمدن کے باعث قلت خوراک کا شکار ہو جانا، بچوں میں غذائیت کی کمی کا ہونا، بچوں کو اسکول میں داخل نہ کروانا، 7 سے 8 سال کے بچوں کو غریب والدین کام پر لگا دیتے ہیں یا پھر بچیوں کو امیر گھرانوں میں ملازمہ رکھوا دیتے ہیں اور ہر ماہ آ کر باقاعدگی سے والدین بچی کی تنخواہ لے جاتے ہیں۔ صحت و علاج کی ملک میں سہولیات ناکافی ہیں۔

پاکستان میں ہر سال ہزاروں ڈاکٹر فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے دیار غیر جا کر بس جاتے ہیں۔ گزشتہ دو عشروں سے پاکستان انتہائی خوفناک مسائل میں گھر چکا ہے۔ نائن الیون کے بعد ملک میں دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا اورکئی اشیاء کے نرخوں میں اضافے کے علاوہ بجلی مہنگی ہونے کے باعث، لوڈ شیڈنگ کے باعث، گیس کی عدم دستیابی کے باعث اور دیگر بہت سے مسائل کے باعث کارخانوں کا بند ہو جانا یا پھر بیرون ملک سرمایہ کاروں کا چلے جانا ان وجوہات کی بنا پر بے روزگاری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ بے شمار ایسی وجوہات ہیں جن کے سبب ملک میں غربت کا منحوس چکر چل پڑا ہے، کیونکہ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں درآمدی جاذب سرمایہ ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال روزگار میں زبردست کمی لانے کا سبب بن چکا ہے۔ نیا پانچ سالہ پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسی معاشی منصوبہ بندی کی جائے جس کے ذریعے افراد کی کھپت زیادہ سے زیادہ ہو، کیونکہ اگر ایسے منصوبے نافذ العمل کیے جاتے رہے جس میں ٹیکنالوجی کا ایسا استعمال جس کے باعث مزدورکی طلب کم ہوجائے ملک میں بے روزگاری لانے کا سبب بنے گا۔ جب بے روزگاری زیادہ ہوگی ایسی صورت میں لوگوں کی آمدن بھی پست رہے گی اس کے ساتھ ہی بچت میں کمی آئے گی اور سرمایہ کاری کی سطح بھی پست ہی رہے گی۔

آئی ایم ایف نے کئی مرتبہ پاکستان کے ہاتھ باندھے اور اپنی من مانی شرائط پر عمل کروایا، لیکن آج تک غربت میں کمی دورکرنے کا کوئی نسخہ نہ تھما سکا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے میلینیم ٹولز میں یہ بات طے کردی گئی تھی اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا اعلامیہ تمام ملکوں کو سنا دیا گیا تھا کہ 2015 تک ہر ملک اپنی غربت کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد کو پہلے کی نسبت 90 فی صد کمی لے کر آئیں گے، لیکن شاید یہ سب خوشنما نعرے تھے کہ غربت کے خلاف جنگ کا آغازکردیا گیا ہے، اب 2015 تک ہر ملک اپنی غربت کو مزید 50 فی صد کم کر دے گا۔ لیکن غربت میں کمی لانے کے بجائے آئی ایم ایف کی جانب سے غربت کش پروگرام جاری کیے جا رہے ہیں جیساکہ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ غریب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ، مہنگی ترین بجلی اور کئی معاشی مسائل ہیں، انھی مسائل کو لے کرگزشتہ روز 28 اگست کو پورے پاکستان میں کامیاب ہڑتال کی گئی، لہٰذا حکومت فوری طور پر اس جانب توجہ دے۔

ادھر آئی ایم ایف کی طرف سے ایک بار پھر تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ 2018 میں بھی کچھ ایسا ہوا تھا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کی ایسے میں پاکستان میں ایک لابی ایسی بھی ہے جوکہ غلط خبریں، افواہیں پھیلانے، معاشرے کو غیر یقینی صورت حال کا یقین دلانے میں مہارت رکھتا ہے۔ ان عوامل کے علاوہ قرض کی ادائیگی کے لیے مالیات پر دباؤ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جلد ہی 105 روپے کا ڈالر بڑھ کر 142 روپے تک پہنچا تھا۔ اسی لحاظ سے ملک میں مہنگائی کا گراف بلند ہونے لگا۔ اس کے سب سے برے اثرات رئیل اسٹیٹ پر مرتب ہوئے۔ پلاٹوں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ تعمیرات مہنگی ہوتی چلی گئیں، اس کے بعد پھر 2022 میں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف وفد اپنی پاکستان یاترا مہم کو طول دیتا رہا پھر ایک مرتبہ ملک افواہوں کی زد میں آگیا، ادھر زرمبادلہ کے ذخائرگھٹنے لگے۔

حکومت نے بہت سی درآمد پر پابندی عائد کر دی۔ بندرگاہ پرکنٹینرز کی بھرمار ہو چکی تھی،کیونکہ ان کو ریلیز کرنے سے حکومت انکاری تھی۔آج پھر ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث تاجر برادری پریشان ہے۔ بجلی، گیس کی قیمتوں کو لے کر عوام بھی سخت ترین پریشان ہیں۔ ایسے میں آئی ایم ایف کے مطالبات پورا کرنے کے لیے جو اقدام اٹھائے جا رہے ہیں حکومت کو اس پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر پاکستان میں بے روزگاری بھی بڑھے گی۔ عوام کی آمدن بھی کم ہوگی، بچت کم ہوگی، سرمایہ کاری کم ہوگی، اس طرح غربت کا منحوس چکر چلتا رہے گا۔ ناخواندگی بڑھتی رہے گی اور پاکستان میں معاشی پسماندگی کا راج قائم رہے گا۔ ان تمام باتوں کو سوچنے اور سمجھنے کے لیے معاشی پلان کو اس طرح سے ترتیب دینا ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ روزگارکے مواقعے پیدا ہوں۔ ملک سے ناخواندگی کا خاتمہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں