میرے رہنما میرے ہم نوا
تبلیغ کے لیے انہیں ضلع میانوالی میں کبھی پیدل توکبھی سائیکل یا سواری کے جانور پر سفرکرنا پڑا
کراچی:
'' میرے رہنما میرے ہم نوا'' اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ہیں۔ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، انتساب قرآن پاک کی ایک آیت کے حوالے سے ہے۔ ترجمہ۔ '' اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں'' کتاب میں جن اہم حضرات اور اعلیٰ ہستیوں پر انہوں نے خامہ فراسانی کی ہے، یقینا ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب کے دوست ہیں۔ فہرست مضامین صفحہ 19سے لے کر 399صفحات پر مشتمل ہیں،گویا دوست احباب سے محبت اور ان کی علمیت و قابلیت تعارف کے ضمن میں پیش کی گئی ہے۔
مصنف نے اپنے مضمون ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ ''اپنے خاندانی منظر اور تحریکی تعلق کی وجہ سے زندگی بھر '' مشاہیر'' سے ملنے ان سے تبادلہ خیال کرنے اور ان کے خیالات عالیہ سے مستفید ہونے کے بے شمار مواقع ملے ، اسی طرح بیرونی ملک، اعلیٰ حکومتی اور قابل احترام دینی و علمی شخصیات سے ملنے کی سعادت بھی ملی، بلا شبہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے''، انہوں نے اس بات کا اظہارکیا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق سب پر ہی لکھنا چاہتے تھے لیکن فی الحال ایسا ممکن نہیں تھا۔
سینیٹر جناب سراج الحق نے اپنی تحریر ''خیر مقدم '' میں ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ تعلق بنانا اور نبھانا خوب جانتے ہیں اور یہ بھی ایک فن ہے انہوں نے اپنے دوستوں احباب کے نام اور اپنی یادوں کو ترتیب دے کر ایک کہکشاں سجا دی ہے ۔ سینیٹر سراج الحق نے مصنف کو دعا دی ہے کہ اللہ تعالی ان کے قلم کو مزید توانائیوں اور جولانیوں سے نوازے۔ (آمین)
اگر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا مختصر تعارف پیش کیا جائے تو کچھ اس طرح ہے کہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر اور معروف دانشور ہیں، پراچہ خاندان کی پہچان کبھی تجارت تھی لیکن ان کے والد صاحب گلزار احمد مظاہری نے علم و تبلیغ کی طرف ان کا ذہن مائل کردیا ، ابو الاعلیٰ مودودی کی جماعت میں شمولیت اختیارکی تو انہیں جماعت اسلامی کی دعوت کا کام سونپا گیا۔
تبلیغ کے لیے انہیں ضلع میانوالی میں کبھی پیدل توکبھی سائیکل یا سواری کے جانور پر سفرکرنا پڑا ، فرید پراچہ قومی اور عالمی سطح پر ممتاز شخصیت ہیں، پہلے مضمون کا عنوان ہے ''سید مودودی سے ملاقاتیں '' مذکورہ مضمون میں بہت سی معلومات کے در وا ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر طلبہ یونین کے انتخاب کے موقع پر جب کوئی طالب علم جیت جاتا تو سب مولانا مودودی کی خدمت میں حاضری دیتے اور مٹھائی کھلانے کا مطالبہ بھی کرتے، لیکن اکثر ایسا بھی ہوتا کہ بغیر مطالبے کے ہی وہ مٹھائی منگوا کر طلبہ میں تقسیم کرتے، فرید پراچہ سید مودودی سے ملاقاتوں اور اپنی خوبصورت یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اس طر ح رقم طراز ہیں کہ جب '' بنگلہ دیش، نامنظور تحریک'' چلی اور نوجوانوں نے مصلحتوں کا دامن تار تارکرتے ہوئے اس تحریک میں قربانیوں کی تاریخ مرتب کی۔''
ایک جگہ اور لکھتے ہیں۔ حکومت نے اب طلبہ کی اجتماعی قوت کی بجائے انہیں دبانے کی پالیسی اختیار کر لی تھی، ایسے تمام مواقعوں پر جب ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہوجاتیں اور ہم ہجوم افکار سے تھک جاتے تو مولانا محترم کی ذات ہمارے لیے گرم صحراؤں کے درمیان نخلستان کی مانند شفیق اور مہربان ہوجاتی، جب کسی سمت سے ہمیں اپنے ساتھیوں کے بارے میں معلوم نہ ہو تو ہم چند ساتھیوں کے سمیت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے ہمیں اپنی آرام گا ہ میں بلا لیا،کمرے کی مدھم روشنی میں مولانا کا چہرہ عبادت گاہوں کے مینار پر چمکنے والے چاند کی طرح پر عظمت اور با برکت دکھائی دیا۔
سید مودودی اور نوجوان نسل '' فیشن تجریان سید مودودی'' اور امام حسن البنا شہید '' سید مودودی عصری مجالس'' چاروں مضامین جوکہ سید مودودی کے کردار اور سیرت،جہاد، حق پرستی، بذلہ سنجی، ہمت مرداں، علمیت، قابلیت اور شجاعت کے آئینہ دار ہیں۔
مصنف نے تفکرو تدبرکی روشنی میں تمام مضامین لکھے ہیں جوکہ کردار نگاری اور خاکہ نگاری کے زمرے میں بھی آسکتے ہیں ، شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن ، مذکورہ عنوان کے تحت ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی تحریر سیاست کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔ مضمون کی ابتدا ہی حکومتوں کے مظالم اور نا انصافی کا چہرہ دکھاتی ہے، اتفاق سے مولانا مطیع الرحمن نظامی شہید اور دوسرے شہداء پر ہم نے بھی کالم لکھا تھا، آج پھر سامنے تصویر آگئی کہ کس جرم کے تحت بزرگان دین کو پھانسی دی گئی ؟ اپنے ملک کا دفاع کرنا، محب وطن ہونے کی دلیل ہے نہ کہ غداری کی؟ قصہ طویل ہے، لٰہذا پھرکبھی لالہ صحرائی محمد صادق مرحوم، مصنف نے اپنے مضامین کے سبھی عنوانات بھی دلکش اور قابل توجہ تجویزکیے ہیں۔ عنوان دیکھ کر ہی پڑھنے کی خواہش جنم لیتی ہے اور پھر ساتھ میں تحریرکی مناسبت سے اشعارکا انتخاب بھی اعلیٰ ذوق کا نمونہ ہے۔
لالہ صحرائی محمد صادق مرحوم ڈاکٹر محمد فرید پراچہ نے اپنے ادبی ذوق و شوق کا تذکرہ کیا ہے اور اپنے قارئین کو اس بات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ ان کی ملاقات لالہ صحرائی سے متبرک و مقدس خطے '' طائف'' میں کئی بار ہوئی۔
اسی مضمون سے ایک شعر جو لالہ صحرائی کی اخلاقی صفات کا پتہ دیتا ہے۔
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
ان کی افسانہ نگاری انشا پردازی اور خاکہ نگاری کے بارے میں کہتے ہیں کہ '' موقلم سے تصویریں بناتے اور اتنی سچی تصویریں کہ پکار اٹھتیں۔ اک نظر تم میرا محبوب نظر تودیکھو، بڑی بڑی شخصیات سے ڈاکٹر صاحب نے ملاقات کرا دی ہے۔ مع تصاویرکے چند نام ۔ ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر عبد القدیر خان، عطاء الحق قاسمی، سید علی گیلانی، مجید نظامی اور مجیب الرحمن شامی، حامد میر، پروفیسرغفوراحمد اور دوسرے صاحبان ذی وقار کتاب کی زینت اور معلومات میں اضافے کا باعث ہیں۔