لوگ آلوؤں کی مانند ہوتے ہیں
ایک بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ ’’ مشکل وقت گزر جاتا ہے محنتی لوگ باقی رہتے ہیں‘‘
کراچی:
''اگر'' روڈ یارڈ کیپلنگ کی لکھی ہوئی ایک مشہور نظم ہے جو پہلی بار 1910 میں ان کے مجموعے'' انعامات اور پریوں'' کے حصے کے طور پر شائع ہوئی تھی۔ نظم ایک عمدہ اور باوقار زندگی گزارنے کیلئے متاثرکن رہنما اصولوں کا ایک مجموعہ پیش کرتی ہے، جس میں صبر،استقامت، خود اعتمادی اور دیانت داری کی خوبیوں پر زور دیا گیا ہے۔
یہ نظم اپنے بیٹے کو ایک باپ کی نصیحت کے طور پر لکھی گئی ہے، جس میں زندگی کے چیلنجوں اور پیچیدگیوں سے نمٹنے کیلئے حکمت فراہم کی گئی ہے۔ کیپلنگ مختلف منظر ناموں اور حالات کی کھوج کرتا ہے، قاری کو فرضی حالات کی ایک سیریزکے ساتھ پیش کرتا ہے اور ان کا جواب کیسے دیا جائے۔ نظم کا مرکزی موضوع مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے متوازن نقطہ نظر کو برقرار رکھنے، اپنے مقاصد کے حصول میں پرعزم رہنے اور اخلاقی استقامت کا مظاہرہ کرنے کے گرد گھومتا ہے۔
کیپلنگ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے،کسی کے اعمال کی ذمہ داری لینے اور ناکامیوں سے سیکھنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ پوری نظم میں،کیپلنگ ان خصوصیات کو اجاگرکرتا ہے جو انسان کو حقیقی معنوں میں نیک بناتی ہیں، بشمول عاجز رہتے ہوئے اپنے آپ پر بھروسہ کرنے کی صلاحیت، امید کو کھوئے بغیر مشکلات میں ثابت قدم رہنا،کامیابی اور ناکامی کا یکسوئی کے ساتھ علاج کرنا، جذبات پر قابو رکھنا اور اپنے آپ پر اعتماد کرنا۔
معاف کرنے کی صلاحیت۔ لوگ آلوؤں کی مانند ہوتے ہیں جب آلو زمین سے نکال لیے جاتے ہیں تو ان کو پھیلا دیا جاتا ہے، منڈی میں ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت پانے کیلئے ان کو تقسیم کیا جاتا ہے، بڑے بڑے علیحدہ ، درمیانے درجے کے علیحدہ اور چھوٹے چھوٹے علیحدہ۔ اس تقسیم کے بعد ان کو بوریوں میں بند کر کے ٹرکوں پر لادا جاتا ہے، یہ وہ طریقہ ہے جسے سب کسان استعمال کرتے ہیں لیکن ایک شخص ایسا بھی ہے جو یہ طریقہ استعمال نہیں کرتا، اس کسان نے کبھی آلوؤں کو پھیلایا ہے نہ تقسیم کیا ہے لیکن وہ منڈی میں دوسروں سے اچھی قیمت بھی وصول کرتا ہے اس کی کامیابی پر حیران ایک کسان ہمسائے نے اس سے پوچھا '' تمہارا رازکیا ہے ؟ تم آلوؤں پر محنت نہیں کرتے اور قیمت بھی زیادہ پاتے ہو؟''
''میرا طریقہ بڑا سادہ ہے'' کسان نے جواب دیا۔ '' میں آلوؤں کو ٹرک میں بھرتا ہوں اور شہرکو جانے والا غیر ہموار راستہ اختیارکرتا ہوں، آٹھ میل کے دھچکوں والے سفر سے چھوٹے آلو نیچے چلے جاتے ہیں، درمیانے درمیان میں رہ جاتے ہیں اور بڑے بڑے آلو اوپر آجاتے ہیں، یہ اصول صرف آلوؤں پر ہی صادق نہیں آتا۔ یہ زندگی کا بھی اصول ہے، زندگی کا قانون بھی ہے یہی قانون ہم سب پر بھی لاگو ہوتا ہے ہم سب بھی زندگی کے غیر ہموار راستوں پر چلتے ہیں جو ہمت اور حوصلہ مند ہوتے ہیں وہ اوپر آجاتے ہیں اور جو ہمت ہار جانیوالے ہوتے ہیں وہ نیچے چلے جاتے ہیں اور اپنی ہمت اور امید ہار جاتے ہیں۔
ایک بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ '' مشکل وقت گزر جاتا ہے محنتی لوگ باقی رہتے ہیں'' تم اگر آج مشکل وقت سے گزر رہے ہو پریشان ہو، مایوس ہو تو میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ میرے ساتھ چند قدم ملا کر چلو میں تمہیں ایسے بے شمار لوگوں سے ملاؤں گا، جو مشکل وقت کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں، تم بھی ان میں سے ایک ہوسکتے ہو تمہیں معلوم وہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر انہوں نے اپنے مشکل وقت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا اس راستے کا نام '' امید ہے یہ وہ راستہ ہے جس نے کسی مسافر کو کبھی مایوس نہیں کیا کبھی کسی کو راستے میں اکیلا نہیں چھوڑا یہ کبھی کسی کو چھوڑکر نہیں بھاگا، یہ رستہ سیدھا خوشی، صحت ، کامیابی ، ترقی اور خوشحالی کی سمت بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، اس رستے پر چل کر ہمیشہ بڑے آلو اوپرآجاتے ہیں اس راستے نے کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا۔
ایک بار ایک باپ نے اپنے بیٹے سے کہا '' بیٹے تم نے ایک مقصد متعین کرنا ہے اور اس سے کبھی پھر پیچھے نہیں ہٹنا ہے ۔ جارج واشنگٹن اس کو اچھی ذہن نشین کرلینا۔'' بہت بہتر پاپا۔ جارج واشنگٹن نے جواب دیا یہ ہی سبق سابق امریکی صدر جیفر سن کو اس کے باپ نے پڑھایا تھا یہ ہی سبق ابراہم لنکن کے باپ نے بیٹے کو سکھایا تھا یہ سبق یاد رکھنے والے سب نامور ہوئے اور اب امریکا تو امریکا ساری دنیا ان کو جانتی ہے۔
یہاں ایک بہت ہی سیدھا سادہ سا سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہمیشہ چھوٹے آلو ہی کیوں اوپر آتے ہیں اور بڑے آلو کیوں نیچے چلے جاتے ہیں اس کی بڑی ہی سیدھی سادی سے وجہ ہے دراصل ہم سب خوشامد، چاپلوسی، منافقت، جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، فریب و مکر کے راستے کے مسافر ہیں، ہم نے اپنے لیے پہلے ہی روز اسی راستے کا انتخاب کیا تھا، اس راستے پر چل کر ہمیشہ چھوٹے آلو ہی اوپر آتے ہیں اور بڑے آلو نیچے رہ جاتے ہیں۔
ظاہر ہے ایک شریف، نیک، اصول پسند، محنت پسند اور سیدھا سادہ سا آدمی نہ تو خوشامد پسند ہوتا ہے اور نہ ہی وہ چاپلوسی کرنا جانتا ہے اور نہ ہی وہ شاطر اور منافقت ہوتا ہے چونکہ وہ انتہائی ناپسندیدہ مسافر ہوتا ہے، اس لیے باقی سب مسافر اسے انتہائی شک و شبہ کی نگاہوں سے گھورتے رہتے ہیں اور پھر سب خوشامدی، چاپلوس، جھوٹے اور منافقت مل کر اسے پیچھے کی سمت دھکیلنا شروع کردیتے ہیں اور پھر وہ پیچھے ہوتے ہوتے بالکل بھی پیچھے پھینک دیا جاتاہے اور پھر اس کا ذکر صرف داستانوں کی حد تک رہ جاتا ہے۔
آج آپ جو ملک کے چاروں اطراف خوشامدیوں، جھوٹوں، چاپلوسوں اور منافقوں کا راج دیکھ رہے ہیں۔ اس کی اصل میں یہ ہی وجہ ہے ایسا کریں آپ خود ایک چھوٹا سا تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ آپ کسی نہ کسی طرح چھپ کر ملک کے اقتدارکے تمام ایوانوں کا خود تفصیلی جائزہ لے لیں۔ ان میں موجود تمام اشکال کے کرداروں اور ان کے رویوں کا مفصل پوسٹ مارٹم کر لیں، ان کی حرکات و سکنات کا بغور معائنہ کر لیں، ان کی باتیں اپنے گناہ گارکانوں سے خود سن لیں تو پھر آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ چھوٹے آلو کس طرح اوپرآجاتے ہیں پھر اس کے بعد آپ ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کے ارد گرد بیٹھے اور موجود شخصیات کی باتیں پھر اپنے گناہ گارکانوں سے سن لیں۔
اور پھر آخر میں ملک کے تمام اداروں اور محکموں کے بڑے بڑے افسران کا بھی چھپ چھپا کر تفصیلی معائنہ کر کے بھی دیکھ لیں اور جب آپ یہ سب کچھ کرچکے ہونگے تو پھر آپ اپنی پوری طاقت سے جئے خوشامد، جئے منافقت، جئے چاپلوسی کے نعرے لگا رہے ہوں گے اور اپنی شرافت، نیکی، سچائی، دیانت داری پر لعنت بھیج رہے ہونگے اور ایک اورنامور عظیم خوشامدی اور چاپلوس بننے کی تیاریوں میں مصروف ہوچکے ہونگے، تاکہ ایک روزآپ بھی کسی بڑے ایوان میں اہم عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں یا ملک کے کسی بڑے سیاسی کردارکے مشیر ہونے کا اعزاز حاصل کرلیں تاکہ ملک کے باقی لوگ آپ کی بھی خوشامد اور چاپلوسی کرنے لگ جائیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ اپنے بچوں کو یہ نصیحت اور وصیت کر چکے ہونگے کہ بچوں اگر تم نے پاکستان میں عزت و احترام کیساتھ زندگی گزارنی ہے تو پھر شرافت، نیکی، سچائی، دیانت داری کے پاس بھی غلطی سے کبھی نہ پھٹکنا اور ہمیشہ خوشامد، چاپلوسی اور منافقت کا دامن پکڑے رکھنا، تاکہ ملک کے تمام طاقتور اور بااختیار شخص ہمیشہ تمہارے حامی و ناصر رہیں اور تمہاری زندگی چین و سکون و آرام اور خوشحالی میں گزرے۔