دبئی سرمایہ کاروں کے لیے مضبوط معاشی مرکز
بد قسمتی سے پُرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرض لینے پر حکومت مجبور ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
مشرقی وسطیٰ کی معاشی سرگرمیوں کے تجزیہ کاروں اور دنیا بھر کی کمپنیز کی مالی جانچ پڑتال کرنے والے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ بھارت میں سخت مالیاتی پالیسیوں اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے معاشی عدم استحکام کے پس منظر میں دونوں ممالک کی کمپنیوں کی دبئی میں بڑھتی ہوئی تعداد خطے میں دبئی کو ایک غیر معمولی کاروباری مرکز کی شکل دے رہی ہے۔
دبئی چیمبر آف کامرس کے نئے اعداد و شمار کے مطابق 2024کی صرف پہلی ششماہی میں 7860 بھارتی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔ جب کہ رواں سال کے پہلے 6 ماہ اور گزشتہ سال میں تقریباً 8000 نئی پاکستانی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔ یہ معاملہ صرف پاکستانی بھارتی کمپنیوں کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی کمپنیاں جس میں برطانیہ ، چین وغیرہ کی ہزاروں کمپنیاں بھی اس میں شامل ہیں۔
اس کی وجہ دبئی کا مضبوط کاروباری ڈھانچہ ، کاروباری دوستانہ ماحول ، دبئی کا اسٹرٹیجک محل وقوع اور مضبوط انفرااسٹرکچر ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ترقی اور استحکام کے خواہاں افراد خاص طور پر بھارتی پاکستانی کاروباری افراد کے لیے دبئی ایک بے مثال مقام بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک خصوصاً بھارت اور پاکستان میں معاشی دباؤ کی وجہ سے دونوں ممالک کے کاروباری افراد خوب سے خوب تر کی تلاش میں کاروباری ہجرت کر رہے ہیں۔ بھارتی کاروباری ہجرت کی وجہ بھارتی سینٹرل بینک کی سخت مالیاتی پالیسی دوسری طرف دبئی میں ٹیکس کی شرح بھارت سے کئی گنا کم ہونا بھی ایک اہم عامل ہے۔
دبئی میں جیولری اور کرپٹو کرنسی کے کاروبار کے وسیع اور آسان تر مواقع ہیں۔ دبئی میں کاروبار میں آسانی کا انڈیکس دنیا بھر میں ٹاپ 16 میں آتا ہے جب کہ بھارت کا انڈیکس اس معاملہ میں 63ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی کاروباری دبئی میں بیٹھ کر افریقی ممالک کی مارکیٹوں کے ذریعے زبردست منافع حاصل کر رہے ہیں۔ دبئی میں انٹرنیشنل مارکیٹ کے ساتھ لین دین ، فارن کرنسی میں بہت آسان ہے۔ دبئی میں بڑھتے ہوئے پاکستانی کمپنیوں کے رجحان پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سفیر نے کہا کہ دبئی میں مزید پاکستانی کمپنیوں کی موجودگی نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات کو مضبوط کرتی ہے بلکہ پاکستان میں کئی ارب ڈالرز کا زرمبادلہ ممکن بنا دیتی ہے۔
پاکستان اس وقت جس آزمائشی وقت سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ آپ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری اخراجات کا سالانہ تخمینہ 13682 ارب روپے کی انتہائی تشویش ناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے حکومت پاکستان کو IMF سمیت دوسرے بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں سے بھاری قرضے لے کر انھیں پورا کرنا پڑ رہا ہے جس سے حالیہ دنوں میں معیشت پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ کر 87 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
بد قسمتی سے پُرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرض لینے پر حکومت مجبور ہے اور ان قرضوں پر سود کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکا ہے جب کہ رواں مالی سال میں ہمیں کم از کم بیس ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال معاشی اصطلاع میں ڈیٹ ٹریپ کہلاتی ہے۔ انھیں وجوہات کی بناء پر رائٹ سائزنگ کے ذریعے 82 اداروں کو 40 میں ضم کیا جا رہا ہے اور یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن سمیت معیشت پر بوجھ بننے والے 25 محکمہ نجی شعبے کے ہاتھ فروخت کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
اس طرح غیر ضروری وزارتوں اور محکموں کو خاتمہ کر کے حکومتی اخراجات کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ ہزاروں ملازمین کی بے روزگاری کی شکل میں نکلے گا۔ بے روزگاری اور غربت جرائم میں بے تحاشہ اضافہ لائے گی۔ جس میں پہلے ہی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پنجاب میں 13 ہزار سرکاری اسکولوں کو بھی پرائیویٹ شعبوں میں دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ نتیجہ عام تعلیم بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہو جائے گی ، خاص تعلیم تو پہلے ہی بہت دور ہو چکی ہے ۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے فیصل آباد کراچی سمیت ٹیکسٹائل ملیں نصف کے قریب بند ہو چکی ہیں۔
ایک طرف اشرافیہ کے کم از کم 5 ہزار ارب روپے سالانہ کے اللے تللے اور عیاشیاں دوسری طرف اس کی بے پناہ کرپشن اور ٹیکس چوری آئی پی پیز کی لُٹ مار کو چھوڑ کر جس کے دو تہائی مالک پاکستانی حکمران طبقہ ہے۔
تازہ ترین کرپٹ اشرافیہ کی واردات جس کا ذکر حال ہی میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے کہ احتسابی عمل کے فقدان اور نقائص کے باعث صرف پچھلے دو سالوں میں کے الیکٹرک سمیت بجلی کی دیگر تقسیم کار کمپنیوں سے 25 ہزار ارب روپے کی وصولی نہیں کی جا سکی۔ اگر یہ وصولی کی جاتی تو اس کثیر رقم سے گردشی قرضوں کا بوجھ کم ہو کر عوام کے سکھ کا باعث بنتا۔ ابھی حال ہی میں سولر پینلز مد میں تقریباً 800 ارب روپے کی ٹیکس چوری پکڑی گئی ۔
پاکستان کی معاشی تنزلی کو سنبھلنے میں ابھی تین سال لگیں گے ۔ اور اس کے بعد کے دو سال میں معیشت مستحکم ہوگی۔