بلوچستان جل رہا ہے
ایوب خان کے زمانے سے وہاں آپریشن کرکے مسئلہ کا حل ڈھونڈا جاتا رہا ہے
رقبہ کے لحاظ سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے، وہاں کے لوگوں میں احساس محرومی پایا جاتا ہے، یہ احساس محرومی کس وجہ سے ہے ہم نے آج تک اُسے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی اور جب ہمیں اس کی اصل وجہ معلوم ہی نہیں ہے یا ہم اسے جانتے ہوئے بھی نظر انداز کرتے رہے ہیں تو پھر اس کا علاج بھی کیسے ممکن ہو۔ ہم نے ہمیشہ اس کا علاج غلط انداز میں کرنے کی کوشش کی ، جب کہ ہمارا ازلی دشمن جو ہماری کمزوریوں پر ہمیشہ گہری نظر رکھتا رہا ہے اس نے وہاں کے لوگوں کے احساس محرومی کو مزید اشتعال دلانے کی کوششیں کی۔
پچھلے دنوں بے گناہ لوگوں کو قتل کردینے کے کئی واقعات رونما ہوئے اور ایسا لگنے لگا ہے کہ صوبہ میں حالات اب ہمارے قابو سے باہر نکل رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی شہر میں بھی قتل و غارت گری کے کچھ ایسے ہی واقعات ہوا کرتے تھے اور روزانہ دس بارہ افراد کا قتل کیا جانا یا ٹارگٹ کلنگ ایک معمول بن چکا تھا، لیکن ہم نے اس کا علاج ایک آپریشن کے ذریعے کر ڈالا اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوگئے مگر کراچی اور بلوچستان میں بہت فرق ہے۔ کراچی میں ایک پارٹی یہ سب کچھ کروا رہی تھی اور ہم نے اس پارٹی کی قیادت ہی کو پارٹی سے علیحدہ کردیا، جب کہ بلوچستان میں قتل وغارت گری کوئی ایک پارٹی نہیں کروا رہی ہے ، یہ گوریلا قسم کی وارداتیں ہیں جس کا کوئی سرپرست نہیں ہے، کچھ مخصوص گروہ چوری چھپے یہ وارداتیں کر رہے ہیں جنھیں بہرحال باہر سے کمک پہنچائی جارہی ہے۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا سی پیک منصوبہ گوادر کو چین سے ملاتا ہے اور کچھ بین الاقوامی طاقتوں کو یہ بات پہلے دن سے گوارہ نہیں ہے۔ وہ اس منصوبے کو ہر حال میں سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد سے انھوں نے اس صوبے کے احساس محرومی کو مزید ہوا دینے کی کوششیں شروع کررکھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک عرصے سے وہاں جبری گمشدگی اور لوگوں کا لاپتہ ہوجانا بھی اس احساس محرومی کو اور بھی ہوا دیتا رہا ہے۔ بعد ازاں لاپتہ ہوجانے والے لوگوں کی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا بھی اس میں مزید اشتعال کا باعث بنتا رہا ہے۔
ہم نے آج تک اس کا علاج تلاش نہیں کیا۔ ایوب خان کے زمانے سے وہاں آپریشن کرکے مسئلہ کا حل ڈھونڈا جاتا رہا ہے۔ ایوب خان کے بعد یہاں جو پہلی سول حکومت قائم ہوئی تھی اسے بھی ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے چلنے نہیں دیا۔ ملک کے باقی تین صوبے جمہوریت کے ثمرات سے نوازے جاتے رہے لیکن صوبہ بلوچستان کو اس سے محروم کردیا گیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کے سردار بھی وفاقی حکومت سے اس کے بدلے رقم بٹورتے رہے اور خاموش رہے ، وہ اگر چاہتے تو حکومت کو ایسا کرنے سے روک سکتے تھے لیکن ذاتی مصلحت اور مفاد نے انھیں ایسا کرنے نہیں دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے بعد بھی جو حکومتیں آئیں انھوں نے وہاں کے احساس محرومی کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بس صرف زبانی کلامی بڑے بڑے بیانات دیے جاتے رہے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل نے اس احساس محرومی کو ہوا دی ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن بلوچستان مسلسل جل رہا ہے۔ باقی تینوں صوبے کے سیاسی رہنماؤں کو صرف اپنی فکر لاحق ہے ، وہ جانتے ہیں کہ بلوچستان کی حکومت نہ بھی ملی تو اُن کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اُن کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح صوبہ پنجاب کو قابو کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں جس سیاسی پارٹی کو اکثریت حاصل ہوتی ہے وہی وفاق میں حکومت بنا لیتا ہے۔
بلوچستان کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں اور یہ دونوں ممالک سے افراد کا یہاں آنا جانا بہت آسان ہے۔ اسی لیے ہمارے ملک میں اسمگلنگ بھی یہاں سے ہی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خیبر پختون خوا بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ وہاں بھی علیحدگی پسند قوتیں اکثر سر اُٹھاتی رہی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیاں بھی اسی صوبے میں ہوا کرتی ہیں اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں کی شروعات بھی یہیں سے ہوتی ہیں۔ ہم اس وقت دو اہم صوبوں میں غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔
ایک طرف کھلم کھلا غیر ملکی سرحدوں سے دہشت گردی کی جا رہی ہے تو دوسری طرف بلوچستان کے اندر سے قتل و غارت گری کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ ہم یکے بعد دیگرے آپریشن کر کے معاملات اور حالات ٹھیک کرنے کی کوششیں کررہے ہوتے ہیں لیکن صورتحال وہی کے وہی رہتی ہے اور ملک میں استحکام نہیں آتا۔ یہ ہماری ہی کمزوری ہے کہ جس وقت ساری دنیا میں کوئی ملک بھی ہمیں سپورٹ کرنے کو تیار نہیں ہے ایک چائنا ہی ہے جس نے برے وقت میں ہمارا ہاتھ تھاما ہے، وہ آنکھ بند کرکے ہم پر اپنا پیسہ لگا رہا ہے اور ہم اس کے انجینئروں کے حفاظت بھی نہیں کر پا رہے ہیں، وہ کب تک اپنے لوگوں کو تسلی دیتا رہے گا، جن کے پیاروں کی لاشیں یہاں سے وہاں منتقل ہوتی رہی ہیں۔
بلوچستان میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں رات تو رات دن کے اوقات میں بھی کوئی آرام سے زندہ سلامت گزر نہیں سکتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں آج ایسی خطرناک صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ لاپتہ ہوجانے والے افراد اگر دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں تو انھیں یوں لاپتہ کرنے کے بجائے سول عدالتوں میں لایا جائے۔ جبری گمشدگی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اکبر بگٹی بھی اگر مجرم تھا تو اُسے قوم کے سامنے لانا چاہیے تھا۔ اسّی سالہ بزرگ کو جو زیادہ سے زیادہ مزید چند سال جی لیتا یوں قتل کر کے خاموش کردینا درست طریقہ نہیں ہے۔
ہمیں آج یہ پتا نہیں ہے کہ ہم کب اس دہشت گردی سے باہر نکل پائیں گے۔ ہمارے یہاں جب تک امن قائم نہیں ہوگا کوئی ملک بھی ہمارے یہاں سرمایہ کاری کو نہیں آئے گا۔ یہ خود مختاری اور خود انحصاری کے سارے خواب یونہی ادھورے رہ جائیں گے۔ بلوچستان میں امن قائم کرنے کے لیے کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جس سے وہاں کے عوام کی مزید دل شکنی اور دل آزاری نہ ہو۔ کچھ افراد کو غائب کر کے یوں لاپتہ کردینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ مزید گراؤٹ کا شکار ہوگا، وہاں جو لوگ آج دہشت گردوں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں، ایسا نہ ہوکہ کل وہ بھی اُن کے ساتھ مل جائیں۔