(حصہ اوّل)
سلسلہ زباں فہمی کے مستقل، دیرینہ قارئین کرام کے لیے یہ عنوان چونکادینے والا نہیں، مگر ناواقفین کے لیے اپنی گزشتہ تحریروں میں، اس بابت نقل ہونے والے بعض انکشافات دُہرا دیتا ہوں کہ:
ا)۔ اردو محض ہندآریائی زبانوں کے گروہ ہی سے تعلق نہیں رکھتی، بلکہ اس کا تعلق دَراوڑی زبانوں سے بھی ہے جس کی مثال پاکستان میں براہوی (Brahvi) اور جنوبی ہندوستان اور سری لنکا میں بولی جانے والی ملیالم، سنہالی، تَمِل، تیلگو اور کنڑ جیسی زبانیں ہیں۔ (کنڑ کو ہمارے یہاں ناواقفین رومن رسم الخط سے پڑھ کر کناڈا، کنڑی اور کناری بھی لکھ دیتے ہیں جو غلط ہے)۔ ان زبانوں میں براہوی کا سب سے قریبی تعلق تیلگو سے ہے۔ موجودہ براہوی زبان کے ڈھائی سو (250) الفاظ اِن دراوڑی زبانوں سے مشترک ہیں۔
ب)۔ معروف ماہرلسانیات ڈاکٹر سہیل بخاری کا نظریہ تھا کہ اردو کا بنیادی تعلق فقط دراوڑی گروہ ہی سے ہے۔
ج)۔ متعدد دیگر زبانوں (بشمول ہندکو اور سندھی) میں بھی دراوڑی خون شامل ہے جس پر تحقیق ابھی ادھوری ہے۔ اس بابت ہمارے مشفق، محقق کرم فرما پروفیسر خاطر غزنوی مرحوم کی اخیر عمر میں لکھی ہوئی کتاب 'اردو زبان کا ماخذ۔ہندکو' کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اردو کی ہم رشتہ ایسی تمام زبانوں میں بھی براہوی شامل ہے جن کا رسم الخط نستعلیق ہے اور یہ واحد دراوڑی زبان ہے جو 'عرب۔فارسی' رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، جبکہ دیگر زبانیں برہمی (Brahmi) یا اُس سے متعلق رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں {یہاں یہ انکشاف بھی ضروری ہے کہ ماضی قریب میں جامعہ بلوچستان، کوئٹہ کے براہوی بورڈ نے براہوی کا ایک لاطینی نُما رسم الخط برولِک وا Brolikva (an abbreviation of Brahui Roman Likvar) وضع کیا ہے تاکہ جدید مغربی زبانوں سے ارتباط آسان ہو۔
یہ رسم الخط روزنامہ تلار، نوشکی اور ہفت روزہ تلار، کوئٹہ نے اپنا بھی لیا ہے۔ شاید ان کے پیشِ نظر یہ بات بھی ہوکہ براہوی زبان پاکستان کی اُن ستائیس زبانوں میں شامل ہے جن کی بقاء کو خطرہ لاحق ہے} البتہ صدیوں پیچھے چلے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عہدِقدیم میں یعنی کوئی دو ہزار سال قبل، یہ زبان خروشتی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ اس کا ثبوت افغانستان سے دریافت ہونے والے قدیم آثار سے فراہم ہوتاہے جو بادشاہ کجولاکدفیزس (40ء تا 78ء) کے دورِحکومت سے متعلق ہیں۔ مختلف قدیم عبارتوں میں براہوی اور دراوڑی الفاظ مثلاً مہا (بڑا، عظیم) اور راجا نیز براہوی لفظ پِیل بمعنی ہاتھی (فارسی میں فِیل) اور سرہ بمعنی سر کے استعمال کا پتا چلا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اردو لغت نویس اور ماہرین لسان چونکہ براہوی سے ناواقف تھے اور دراوڑی بھی کسی کسی کو آتی ہوگی تو اُنھوں نے مہا اور راجا جیسے الفاظ کو ہندی لکھ دیا، حالانکہ یہ دراوڑی اور براہوی سے آئے ہیں۔
موئن جودڑو کی زبان پڑھنے کا دعویٰ کرنے والے ایک ڈینش محقق آسکو پرپولا( Asko Parpola) نے اس میں براہوی کے الفاظ شامل ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ راقم کا خیال ہے کہ ابھی تک موئن جودڑو، ہڑپہ اور مہر گڑھ سمیت تمام پاکستانی اور ہندوستانی آثارِقدیمہ کی زبان پر ہونے والی تحقیق غالباً یکجا نہیں کی گئی، ورنہ (سلسلہ زباں فہمی میں متعددبار نقل ہونے والے) اس انکشاف پر بھی مزید تحقیق ہوتی کہ ڈاکٹر ابوالجلال ندوی کی تحقیق کے مطابق اس خطے کی قدیم زبان، عربی کی ابتدائی تصویری شکل تھی اور یہاں کا مذہب، دینِ ابراہیمی تھا۔
ظاہر ہے کہ تمام محققین کی آراء جمع کی جائیں اور پھر نئے سرے سے تحقیق اور رَدّتحقیق کی جائے تو نہ صرف اردو، براہوی اور عربی بلکہ بعض دیگر زبانوں کی قدامت کے تعین کے ساتھ ساتھ ان کے آپس کے تعلق واشتراک کا باب بھی روشن ہوجائے گا۔ ضمنی بات یہ ہے کہ بعض جگہ یہ بھی لکھا دیکھا کہ براہوی اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے بتاتے ہیں۔
ہماری واٹس ایپ میں شامل فاضل براہوی رُکن جناب نور خان براہوی نے فرمایا کہ خطہ ہند کی قدیم ترین زبانوں میں شامل اس زبان کا نام براہ۔وی (Brahvi) ہے نہ کہ براہوئی(Brahui, Brahoi) جیسا کہ عموماً لکھاجاتا ہے۔ ہمارے کوئٹہ کے شاعر دوست افضل مراد صاحب اور ممتاز محقق آنسہ زاہدہ رئیسی راجی صاحبہ بھی اسی تلفظ کی قائل ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دیگر مآخذ کے علاوہ انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا [Encyclopædia Iranica] اور Encyclopædia Britannica میں بھی براہوئی (Brahui, Brahoi)درج ہے۔ براہوی لفظ کے مادّہ اشتِقاق یعنی بنیاد کے بارے میں ایک لسانی قیاس یہ ہے کہ یہ دو الفاظ برا (وڑا vada or vata : شمال) اور کوئِی( Kui: پہاڑی آدمی) کے ملاپ سے بنا ہے جو دراوڑی ہی سے مستعار ہیں۔ براہوی قوم کے معرضِ وجود میں آنے کے متعلق متعدد قیاسات ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ یہ لوگ شمالی یا جنوبی ہند سے ترکِ وطن کرکے بلوچستان آئے تھے۔ اس مفروضے کے مطابق اس واقعے کو گیارہ سو سال پرانا قراردیا جاتا ہے۔
میر گُل خان نصیر اور ملِک صالح محمد لہڑی جیسے تاریخ داں اس نظریے کے پرچارِک تھے کہ براہوی لوگ دیگر بلوچ قبائل کی نسبت نسبتاً جلد کوہِ البُرز سے اُترکر بلوچستان میں داخل ہوئے اور اُن کے اسی پہاڑی سلسلے کے دامن میں قیام کے سبب البُرز کو 'بُرز کوہی' کہا گیا جو بعد میں تبدیل ہوکر یا بگڑکر براہوی بن گیا۔ ['Origin of Brahui Language' By NOOR AHMED PIRKANI]
مشہور ماہرلسانیات سَر ڈینس برے نے بلوچستان میں بطور اعلیٰ سرکاری افسر خدمات انجام دیتے ہوئے اس زبان اور قوم پر تحقیق کی۔ اُن کے پیش کردہ ایک نظریے کے مطابق جب یونانیوں نے خُراسان اور بلوچستان پر قبضہ کیا تو براہوی بولنے والے اُس وقت وادی ہِلمَند، افغانستان میں رہتے بستے تھے اور اِس وادی کو 'برویانا' (Baroyana) کہتے تھے جو بعد میں تبدیل ہوکر براہوی یا بروہی بن گیا۔ محقق موصوف کی متعدد کتب اس زبان کے دنیا بھر سے تعارف کا سبب بنیں۔ انھوں نے دو جلدوں پر مشتمل 'براہوی زبان' [The Brahvi language] لکھی جسے جناب کامل القادری نے اردو میں منتقل کیا۔
اُن کی محنت شاقّہ اور میرزا شیر محمدزہری جھالوانی جیسے دیانت دار راوی کی بھرپور مدد سے 'ایک براہوی کی سرگزشت' جیسی کتاب منصہ شہود پرآئی جس کا ترجمہ کامل القادری صاحب نے 'براہوی رسوم' کے عنوان سے کیا۔ یہ کتاب براہوی زبان سے زیادہ اس قوم کی ثقافت سے متعلق اہم معلومات پر مبنی ہے۔ کامل القادری صاحب نے یہ کتاب 1957ء میں پڑھی اور پھر مہر گڑھ (بلوچستان) میں 1958 ء تا 1960ء قیام کے دوران میں براہوی زبان سیکھ کر اپنی تحقیق کا دائرہ وسیع کیا۔ انھوں نے اپنے ممدوح کی پیروی کرتے ہوئے پہلے 'نازبو کی پیدائش'، 'نازبو کا بچپن' اور 'نازبو کی شادی' جیسے مضامین اُنہی کے اسلوب میں لکھے پھر لسانی مسائل پر مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اہل علم ولسان کو پاکستانی زبانوں پر دراوڑی زبانوں کے اثرات جیسے منفرد موضوع کی طرف توجہ دلائی۔ اس ضمن میں اُن کا اہم ترین مقالہ 'براہوی اور اُردو' تھا۔
ایک اور تاریخی انکشاف بھی ملاحظہ فرمائیں: ''براہوی کو جنوبی بلوچستان میں کُردی یا کوردگالی کہتے ہیں جبکہ شمالی بلوچستان میں اسے یہ نام دیا گیا ہے''۔(آغا نصیرخان احمدزئی بلوچ: انگلش، اردو، بلوچی، براہوی/کُردی بول چال۔ مطبوعہ بلوچی اکیڈمی، کوئٹہ ۔1988)۔ آنلائن دستیاب مواد کھنگالیں تو معلوم ہوگاکہ وِکی پیڈیا ہی نہیں، بلکہ انتہائی معتبر Encyclopædia Britannica میں بھی کُردی (کوردی (Kurdî, یا کُردِش (Kurdish ) زبان کے تعارف میں یہ بات شامل نہیں کی گئی۔ بری ٹانیکا کے بیان کے مطابق مغربی ایرانی زبانوں کے گروہ میں شامل کُردی زبان، پشتو اور فارسی سے مماثل ہے۔
اس بارے میں خاکسار نے بلوچی زبان کی ممتاز محقق، اردو اور بلوچی کی شاعرہ، معلّمہ اور سماجی کارکن آنسہ زاہدہ رئیسی راجی صاحبہ سے استفسار کیا تو اُنھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ''بلوچ قوم کے اس لسانی گروہ کی اپنی کوئی الگ شناخت نہیں، (کیونکہ زمانہ قدیم سے ان کے یہاں بلوچی اور براہوی بہ یک وقت مادری زبان کے طور پر رائج رہی ہے: س ا ص)، یہ زبان کُردی ہی کی بہن یا ہم رشتہ ہے، البتہ یہ بات ابھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی کہ براہوی کا بنیادی تعلق دراوڑی سے ہے، ہاں یہ درست ہے کہ اس کے ذخیرۂ الفاظ میں بلوچی اور سندھی کے ساتھ ساتھ بعض دراوڑی الفاظ بھی شامل ہیں''۔ زاہدہ سے قبل جناب واحد بخش بُزدار نے بھی لکھا کہ ''صرفی ونحوی ڈھانچے کے لحاظ سے براہوی، دراوڑی کی بجائے ہندآریائی زبانوں سے قریب ہے''۔ ''براہوی لسانیات'' (مطبوعہ بارِدُوُم: 2015ء ۔ ناشر : براہوی اکیڈمی، کوئٹہ) کے محقق مصنف پروفیسر جاوید اختر صاحب اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''براہوی دنیا کی قدیم ترین اقوام میں ایک ہے جو نسلی خصوصیات کی بناء پر دراوڑی ہے''۔ انھوں نے مہرگڑھ سمیت مختلف آثارِقدیمہ سے دریافت ہونے والے خزانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں Proto-Australoid یعنی قدیم آسٹریلوی قوم کا سراغ ملتا ہے۔
پروفیسر موصوف نے ماہربشریات Dr. Heny Field کا قول نقل کرتے ہوئے براہوی قوم کو دراوڑی قرار دیا، نیز روسی ماہر Yuri Gankovsky کے حوالے سے انھیں دراوڑوں کی باقیات ٹھہرایا۔ انہی محقق نے تفصیل سے بحث کرتے ہوئے Hungarian، جنوبی ہند کی زبانوں اور براہوی کے ہم رشتہ الفاظ خصوصاً اُن کی بنیاد کی نشان دہی کی ہے۔ ہنگری کی زبان Hungarian (اردومیں ہنگروی کہہ سکتے ہیں: س اص) میں گھر کو Haz (واحد) اور Hazak (جمع) کہتے ہیں، جبکہ براہوی میں یہ اُرا (واحد) اور اُراک (جمع) ہیں یعنی آخری 'ک' لاحقہ ہے جو دونوں میں مشترک ہے۔ یہی لاحقہ تَمِل زبان میں کل ہوجاتا ہے، کنڑ میں کلو اور گونڈی میں 'ک'، جبکہ تیلگو میں 'لو'۔
''براہوی لسانیات'' کے مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ براہوی کا حرف ِ اضافت 'نا' (کا) دیگر دراوڑی زبانوں میں بھی موجود ہے جیسے براہوی میں مار نا (لڑکے کا)، گونڈی میں ماری نا (وہی معنیٰ)، اور کنڑ میں اُرانا (گاؤں کا)، جبکہ تیلگو میں یہ 'نی' بن جاتا ہے جیسے 'مارانی' (درخت کا)۔ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ براہوی میں جمع کے صیغے میں 'تا' آتا ہے جیسے ماتا (لڑکوں کا)، مسن تا (لڑکیوںکا)، کُچک تا (کتّوں کا) اور خراس تا (بیلوںکا)۔ ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ براہوی کے ضمائر استفہام، فعل اور اس کے ابتدائی تین اعداد، دراوڑی ہیں;براہوی کے لاحقے 'نا' اور 'آ' ،گونڈ اور لاحقہ 'ای' ملیالم اور تَمِل کی طرح ہیں، نیز جمع کا قاعدہ 'ک' دراوڑی گرامر کے عین مطابق ہے۔ دیگر دراوڑی زبانوں کی طرح براہوی میں بھی تانیث کے لیے لفظ کے آخر میں 'ڑ' آتا ہے جیسے 'مڑ' (لڑکی)، 'ایڑ' (بہن)،' بلغڑ'(ساس) اور 'ملخڑ' (بہو)۔ یہ ساری تفصیل عام قارئین کے لیے اتنی دل چسپ نہیں، مگر لسانی تحقیق کے جویا احباب کو ضرور پڑھنی چاہیے۔
براہوی زبان بولنے والے لوگ کوئٹہ کے علاوہ بولان، نوشکی، قلّات، سراوان، جھالاوان، خاران، خُضدار، مستونگ، لسبیلہ، نصیرآباد، کراچی، حیدرآباد، سکھر، شکارپور، لاڑکانہ، ہمسایہ ممالک ایران، افغانستان اور تُرکمانستان میں بستے ہیں، نیز ان کی محدود آبادی عراق، قطر اور متحدہ عرب امارات میں ملتی ہے۔ یہ لسانی گروہ صدیوں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتا رہا ہے۔ ان کی صدیوں سے بلوچ قوم سے قربت، قرابت اور بہ یک وقت دو زبانیں بطور مادری زبان بولنے کے سبب، ان کی مردُم شماری میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، زاہدہ جیسے محققین انھیں جداگانہ قوم شمار نہیں کرتے۔ براہوی کو سندھ میں بروہی بھی کہا جاتا ہے۔ سندھ کے بروہی سندھی ہی بولتے ہیں، اس لیے عموماً انھیں جدا سمجھا جاتا ہے، جبکہ بعض کو بلوچی بولتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ براہوی بولنے والوں کی تعداد کا اندازہ چار ملین سے زیادہ لگایا گیا ہے جن میں اکثریت پاکستان میں مقیم ہے۔
براہوی کے تعارف میں مشہور ماہرلسانیات سَر ڈینس برے [Sir Denys Bray] نے اپنی مرتبہ 'براہوی۔ انگریزی لغات'، (مطبوعہ دہلی:1934ء، دوسری اشاعت: براہوی اکیڈمی، کوئٹہ) کے پیش لفظ میں لکھا کہ ''یہ دراوڑی زبانوں کے گروہ سے نکلی ہے اور اس نے ہمسایہ زبانوں کے الفاظ آزادانہ اپنائے ہیں، لیکن اس نے اپنی گرامر میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہونے دی''۔ بقول ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوی صاحب، 'لسانی جائزہ ہند' میں براہوی کو وَسطی اور جنوبی دراوڑی زبانوں کی نسل سے متعلق بتایا گیا۔
براہوی کو دَراوَڑی زبان قرار دینے والوں میں سرجان مارشل (Sir John Marshall)، ایم بی ایمے نیو (M.B Aimenio)،آسکو پرپولا (Asko Parpola)، ٹی برو(T Bro)، جی آر ہنٹر (G.R Hunter)، بشپ کولڈ ویل (Buship Coldwell)، ایم ایس آندرونوف (MS Andronof)، آرنسٹ مِیڈکی (Ornist Middki)، جی آر گریئرسن (Sir George Abraham Grierson)، مارک کونِیر (Mark Kunnire)، جی یو پوپ (G.U Pope)، ارنسٹ ٹرمپ (Arnist Trump)، ڈاکٹر غلام علی الّانا، عین الحق فرید کوٹی، پروفیسر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، محمد حسن دانی، انور رومان، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، کامل القادری، نورمحمد پروانہ، ڈاکٹر عبدالرزاق صابر اور نذیر احمد شاکر براہوی جیسے معروف نام شامل ہیں۔
ایک کم معروف نظریہ یا لسانی قیاس یہ بھی ہے کہ براہوی تورانی (Turko-Aryan Or Turrani ) زبان ہے۔ اس نظریے کے حامی میر گل خان نصیر، آغا نصیر خان احمد زئی، حاقل خان مینگل، صالح محدم لہڑی اور میرخدا بخش مری جیسی شخصیات ہیں۔ اس قیاس کی بنیاد بعض قدیم عرب جغرافیہ داں، مؤرخین اور سیّاحوں کا بیان ہے۔ اس خیال کے مطابق، ستھین، بابِلی اور مید جیسی زبانیں بھی تورانی ہیں۔
ایک تیسری رائے یہ ہے کہ براہوی ایک ہند آریائی زبان ہے کیونکہ اس میں آریائی زبانوں مثلاً فارسی، بلوچی، پشتو، سندھی، سرائیکی اور اُردو کے الفاظ شامل ہیں۔ یہ قیاس تکنیکی لحاظ سے بالکل بھی قابل قبول نہیں!
براہوی کے پس منظر اور اُردو سے تعلق واشتراک کے موضوع پر مزید مواد بشرطِ عافیت اگلی قسط میں پیش کروں گا، ان شاء اللہ۔ یہاں ایک براہوی شاعر پروفیسر نادر جان قمبرانی صاحب کا اُردوکلام آپ کی نذر کرتا ہوں جس کی شعری بُنت اور اسلوب یقیناً لائق تحسین ہے:
میرے آباء کی زمیں (غلامی کے طویل سالوں کی نظم)
میرے اجداد کا مدفن میرے آباء کی زمیں
تُو بلوچوں کی ہے پارینہ اخوت کی امیں
ہیں تِری خشک چٹانیں مِری نظروں میں حسیں
میرے اسلاف کا خوں اب بھی رواں ہے تجھ میں
خادمِ قوم ہی تھے قوم کے سردار سبھی
سب زر و مال لُٹا دیتے تھے زردار سبھی،
شجرِقوم میں یکساں تھے گُل وخار کبھی
اُن سے باقی کوئی مٹتا سا نشاں ہے اب بھی
رہبرِقوم ہیں اب قوم کے غدار ہیں جو
خون پیتے ہیں غریبوں کا، وہ زردار ہیں جو
ہر جگہ بیچتے ہیں قوم کو، سردار ہیں جو
ستم و جور وجفا گرم یہاں ہے اب بھی
تیرا ماضی تو درخشاں تھا مگر حال ہے یہ
عسروافلاس و تباہی کا سیاہ سال ہے یہ
اور سرمایہ پرستوں کی بڑی چال ہے یہ
دانے پردام نہ ہونے کا گماں ہے اب بھی
پر مجھے غم نہیں سنگین چٹانوں میں تِرے
کروکوہ میں آوارہ شبانوں میں تِرے
اور نادر کئی خوابیدہ جوانوں میں تِرے
کوئی نورا کوئی مہراب نہاں ہے اب بھی