6 ستمبر1965 وقار اور لازوال استقلال کا استعارہ
افواج پاکستان اور عوام نے ایسی مثالی رفاقت داری قائم کی کہ آج تک دنیا میں نہ کوئی مثال ملی ہے
سلامتی ہی سلامتی کی دعائیں خلقِ خدا کی خاطر
ہماری مٹی پہ حرف آیا، تو عہدِ فتحِ مبیں لکھیں گے
خلیلِ آتش نشیں کی میراث کا تسلسل نگاہ میں ہے
سو امتحاں سے گزرنے والوں پہ حرفِ صد آفریں لکھیں گے
6 ستمبر 1965 پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے کہ جب ازلی دشمن بھارت نے اپنی بزدلی اور مکاری کا سہارا لیتے ہوئے رات کے اندھیرے میں وطن عزیز پاکستان پر غیراعلانیہ جنگ مسلط کر دی تھی۔ یہ ایسا مشکل وقت تھا کہ جب پاکستان کے پاس اسلحہ بارود کی بھی شدید کمی تھی اور باقی جنگی اسباب بھی بالکل مختصر تعداد میں تھے، جب کہ پاکستان کے مقابلے میں دشمن دس گنا زیادہ تیاری کے ساتھ آیا۔ اس وقت افواج پاکستان اور عوام نے ایسی مثالی رفاقت داری قائم کی کہ آج تک دنیا میں نہ کوئی مثال ملی ہے اور نہ ہی کہیں کوئی مثال ملے گی۔
دشمن نے رات کے اندھیرے میں تقریباً4 بج کر 5 منٹ پر اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ پاکستان پر اچانک حملہ کیا تھا لیکن اسے یہ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ سرحدوں کے محافظ، پاکستان کے شیرجوان جنہوں نے اس وطن کی حفاظت کی قسم کھائی ہے، جاگ بھی رہے ہیں اور ان پر کڑی نظر بھی رکھے ہوئے ہیں۔
دشمن اپنا خواب لے کر آیا تھا کہ ناشتہ لاہور کے جم خانے میں جاکر کریں گے، شام کو فتح کا جشن مال روڈ پر منائیں گے لیکن لاالہ الا اللّہ کا وِرد کرنے والے جوان جو ہمہ وقت تیار اور کامران رہتے ہیں۔ انہوں نے دشمن کے خواب چکناچُور کردیے، جو لاہور کو تر نوالہ سمجھ رہے تھے۔ وہ لیفٹیننٹ کرنل تجمل ملک کی 114 بلوچ رجمنٹ کا نوالہ بن گئے تھے اور پھر ہر طرف تباہ حال گاڑیاں اور درجنوں لاشیں پڑی ہوئی دشمن کے خواب غفلت کی گھناؤنی تصویر بنی ہوئی تھیں۔6 ستمبر 1965 کو دشمن بھارت نے پاکستان پر ایک ساتھ لاہور، امرتسر، کھرلا، گجرات، فیروز پور گنڈا سنگھ اور سلیمانکی جیسے متعدد مقامات سے حملہ کیا تھا۔ دشمن کا خیال تھا اتنے سارے مقامات پر پاکستان کے لیے دفاع کرنا ناممکن ہوجائے گا، لیکن اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست میں اس کے ساتھ جو ہونے والا تھا وہ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا۔
لاہور سے بلوچ رجمنٹ نے فوری عمل اس طرح سے کیا کہ گھاس کی لدی ہوئی بیل گاڑی کو خالی کر کے اس پر ریکوائل لیس رائفل لگا کر دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم وہیں پر روک دیے۔ ادھر سمندری حدود میں جب دشمن نے قدم بڑھانے کی کوشش کی تو پاکستان کی اکلوتی آبدوز نے بمبئی کی بندرگاہ پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ 23 ستمبر تک جاری رہنے والی اس جنگ میں پھر دشمن نے پانی کے راستے کوئی ہل چل نہیں کی، کیوںکہ ایک ہی حملہ میں دشمن کا سارا مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔
دوسری طرف پلک جھپکتے ہی پاک فضائیہ نے دشمن کے پانچ جہاز زمین بوس کر دیے تھے جس کے نتیجے میں دشمن کے ہوش ٹھکانے پر آ گئے تھے۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں پاکستانی قوم نے ہر لمحہ اپنی افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
لاہور شہر میں توپ کے دھماکوں کی آوازیں گونج رہی تھیں لیکن ہر شخص اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اگلے محاذ پر اپنی فوج کی ہمت بندھانے کے لیے نکل پڑا تھا۔ لوگ اس وقت اپنے ساتھ کھانا اور ہار لے کر جاتے تھے اور جاکر کھانا فوج کو کھلاتے جب کہ ہار توپوں کو پہنا دیتے تھے۔ اس جنگ کے وقت جرائم کا نام و نشان مٹ گیا تھا۔ ہر شخص اپنے ملک و قوم کے وقار کی خاطر لڑ رہا تھا۔ زخمیوں کو اسپتال میں خون کا عطیہ دینے کے لیے لوگ گھنٹوں لائن میں کھڑے رہتے تھے لیکن وہ اپنے فوجی جوانوں کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک دینے کے لیے تیار تھے۔
1965کی جنگ میں وطن کے ننھے منے بچوں، بڑے بوڑھوں اور خواتین نے وہ کام کر دکھایا جو ان کا نہیں تھا۔ ایسے مظاہرے چشم فلک نے کئی ایک محاذوں پر دیکھے ہوں گے اس دور کے ایسے تین بچے جہاں بھی ہوں خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ جو مورچوں میں دشمن سے برسرپیکار محافظین وطن کو پانی کی بالٹیاں پہنچایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک کی عمر بارہ دوسرے کی دس اور تیسرے کی ساڑھے آٹھ برس تھی ۔ وہ تینوں سگے بھائی تھے۔ والدین نے انہیں دعائیں دے کر یہ کام کرنے کو کہہ دیا تھا۔ سب سے چھوٹا محاذ جنگ سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلے پر واقع اپنے گاؤں میں اپنی ماں سے درمیانہ سائز کی پانی سے بھری بالٹی یا گھڑا لیتا اسے اٹھا کر تقریبا آدھا میل تک لے جاتا، جہاں اس سے بڑا بھائی کھیتوں میں کوئی ڈیڑھ میل کا فاصلہ طے کر کے تیسرے سب سے بڑے بھائی تک پہنچاتا اور پھر تیسرا بھائی اس پانی کو ایک خاص مقام تک پہنچایا کرتا، جہاں سے اس کے وطن کے سپاہی آکر خود لے جاتے تھے۔ یہ عمل ان بھائیوں نے جنگ کے خاتمے تک سترہ روز تک جاری رکھا۔
آفرین ہے اس بوڑھے ریڑھی بان پر جو محاذ کے نزدیک ترین ایک سرحدی گاؤں میں اکیلا صرف اس لیے رہتا تھا کہ وہاں سے پانی بھر کر اپنے فوجی جوانوں کی ضرورت پوری کرنے میں دن رات مگن رہے۔ محاورتاً تو یہی کہا جائے گا کہ قوم پشت پر تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ 1965 کی جنگ پاکستان کی قوم نے فوج کے شانہ بشانہ لڑی اور کام یابی حاصل کی۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے
6 ستمبر کا دن میجر راجا عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ کی کمان میں غازی نہر کے کنارے داد شجاعت دینے والے مجاہدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا ہے، جنہوں نے بھارتی فوج کے عزائم کو خاک میں ملا کر تاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔ 6 ستمبر کا دن بھارت کے علاقہ کھیم کرن تک اپنے نقوش پا چھوڑنے والے شہیدوں اور غازیوں کے آگے جبین نیاز غم کرنے کا ہے۔
6 ستمبر کا دن فاضلہ کا سیکٹر کے سرفروشوں کو عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کرنے کا ہے جن کے نعرۂ تکبیر کی صداؤں سے بھارتیوں کے دل ڈوبتے رہے۔
6ستمبر کا دن چھمب اور جوڑیاں کی پُرپیچ وادیوں اور اونچی کھائیوں کے چپے چپے پر بہادری کی داستانیں رقم کرنے والوں کی یاد میں گردنیں خم کرنے کا ہے۔ پاکستان کی عسکری اور دفاعی تاریخ کے روشن باب سے ہر دور کے افراد قوم کا آگاہ ہونا ضروری ہے کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت کس طرح رات کی تاریکی میں پاکستان پر چڑھ دوڑا تھا اور افواجِ پاکستان نے وطن عزیز کا دفاع کس جوان مردی کے ساتھ کیا تھا۔
لاہور کے محاذ پر ارض وطن کے مایہ ناز فرزندوں میجر راجا عزیز بھٹی (نشان حیدر) اور میجر شفقت بلوچ (ستارۂ جرأت جو بعد میں کرنل بنے) کی الگ الگ کمان میں صرف دو کمپنیاں تھیں۔ یہ کمپنیاں ایک ایک سو جانثاروں سے بھاری تھیں۔ بھارت نے اس سیکٹر پر توپ خانے کے ساتھ انفٹنری کی بھاری تعداد سے حملہ کیا تھا جب کہ پاکستان کی سرحدوں پر غیرمتوقع حملے کو روکنے کے لیے کوئی تیاری نہیں تھی۔ لیکن ہمارے جوانوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بلاشبہ 6 ستمبر 1965 ایک ایسا دن تھا جس نے پاکستان کے ایک ایک فرد کو جھنجھوڑ کر جگا دیا تھا۔ آج پاکستان کو اسی 1965 والے جذبے کی اشد ضرورت ہے، آج بھی پاک فوج کو بطور قوم ہماری ضرورت ہے، قومی یک جہتی کی ضرورت ہے، ملک سے بیرونی عناصر کو نکالنے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر ستمبر 1965 والے قومی و اجتماعی جذبے کی ضرورت ہے، کیوں کہ دفاع وطن کے تقاضوں کو آج بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
6 ستمبر کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے شہداء اور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یاد رکھیں کہ آزادی کی حفاظت اللّہ پر بھروسے، اپنے وطن عزیز سے بے پناہ محبت اور دفاع وطن کی قربانیوں کے جذبے سے ہوتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی اس جنگ نے ثابت کیا کہ جب ریاست کے عوام اور فوج متحد ہوکر ہی جنگیں لڑتے ہیں تو جیت جاتے ہیں۔ پاکستان پر خدا کی رحمت باد نسیم کی طرح سایہ فگن ہے اور ہمیشہ رہے گی.۔
آئیے یوم دفاع پر ہم سب مِل کر یہ عہد کریں کہ جب بھی پاکستان کو دفاع کی ضرورت پڑے گی تو پاکستان کا بچہ بچہ افواجِ پاکستان کے ساتھ مل کر وطن عزیز کا پورا دفاع کرے گا، کیوں کہ یہ تقاضے آج اس حوالے سے بھی اہمیت اختیار کرگئے ہیںکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے ایک نازک ترین دور سے گزررہا ہے اور اس کی افواج دفاع وطن کے لیے اندرونی اور بیرونی سرحدوں پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ ایک محاذ پر اسے بھارت جیسے شاطر اور کم ظرف دشمن کا سامنا ہے تو دوسری جانب اسے بیرونی اور اندرونی خلفشار کا بھی سامنا ہے۔ پاک فوج سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہے جو خدانخواستہ اس پاک سرزمین کی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کے درپے ہے۔ اس یوم دفاع پر دعا ہے کہ اللہ تعالٰی اس ملک کو سلامت رکھے اور پاک فوج میں یوں ہی وطن پر جانثار ہونے کا جذبہ قائم رکھے (آمین یارب العالمین)