ملکی بقا کی جنگ

آپ دنیا کے مہذب، منظم اور زندہ معاشروں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ تو معلوم ہو گا کہ زلزلے،


MJ Gohar July 10, 2014
[email protected]

آپ دنیا کے مہذب، منظم اور زندہ معاشروں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ تو معلوم ہو گا کہ زلزلے، طوفانوں اور سیلابوں کی شکل میں زمینی و آسمانی آفات ہوں یا سرحدی جنگیں اور وطن دشمن اندرونی قوتوں کے خلاف چیلنج درپیش ہوں، باوقار قومیں جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر حالات کا پامردی سے مقابلہ کرتی ہیں اور ایسے نازک حالات میں تمام مکاتب فکر کے لوگ اپنے سیاسی، مذہبی، جماعتی، گروہی اختلافات، رنجشوں، مخالفتوں اور نفرتوں کو بھلا کر ملک و قوم کو درپیش آزمائشوں سے نمٹنے میں پوری طرح یکسو، متحد و منظم ہو جاتے ہیں اور اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کر دیتے ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ جب 6 اگست 1945ء کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور 9 اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر امریکا نے ان شہروں کو تباہ و برباد کر دیا تو جاپانیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تاریخ ساز جدوجہد کی اور دنیا کو حیران کر دیا۔ بیرونی دنیا میں کام کرنے والے جاپانی ڈاکٹرز، انجینئرز، آرکیٹیکچرز، اساتذہ غرض ہر شعبے کے جاپانی وطن لوٹ آئے اور ملک و قوم کی ترقی و تعمیر نو کے لیے رضاکارانہ اپنی خدمات پیش کر دیں اور پھر دیکھتے یہ دیکھتے جاپان ترقی و کامیابی کی منزلیں طے کرتا چلا گیا۔

1965ء میں جب ازلی دشمن بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے ریڈیو ٹی وی پر خطاب کر کے قوم کا حوصلہ بڑھایا اور ملک بھر کے ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر پاک فوج کے شانہ بہ شانہ دشمن سے مقابلے کے لیے نعرہ تکبیر کی گونج کے ساتھ یک جان ہو گئے۔

آپ اکتوبر 2005ء کے زلزلے کی مثال لے لیجیے جس نے تباہی و بربادی کی الم ناک داستان رقم کی اس اندوہناک سانحے کے بعد کراچی تا خیبر پوری قوم زلزلے کے متاثرین سے ہمدردی ان کی بحالی اور محفوظ مستقبل کے حوالے سے اپنے اختلافات بھلا کر رات دن پاک فوج کی ریسکیو ٹیموں کے ساتھ کھڑی ہو گئی، ملک میں ہر سال آنے والے سیلابوں و طوفانوں کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے بھی پاک فوج، حکومت، تمام سیاسی و مذہبی رہنما اور عوام، ایک اسٹینڈ پر متحد و منظم نظر آتے ہیں جس سے ''اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں' سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں'' کا قومی تصور پختہ ہوتا ہے۔

افسوس کہ آج اس قومی جذبے کا فقدان نظر آ رہا ہے ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیز ایک مرتبہ پھر اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے پاک فوج جنرل راحیل شریف کی جرأت مندانہ قیادت میں قوم کی آستینوں میں ان چھپے درندہ صفت عناصر پر یلغار کر رہی ہے جو ہمارے فوجی جوانوں، سیکیورٹی اہلکاروں، بے گناہ معصوم بچوں، جوانوں، بزرگوں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو آگ و خون میں نہلا رہے ہیں۔

جو قوم کی ماؤں کی گود اور سہاگنوں کے گھر اجاڑ رہے ہیں، جو ہمارے سیاسی و مذہبی رہنماؤں، اسکالرز، ڈاکٹرز، انجینئرز ، وکلا، تاجرو صنعتکاروں، سماجی کارکنوں، قانون کے محافظوں اور نمازیوں کو خون میں ڈبو رہے ہیں، مساجد، امام بارگاہوں، اقلیتوں کی عبادت گاہوں، بازاروں، اسکولوں اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں تو ایسے مشکل وقت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری حکومت کے سیاستدان، مذہبی رہنما، سول سوسائٹی اور عوام سب متحد ہوکر اپنے اختلافات اور مفادات پس پشت ڈال کر اندرونی دشمن کے خلاف برسر پیکار پاک فوج کے افسروں و جوانوں کا مورال بلند کرنے کے لیے ان کی کامیابی و فتح یابی کے لیے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تو معلوم ہوتا کہ آزمائش کی اس گھڑی میں پوری قوم یکسو و یک جان ہے۔

لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا آج ارباب حل و عقد اور صاحبان اقتدار اپنے اختلافات بھلانے اور اپنے مفادات سے آگے بڑھ کر سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں انھیں قومی وقار اور ملکی مفادات کے تحفظ کی کوئی فکر نہیں بلکہ ان کے نزدیک سیاسی و جماعتی مفادات اور اقتدار کا دوام زیادہ عزیز ہیں۔ اسی لیے تو جناب وزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں بلکہ التجائیں کر رہے ہیں کہ ان کی ٹانگیں نہ کھینچی جائیں بلکہ پانچ سال کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تو ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے گزشتہ ایک سال میں کون سا کارنامہ انجام دیا ہے سوائے مذاکرات کی آڑ میں ملک دشمنوں کو پھر سے منظم و متحد ہوکر قوم پر حملہ آور ہونے کے بس یہی ایک ''کارخیر'' تو آپ کے فرد عمل میں ہے۔

مشکل اور امتحان کے لمحات میں قوم کو متحد و منظم رکھنے کی سب سے بڑی ذمے داری حکومت وقت کی ہوتی ہے کہ اسے اپوزیشن جماعتوں، مخالف قوتوں، عسکری اداروں اور عوام سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے لیکن افسوس کہ حکومت نے آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے پوری قوم کو اعتماد میں لینا مناسب نہ سمجھا۔ وزیر اعظم نے صرف پارلیمنٹ میں خطاب کو ہی کافی سمجھ کر اپنا ''فرض'' گویا پورا کر دیا حالانکہ صورت حال کی نزاکت کا تقاضا یہ تھا کہ سینیٹ و قومی اسمبلی کے بعد وہ ریڈیو و ٹی وی پر قوم سے خطاب کرکے ضرب عضب کے پس منظر و پیش منظر سے قوم کو آگاہ کرتے، فوج کا حوصلہ بڑھاتے اور آپریشن کے متاثرین آئی ڈی پیز کی ہمت افزائی کرے کہ حکومت انھیں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور آٹھ لاکھ سے زیادہ آئی ڈی پیز آج بھی حکومت کی راہ تک رہے ہیں۔

گرمی کے سخت موسم اور رمضان المبارک میں کیمپوں کے اندر پریشان حال متاثرین حکومت کی پہلی ذمے داری ہیں کہ وہ ان غمزدہ، دکھی اور بے سہارا بچوں، عورتوں، بزرگوں کی امداد و بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے، اگر حکومت موٹر ویز اور میٹرو بس جیسے منصوبوں پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کر سکتی ہے تو آئی ڈی پیز کے لیے کیوں خرچ نہیں کر سکتی۔

شاید حکومت کی اس جانب پوری طرح توجہ نہیں کیونکہ اس کی ساری توانائیاں تو عمران خان کے احتجاج کو دبانے ان کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے اور طاہر القادری کے انقلاب کے غبارے کو ''پنکچر'' کرنے پر صرف ہو رہی ہیں اور اس کام (پنکچر) کا انھیں خاصا تجربہ بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت خان اور قادری سے خوفزدہ ہے اسی لیے ایک جمہوری دور حکومت میں 17 جون کو ماڈل ٹاؤن جیسا خون آشام واقعہ پیش آیا پھر طاہر القادری کے طیارے کو ''ہائی جیک'' کر لیا گیا۔ حالانکہ نہ عمران خان کا لانگ مارچ اور نہ طاہر القادری کا انقلاب حکومت گرا سکتے ہیں۔ (ن) لیگ کو اپنے اندرونی اختلافات اور عسکری اداروں سے پیدا ہونے والے فاصلوں اور عوامی مسائل سے لاتعلقی کے باعث ہی نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔

آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ (ن) لیگ، پی پی پی، تحریک انصاف، جے یو آئی، جماعت اسلامی قوم سے یکجہتی کے اظہار کا عملی مظاہرہ کریں جیسا کہ ایم کیو ایم نے کراچی میں ایک شاندار جلسہ کر کے پاک فوج سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ فوج ملکی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے پوری قوم کو یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں