لینن ایک عظیم انقلابی کی داستان
لینن کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تبدیلی کبھی بھی آسان نہیں ہوتی
لینن، ایک نام جو تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے، اُس عظیم شخصیت کا نام ہے جس نے دنیا کے سب سے بڑے انقلاب کی قیادت کی، جس نے صدیوں سے چلی آرہی غلامی کی زنجیروں کو توڑا اور ایک نیا نظام قائم کیا۔ وہ نظام جو محنت کشوں، مزدوروں اورکسانوں کے حقوق کی بنیاد پر استوار ہوا۔ آج بھی، جب دنیا کے مختلف حصوں میں انسانیت کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے، لینن کی زندگی اور اُس کے خیالات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انصاف، برابری اور انسانی وقار کے لیے جدوجہدکبھی نہیں رکنی چاہیے۔
لیکن کون تھا یہ لینن؟ ایک انسان، ایک انقلابی یا پھر ایک خواب؟ وہ خواب جو انسانوں کی برابری، آزادی اور انصاف پر مبنی تھا۔ لینن کا اصل نام ولادیمیر ایلیچ اولیانوف تھا۔ وہ 22 اپریل 1870 کو روس کے ایک چھوٹے سے شہر سمبریسک میں پیدا ہوا۔ اُس کا خاندان علمی اور ثقافتی پس منظر رکھتا تھا۔ والد ایک استاد تھے اور ماں نے بھی تعلیم کی اہمیت کو سمجھا تھا۔ لینن کی ابتدائی زندگی میں ہی اُس کے بڑے بھائی الیگزینڈرکو انقلابی سرگرمیوں کی پاداش میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اس واقعے نے لینن کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور اُسے راہ انقلاب کی طرف گامزن کیا۔
لینن کی نظریاتی تربیت اُس وقت کے روسی معاشرے کی نابرابریوں، ظلم و ستم اور غربت کو دیکھ کر ہوئی۔ اُس نے کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے نظریات کو اپنایا اور محنت کش طبقے کے حق میں آواز بلند کی۔ اُس نے اپنی تعلیم کے دوران مختلف انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور جلد ہی روسی انقلابی تحریک کے ایک اہم رہنما کے طور پر اُبھرے۔
لینن کا سیاسی سفر اُس وقت کی روسی سماجی جبر اور زار شاہی کے خلاف تھا۔ اُس نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا کہ وہ ایک ایسے سماج کی تشکیل کرے گا جہاں ہر انسان کو برابر کے حقوق حاصل ہوں، جہاں غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو، اور جہاں ہر شخص اپنی محنت کا پورا معاوضہ حاصل کرسکے۔ لیکن یہ سفر آسان نہیں تھا۔ زار شاہی کے خلاف لڑائی میں لینن کو کئی بار جلاوطن کیا گیا، قید میں ڈالا گیا، لیکن اُس نے ہمت نہ ہاری۔ اُس نے اپنی جلاوطنی کے دوران بھی انقلابی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور پوری دنیا کے محنت کش طبقے کو متحد کرنے کے لیے کوششیں کیں۔
1917 کا انقلاب، جو تاریخ میں اکتوبر انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے، لینن کی قیادت میں کامیاب ہوا۔ یہ انقلاب نہ صرف روس کی تاریخ کا بلکہ پوری دنیا کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل تھا۔ اس انقلاب نے زار شاہی کو ختم کیا اور ایک سوشلسٹ ریاست کی بنیاد رکھی۔
لینن کے نظریات اور اُس کی قیادت نے روس کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔ اُس نے محنت کش طبقے کی حکومت قائم کی اور سوشلسٹ معاشرتی نظام کو عملی جامہ پہنایا۔ لینن کا خواب تھا کہ دنیا بھر کے محنت کش طبقے متحد ہوں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں۔ اُس نے ہمیشہ انسانیت، برابری اور انصاف کے اصولوں پر مبنی معاشرتی نظام کی حمایت کی۔
لیکن لینن کی زندگی ایک ایسے انسان کی داستان ہے جس نے اپنی تمام تر توانائیاں ایک ایسے خواب کی تعبیر میں صرف کردیں جو اُس کی آنکھوں کے سامنے مکمل نہ ہو سکا۔ 1924 میں، لینن کا انتقال ہوا، لیکن اُس کے نظریات اور اُس کا خواب آج بھی زندہ ہے۔
آج، جب ہم لینن کو یاد کرتے ہیں، تو ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اُس نے ہمیں یہ سکھایا کہ دنیا کی کسی بھی طاقت کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔ اُس نے ہمیں یہ درس دیا کہ اگر ہم انصاف، برابری اور انسانی وقار کے لیے لڑتے رہیں، تو ہمیں کبھی شکست نہیں ہوگی۔
لینن کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تبدیلی کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے جس میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں، لیکن اگر ارادہ مضبوط ہو اور مقصد واضح ہو تو کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لینن نے اپنی پوری زندگی اس بات کا ثبوت دیا کہ اگر ایک شخص اپنی تمام تر توانائیاں اور وسائل کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے وقف کردے، تو وہ دنیا کو بدل سکتا ہے۔
لیکن لینن کی زندگی کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ پہلو جو اُس کی شخصیت کی پیچیدگیوں کو عیاں کرتا ہے۔ لینن ایک نظریاتی رہنما تھے، لیکن اُن کی قیادت نے کئی سخت فیصلے بھی کیے جو انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بنے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جو لینن کے نام کو متنازع بناتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُس کی قیادت کے مثبت اثرات کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
آج کی دنیا میں، جب ہم لینن کے نظریات پر غورکرتے ہیں، تو ہمیں یہ سوال بھی اُٹھانا چاہیے کہ کیا اُس کا خواب آج کی دنیا میں ممکن ہے؟ کیا سوشلسٹ معاشرتی نظام، جس کی بنیاد لینن نے رکھی، آج کے دور میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے؟ لینن کے نظریات نے دنیا بھر میں انقلابات کو جنم دیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ نظریات کئی مقامات پر ناکام بھی ہوئے۔ اس ناکامی کی وجوہ پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ کیا یہ ناکامیاں انسانی فطرت کی پیچیدگیوں کا نتیجہ تھیں، یا پھر لینن کے نظریات کی عملی تطبیق میں مسائل تھے؟لیکن ایک بات جو یقینی ہے، وہ یہ کہ لینن کی زندگی اور اُس کے نظریات آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں انقلابی تحریکوں کے لیے ایک مشعل راہ ہیں۔ اُس نے ہمیں یہ سکھایا کہ جدوجہد کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی، اگر مقصد عظیم ہو اور ارادے مضبوط ہوں۔
لینن کی زندگی کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ اُس نے ہمیشہ مطالعے اور علم کو اہمیت دی۔ اُس نے اپنے نظریات کو علمی بنیادوں پر استوارکیا اور ہمیشہ کتابوں سے سیکھنے کی کوشش کی۔ اُس نے ہمیں یہ درس دیا کہ اگر ہم دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں، تو ہمیں علم اور مطالعے کو اپنا ساتھی بنانا چاہیے۔آج، جب دنیا ایک نئی معاشرتی اور اقتصادی صورتحال سے دوچار ہے، لینن کے نظریات کو ہمیں ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اُس نے جو خواب دیکھا تھا، وہ آج بھی انسانیت کے لیے ایک بہترین ماڈل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ ہم اُس کے نظریات کو موجودہ دورکے تقاضوں کے مطابق ڈھالیں۔
لینن کی زندگی اور اُس کے نظریات ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ تبدیلی کا سفر کبھی بھی آسان نہیں ہوتا، لیکن اگر ہم مسلسل جدوجہد کریں اور اپنے مقصد پر قائم رہیں، تو ہمیں کامیابی ضرور ملے گی۔ لینن کا خواب آج بھی زندہ ہے اور اُس کی روشنی میں ہم ایک نئے اور بہتر معاشرتی نظام کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
یہ کالم اُس عظیم شخصیت کے نام ہے جو ایک خواب دیکھنے کی جرات رکھتا تھا، اور اُس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ لینن کی زندگی ایک مثال ہے کہ اگر ہم اپنی تمام تر توانائیاں ایک عظیم مقصد کے لیے وقف کردیں، تو ہم دنیا کو بدل سکتے ہیں۔
لینن کا خواب، اُس کی جدوجہد اور اُس کی قربانیاں ہمیں ہمیشہ یاد دلاتی رہیں گی کہ انصاف، برابری اور انسانی وقارکے لیے لڑائی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ جنگ جو اُس نے شروع کی، آج بھی جاری ہے، اور اُس کی روشنی میں ہم ایک نئے اور بہتر معاشرتی نظام کی تعمیر کرسکتے ہیں۔
ارتقاء انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز نے لینن پر دو روزہ کانفرنس منعقد کی جس میں پورے ملک سے لکھاری، پروفیسر اور مفکرین نے اپنے مقالے پڑھے۔ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ لندن سے خاص طور پر مہمت مصطفی اس میں شرکت کے لیے آئے تھے، وہ لندن میں دو اخباروں کے ایڈیٹر ہیں اور ان کا تعلق لیبر پارٹی آف ترکی سے ہے، ان کا مقالہ قومی سوال پر تھا۔ کانفرنس میں چوہدری شوکت، خالد بھٹی، پروفیسر طاہرہ خان، بخشل تھلو، خرم علی، پروفیسر عظیم، فہد جتوئی، ناصر منصور، ڈاکٹر فرید پنجوانی اور ڈاکٹر ریاض شیخ شامل تھے۔
دو دن کی اس کانفرنس میں سیشن کو موڈریٹ کامران عباس، ڈاکٹر ہمہ غفار اور عابد علی نے کیا۔ ندیم سبطین نے لینن کا پورٹریٹ ارتقاء کے صدر کلیم درانی کو پیش کیا۔ جنید عوان نے مزدوروں کی نمایندگی کی اور آج جو مسائل مزدوروں کو درپیش ہیں ان کا ذکر کیا۔ اور لینن کی انقلاب کے لیے خدمات کو سراہا۔ فِضہ عباس کی نظم وومن لائک می کرشمہ نے پڑھ کر سنائی۔ آخر میں کلیم درانی نے کانفرنس کے مقررین کو ارتقاء کی طرف سے شیلڈ پیش کی۔