گھر میں اناج کا دانہ بھی نہیں

ادھر نیپرا نے ملک بھر میں بجلی کی قیمت میں ایک روپے 89 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دیدی


Dr Tauseef Ahmed Khan September 04, 2024
[email protected]

گھر میں اناج کا دانہ بھی نہیں۔ لاہورکے علاقے شاہدرہ ٹاؤن میں کرایہ کے مکان میں رہنے والا ایک محنت کش عقیل طویل عرصے سے روزگار سے محروم ہے۔خبر کے مطابق وہ مکان کا کرایہ سات ماہ سے ادا نہیں کرسکا۔ مالک مکان کرائے کا تقاضا کرتا تھا۔ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی تھی۔ عقیل اس قدر پریشان اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوا کہ اس نے بیوی، بچوں اور خود کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور سب کو زہر ملی گولیاں کھلادیں اور خود بھی یہ گولیاں کھائیں مگر اس نے عقل مندی کا ثبوت دیا اور ون فائیو پر کال کر کے ا پنی اس حرکت کی اطلاع پولیس کو دے دی۔ پولیس فوری حرکت میں آئی اور خودکشی کی کوشش کرنے والوں کے گھر پہنچ کر تمام افراد کو اسپتال منتقل کیا، یوں اس خاندان کی جان بچ گئی۔

ادھر ایک دوسری خبر کے مطابق بہاولپور کے قصبہ ڈیرہ نواب ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک 30 سالہ عورت نے اپنے سات سالہ بچے اور دوسالہ بچی کے ساتھ لاہور سے کراچی جانے والی تیز رفتار ریل گاڑی کے سامنے چھلانگ لگا دی۔ یوں عورت اور دونوں بچے جاں بحق ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق خودکشی کرنے والی خاتون نے غربت اور بھوک سے نجات کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ موت کا انتخاب کیا۔ اس خاتوں میں اتنی عقل نہیں تھی کہ وہ اپنے ارادے کے بارے میں پولیس کو اطلاع دیتی، یوں ممکن تھا کہ یہ قیمتی جانیں بچ جاتیں۔

ادھر نیپرا نے ملک بھر میں بجلی کی قیمت میں ایک روپے 89 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دیدی۔ ایک اندازے کے مطابق بجلی کی قیمت میں اضافہ سے صارفین پر142 ارب روپے کا اضافی بوجھ بڑھے گا، اکتوبر اور نومبر کے بلوں میں یہ اضافہ شامل ہوگا۔ کے الیکٹرک نے کراچی میں بجلی کے صارفین کے لیے 3 روپے فی یونٹ بجلی بڑھانے کے لیے نیپرا سے رجوع کرلیا ہے۔

نیپرا کے آیندہ اجلاس میں کے الیکٹرک کی اس عرض داشت پر غور ہوگا۔ حکومت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے تنخواہ دار طبقے کے علاوہ تاجروں اور زراعت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد پر نئے ٹیکس عائد کرنے کا بجٹ میں اعلان کیا تھا۔ بجٹ کی منظوری کے بعد تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکسوں کی وصولی کا سلسلہ شروع ہوا۔ تنخواہ دار طبقے کے ٹیکس کے مسلسل بوجھ پر سیاسی جماعتوں نے خاصا احتجاج کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دکانداروں نے 34 ارب روپے اور تنخواہ دار طبقہ نے 375 ارب روپے کے ٹیکس ادا کیے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ 50 لاکھ کے قریب دکاندار اب تک فائلر نہیں ہیں۔ کراچی میں پروفیشنل لوگوں کی ایک کمیٹی بھی قائم ہوئی۔

اس کمیٹی نے ایک پریس کانفرنس کر کے اور پھر خاموش مظاہرہ کر کے اربابِ اختیارکی توجہ تنخواہ دار طبقہ کے حالاتِ زار کی طرف مبذول کرائی۔ اخبارات میں کئی دنوں سے آرٹیکلز اور اداریے شایع ہوئے مگر اسلام آباد میں ٹیکس کے معاملات کے ماہرین نے تنخواہ دار طبقہ کے مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں لیا، البتہ حکومت نے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ''تاجر دوست اسکیم'' نافذ کرائی۔ اس اسکیم کے تحت بڑے تاجروں کے علاوہ چھوٹے تاجروں پر بھی انکم ٹیکس عائد کیا گیا۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا بیانیہ ہے کہ چھوٹے اور بڑے تاجروں پر یکساں ٹیرف کا اطلاق کیا گیا ہے جوکہ شدید ناانصافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی کا مشہور زمانہ ایم اے جناح روڈ جو جیل چورنگی سے شروع ہوکر ٹاور پر ختم ہوتا ہے۔

اس کے آس پاس ماہانہ کروڑوں روپے کا کاروبار کرنے والے تاجر بھی ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ تک کاروبار کرنے والے بھی شامل ہیں، یوں تاجر دوست اسکیم میں تمام قسم کے تاجروں کے ساتھ یکساں سلوک ہورہا ہے۔ وزیر خزانہ اورنگزیب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کے لیے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اشد ضروری ہے، وہ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی میاں شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے تاجروں پر ٹیکس لگانے کے لیے درست پالیسی اختیار کی تھی، اگر اس وقت کی حکومت تاجروں پر ٹیکس لگانے کی پالیسی ترک نہ کرتی تو بجٹ کا خسارہ کم ہوتا۔ تاجروں نے تاجر دوست اسکیم کے خاتمے کے لیے 28 اگست کو پورے ملک میں ہڑتال کی۔ تاجر رہنماؤں سے زیادہ جماعت اسلامی نے تاجروں کی ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے کوششیں کیں۔ جماعت اسلامی کے امیر انجنیئر حافظ نعیم الرحمن نے تاجروں کے احتجاجی ایجنڈے کے ساتھ بجلی کے نرخ کم کرنے، آئی پی پیز سے معاہدوں کے خاتمے اور مہنگائی کم کرنے کے مطالبات بھی پیش کردیے۔

تاجر رہنماؤں نے تو پورے ملک میں دکانیں بند کرنے کی اپیل کی تھی۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے کی شہروں میں سڑکیں بند کرنے اور سڑکوں پر ٹائر جلا کر اپنے مطلوبہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پوری طاقت استعمال کی، یہی وجہ ہے کہ کئی شہروں میں پٹرول پمپ بند رہے۔ بعض پرائیوٹ اسکولوں میں تعطیل کردی گئیں۔ پٹرول نہ ملنے کی افواہیں پھیلنے سے سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کی رفتارکم رہی۔ کراچی میں تاجروں کا دعویٰ ہے کہ شہرکی 90 فیصد مارکیٹیں بند رہیں۔ وزیر اعظم کے کوآرڈی نیٹر احسان افضل نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت کسی صورت تاجروں کے دباؤ میں نہیں آئے گی۔ وفاقی وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے تو تاجروں کی ہڑتال پر اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیا کہ تاجروں کو بھی ٹیکس دینا چاہیے مگر حکومت تاجروں سے بات چیت ضرورکرے گی۔ پورے ملک میں خاص طور پر لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں تاجروں کی کامیاب ہڑتال سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسلم لیگ ن جوکبھی پنجاب کے تاجروں کی جماعت سمجھی جاتی تھی اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور اب تاجر مسلم لیگ ن کے حلیفوں میں شامل نہیں رہے۔

میاں نواز شریف کی ملک واپسی کے بعد ان کی لاہور میں مسلسل موجودگی کی بناء پر مسلم لیگی حلقوں میں یہ تاثر قائم ہوا تھا کہ خاص طور پر لاہور، فیصل آباد، گجرانوالہ اورگجرات وغیرہ کے تاجر پھر مسلم لیگ ن کے حلیف بن جائیں گے، یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوا ہے۔ تاجر ہمیشہ سے جماعت اسلامی کے بڑے عطیہ کنندگان میں شامل رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے اندرونی ذرایع کہتے ہیں کہ 90 کی دہائی میں عراق پر امریکا کے حملے کے بعد جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کے لیے تاجر اور صنعت کار عطیات دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے تاجروں کی ہڑتال کی کامیابی کے لیے خاصا زور لگایا۔ تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کے مطالبات نہ مانے تو پھرکئی دن کی ہڑتال ہوگی۔

ملک کے ایک بڑے اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس اسکیم میں تاجروں کی مرضی کی تبدیلیوں کے لیے تیار ہوگیا ہے اور جلد ہی ایف بی آر اور تاجروں کے درمیان مذاکرات ہوںگے اور مثبت نتائج سامنے آئیں گے مگر تصویرکا دوسرا رخ یہ ہے کہ تاجروں کی ہڑتال کی بناء پر اسٹاک مارکیٹ میں مندی کے بادل چھائے رہے۔

کراچی اسٹاک مارکیٹ میں کے ایس ای 100 انڈکس میں 91پوائنٹ کی کمی ہو کر 78 ہزار پوائنٹس کی حد تک برقرار رہی۔ دوسری طرف پرچون فروشوں کی ہڑتال کی بناء پر ٹیکس ہدف کا حصول مزید مشکل ہوگیا اور معیشت کے ایک ماہر نے خدشہ کا اظہارکیا کہ ایف بی آر اگست 2024میں بہت بڑے خلاء کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کا پروگرام متاثر ہوسکتا ہے، یوں آئی ایم ایف ٹیکس جمع کرنے میں خلاء کے حوالے سے مزید شرائط کا راستہ ہموار ہوگیا۔ آئی ایم ایف کے بورڈ کے اجلاس میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی پیشگی شرائط پوری نہ ہونے سے پاکستان کے معاملہ پر غور نہ ہوا تو پھر وفاقی حکومت منی بجٹ لانے پر مجبور ہوگی جس میں تنخواہ دار طبقہ پر نئے ٹیکس اور بجلی کے ٹیرف پر نظرثانی ہوگی اور مہنگائی اور بے روزگاری کا ایک نیا دور آئے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔